اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کا مذاکرہ اور مشاعرہ

570

ڈاکٹر نثار احمد نثار
اکادمی ادبیات پاکستان سندھ کے زیر اہتمام سندھی زبان کے مشہور صوفی شاعر سچل سرمست کی یاد میں مذاکرہ و محفل مشاعرہ کا انعقاد اکادمی ادبیات کراچی کے دفتر میں کیا گیا جس کی صدارت معروف شاعر ضیا شہزاد نے کی۔ مہمان خصوصی نامور شاعرہ فاطمہ زہرا جبیں تھیں۔ اپنے صدارتی خطاب میں ضیا شہزاد نے کہا کہ سچل سرمست کا پہلا کلام سرائیکی زبان میں 1958ء میں شائع ہوا۔ سچل سرمست سندھی‘ سرائیکی‘ اردو اور فارسی کے ایک منفرد انداز رکھنے والے صوفی شاعر تھے‘ آپ کے کلام میں تصوف سے لے کر حسن و عشق اور وقت کے حالات کا بھی خوب ادراک ہے۔ منصور تمام عاشقوں کے بادشاہ ہیں‘ آپ نے عشق میں اپنے آپ کو سولی پر لٹکا یا اور عاشقوں کے مجمع میں اپنا سر بلند کیا۔ منصور والی مستی سچل سرمست کے پاس بھی ہے اور آپ کو یہ مستی عشق کی وجہ سے نصیب ہوئی۔ مہمان خصوصی فاطمہ زہرہ جبیں نے کہا کہ عاشق پر جب جذب اور سرمستی کے عالم میںوجد طاری ہو جاتا ہے تو اناالحق کا نعرہ لگاتے ہیں سچل سرمرست بھی عشق کی مستی کی کیفیت میں اناالحق کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور وہاں پر مجازی عشق کا بھی خوب تذکرہ کرتے ہیں‘ آپ ایسے محبوب کے زلفوں کے اسیرہوتے ہیں جن کے کئی عاشقوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ میں نے جب محبوب کو دیکھا تو میرا دل میرے ہاتھوں سے نکل کر میرے محبوب کی زلفوں میں پھنس جاتا ہے۔ یہ زلفیں سانپ کی طرح گھنگھریالے لگ رہے تھے۔ اس موقع پر معروف شاعرہ زیب النساء زیبی نے کہا کہ سچل سرمست کہتے ہیں کہ عشق کی آگ میں جب جب روح قبض ہو کر حقیقی مالک سے ملتی ہے تو پھر عاشق کے لیے ظاہری عبادت کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ کعبۃ اللہ میں طواف کے بدلے اپنے آپ میں طواف کروں کیوں کہ عشق عاشق کے لیے سارے مذہبی رسومات کی پابندیاں ختم کر دیتا ہے۔ مسلسل جدوجہد کے بعد آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے دور نہیں بلکہ وہ ان کے بہت ہی قریب ہے تب ہی آپ فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا تھا کہ یار مجھ سے کافی دور ہے لیکن نہیں وہ میرے بہت ہی قریب ہے۔ اس موقع پر شہناز رضوی نے کہا کہ شاعری وقت اور حالات کے تناظر میں آگے بڑھتی ہے۔ شاعری کی طرف شاعر کا رویہ بڑی اہمیت رکھتا ہے شاعر جب تک اپنے زمانے کے عام لوگوں کی حالات سے باخبر نہیں ہوتا اس وقت تک ان کی شاعری میں وہ زندگی پیدا نہیں ہوتی جو اس کی شاعری کو بیدار کرے۔ آپ کے دور میں آپ کے کلام میں سیاسی‘ سماجی‘ مذہبی اور تاریخی حالات واضح طور پر سامنے آتے ہیں۔ سچل سائیں کے کلام میں سماج کے تمام حالات واضح نظر آتے ہیں۔ اس موقع پر قادر بخش سومرو نے کہا کہ حیرت اس بات کی ہے کہ سچل سرمست کو یہ پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ وہ کون ہیں کافر ہیں یا مومن‘ وہ ایسی جگہ پہنچے ہوئے ہیں جہاں سارے تعلقات کو توڑ کر اپنے آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں لیکن ان کو اپنے آپ کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ آپ پر کوئی بھی پابندی لاگو نہیں ہے آپ تو حیرت کی وادی میں گم صم ہیں۔ سچل کے جمالیاتی کلام میں جذبات کا وہ رنگ محل جڑا ہوا ہے جو صنف شاعری کو اوپر لے جاتا ہے۔ اس موقع پر شعرائے کرام فاطمہ زہرا جبیں‘ زیب النساء زیبی‘ افروز رضوی‘ عشرت حبیب‘ نجیب عمر‘ ضیا شہزاد‘ شہناز رضوی‘ زارا صنم‘ انوار علی صدیق راز ایڈووکیٹ‘ محسن سلیم‘ سجاد میرانی‘ نشاط غوری‘ محمد رفیق مغل‘ جمیل ادیب سید‘ سحر علی‘ سید علی اوسط جعفری دل شاد دہلوی‘ سید مہتاب علی شاہ‘ قمر جہاں قمر‘ الحاج نجمی‘ ذوالفقار علی جسکانی‘ ڈاکٹر رحیم ہمروز‘ تاج علی رعنا‘ شجاع الزماں خان‘ نسیم فاطمہ رضوی‘ الطاف احمد‘ اقبال رضوی‘ فرحت اللہ قریشی نے اپنا کلام سنا کر سچل سرمست کو خراج عقیدت پیش کیا۔

