امتحان بلائے جان

333

رضوانہ وسیم
گھنٹی بجنے پر امی نے جا کر جلدی سے گیٹ کھولا ربیعہ سلام کرتی ہوئی اندر داخل ہوئی اس کے چہرے پر سخت بے زاری تھی امی نے پیار سے کہا ’’بیٹا کیا بات ہے تمہارا موڈ کیوں آف ہے؟‘‘
ربعیہ بری سی شکل بنا کر بولی ’’امی میں ہر روز کے ان امتحانوں سے بہت تنگ آگئی ہوں اسکول والے ہمیں چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتے۔ ہر وقت کسی نہ کسی امتحان کی تلوار ہمارے سر پر لٹکتی رہتی ہے زندگی عذاب ہو گئی ہے امتحان نہ ہوئے بلائے جان ہو گئے یہ عذاب وقفے وقفے سے ہم پر نازل ہوتا رہتا ہے پتا نہیں کب امتحانوں سے جان چھوٹے گی اللہ کرے جلدی سے پڑھائی ختم ہو تو ہم بھی سکھ کا سانس لیں‘‘۔ ربیعہ کے بگڑے تیور دیکھ کر امی نے رسانیت سے کہا ’’بیٹا تم پہلے ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھا لو ہم اس موضوع پر پھر بات کریں گے‘‘۔
’’میں کھانا لگواتی ہوں‘‘ کھانے کے بعد ربیعہ کا موڈ کچھ بہتر ہوا تو امی نے پیار سے ربیعہ کو پاس بٹھایا اور اسے سمجھایا کہ ’’بیٹا یہ امتحان انسان کی بہتر زندگی کی ضمانت ہوتے ہیں کیونکہ کسی کی بھی کارکردگی کو جانچنے کا یہ واحد ذریعہ ہے تم جانتی ہو کہ انسان کو اللہ نے اس دنیا میں بے مقصد نہیں بھیجا اور ہمیں ایک ضابطہ اور دائرے میں رہ کر اپنی زندگی گزارنی ہے ہم اپنے کسی فعل میں آزاد نہیں ہیں ہمیں اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہے میں ایک مثال دیتی ہوں دو طالب علم ہیں ان میں سے ایک تو سارا سال محنت سے پڑھائی کرتا ہے جبکہ دوسرا پورا سال اپنا وقت غیر ضروری کاموں میں ضائع کرتا ہے ایک لائق ہے دوسرا نالائق تو کیا ہم ان دونوں کو ایک جیسا مان سکتے ہیں یقینا نہیں تو اب اگر کوئی چیز ان دونوں کو الگ ثابت کر سکتی ہے وہ صرف امتحان ہے امتحان کا رزلٹ ان دونوں کا فرق بتا سکتا ہے رزلٹ کے دن محنتی طالب علم کے لیے خوشی اور اعزاز کا باعث ہوتا ہے اس کو اپنی محنت کا ثمرمل جاتا ہے‘‘ ’’امی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں لیکن آپ خود سوچیں پورا سال مختلف ناموں سے ٹیسٹ اور امتحان کا سلسلہ جاری رہتا ہے ہم بھی تو انسان ہیں تھک جاتے ہیں‘‘ ربیعہ نے ایک اور تاویل پیش کی تو امی نے کہا ’’لیکن بیٹا تم یہ بھی دیکھو یہ چھوٹے بڑے امتحان اور ٹیسٹ تمہارے سالانہ امتحان کی تیاری میں بھی تو کام آتے ہیں۔ تم پر ایک ساتھ پڑھائی کا بوجھ نہیں پڑتا۔ یہی اصول زندگی کا ہے اللہ نے ہمیں جو زندگی عطاء کی ہے وہ بھی آزمائشی ہے کیونکہ جو بندہ اپنے رب کے بتائے ہوئے راستے کو اپناتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے اور جنت کا حقدار کہلاتا ہے اور جو بندہ اپنے رب کے بتائے ہوئے احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ ناکام اور جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے اور ساری زندگی دوزخ کا عذاب جھیلتا ہے اچھے رزلٹ کی خواہش انسان کو محنت اور کوشش کی ترغیب دیتی ہے اور وہ بہترین صلاحیتیں استعمال کرکے دنیا اور آخرت میں عزت پاتا ہے یہ امتحان نہ ہو تو اچھائی کی جدوجہد دم توڑ دے گی کیونکہ اگر ہر کوئی گرفت نہ ہو تو پھر محنت اور کوشش کا راستہ کون اپنائے گا؟‘‘
ربیعہ پر سوچنے کے انداز میں بولی ’’امی اس کا مطلب ہے کہ صرف ہم طالب علم ہی نہیں بلکہ تمام انسان یہ امتحان دے رہے ہیں‘‘ ’’ہاں ربیعہ جنت کا شوق اور دوزخ کا خوف ہمارے معیارِ زندگی کو بہتر بناتا ہے۔ کیونکہ برائی کا راستہ بہت پر فریب اور پر کشش ہوتا ہے لیکن قرآن اور سنت کے ذریعے انسان کو رہنمائی ملتی ہے اور وہ برائی سے دور رہتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو معاشرے میں خوفناک بگاڑ پیدا ہو جائے گا ہم جانتے ہیں کہ ہم پر ایک ان نگران ہے جو ہماری تمام نقل و حرکت دیکھ رہا ہے لہٰذا جزا اور سزا کا تصور انسان کو بھٹکنے سے بچالیتا ہے انسان کو اللہ نے بے لگام نہیں چھوڑا ہے ہمارے ہر عمل کا حساب کتاب پورا پورا لیا جائے گا۔ لہٰذا یہ امتحان دراصل بلائے جان نہیں بلکہ برائے امان ہیں۔‘‘ ربیعہ کے دل میں پڑی گرہ اب کھل چکی تھی۔ وہ امی کے گلے لگ گئی کہ انہوں نے کتنی آسانی سے اسے یہ بات سمجھا دی تھی اب ربیعہ کا ذہن بالکل صاف ہو چکا تھا۔ اسے امتحانوں کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا تھا۔

حصہ