صدائے محصورین فائونڈیشن پاکستان کے زیراہتمام مشاعرہ

صدائے محصورین فائونڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام اورنگی ٹائون کراچی میں مشاعرہ منعقد ہوا جس میں شعرائے کرام کے علاوہ زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد شریک ہوئے خاص طور پر ’’اورنگی والے‘‘ کی پوری ٹیم مہتاب‘ عاکف مسعود وغیرہ۔ سندھ آرٹس اینڈ کلچر آرگنائزیشن کے روح رواں فیض عالم خان‘ سیف اللہ‘ معراج سید‘ امتیاز احمد اور محمد صابر نے شرکت کی۔ کامران بشیر نے نعت رسولؐ پیش کی۔ مشاعرے کی صدارت معروف شاعر و صحافی ذاکر حسین عادل نے کی۔ مہمان خصوصی شرف الزماں صدیقی تھے‘ مہمانان اعزازی میں صداقت حسین‘ لئیق احمد خان‘ امتیاز احمد‘ جمال احمد صدیقی اور معراج سید شامل تھے۔ نظامت کے فرائض محمد علی سوز اور مہتاب عالم نے انجام دیے اس موقع پر شرف الزماں صدیقی نے کہا کہ اورنگی کے رہنے والوں نے دو ہجرتیں کیں اور دو مرتبہ قربانیاں دیں ایک دفعہ پاکستان بنانے کے لیے اور دوسری دفعہ پاکستان بچانے کے لیے۔ ہم بانیانِ پاکستان کی اولاد ہیں علم و ادب ہمارا سرمایہ تھا جو ہم نے گنوا دیا۔ ہم نے ایم ایم عالم جیسا جاں باز سپاہی دیا‘ ہمارے اب بھی بے شمار مجاہد ہیں جو پاکستان کی سالمیت پر قربان ہونے کے لیے تیار ہیں۔ اس وقت پاکستان مختلف مسائل میں گھرا ہوا ہے ہمارے دشمن ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں‘ ہم بے شمار فرقوں میں تقسیم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا شیرازہ بکھر گیا ہے‘ آیئے آج ہم عہد کریں کہ ہم پاکستان کی بقا کے لیے متحد ہو جائیں‘ مجھے امید ہے کہ اگر ہم ایک ہو گئے تو کوئی طاقت ہمیں زیر نہیں کرسکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اچھے لوگ ہمیشہ اپنے محسنوں کو یاد رکھتے ہیں اس تناظر میں آج کی تقریب بہت اہم ہے او ہمارا فرض ہے کہ ہم پاکستان پر جان نچھاور کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتے رہیں اور نوجوان نسل کو بھی ان کے کارناموں سے آگاہ کریں۔ مشاعرے میں ذاکر حسین عادل‘ عبیداللہ ساگر‘ نورالدین موج‘ عثمان قیصر‘ کامران بشیر‘ ندا خان‘ اسلام الحق‘ حشمت اعظمی‘ ارشاد تکلم‘ قمرالزماں پیہم‘ آرزو انجم‘ محبوب حسین محبوب‘ ظہیرالدین شیدائی‘ اکرام الحق اورنگ‘ ڈاکٹر رفیع احمد‘ سلیم عکاس‘ شاہین مبارک‘ بشیر گوہر‘ فراز احمد نجمی‘ محمد وارث علی‘ شاہ جہاں‘ مہتاب عالم مہتاب اور محمد علی سوز نے کلام پیش کیا۔

اردو ادب روبہ زوال نہیں ہے‘ سلمان صدیقی

معروف شاعر اور ٹی وی اینکر سلمان صدیقی نے کہا ہے کہ اردو زبان و ادب روبہ زوال نہیں ہے‘ اردو زبان اب بین الاقوامی زبانوں میں شامل ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ زبان بولی جارہی ہے عرب امارات‘ کینڈا‘ بھارت اور امریکا میں بھی اردو مشاعرے و مذاکرے ہو رہے ہیں اس زبان کی ترقی کا سفر جاری ہے‘ اردو کو علاقائی زبان کہنا مناسب نہیں ہے یہ پاکستان کی قومی زبان ہے اس کا کسی زبان سے ٹکرائو نہیں۔ صوبائی زبانیں مستحکم ہوں گی تو اردو زبان مزید ترقی کرے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے یامین اختر کی رہائش گاہ پر منعقدہ محفل مشاعرہ کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود پاکستان میں اردو سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہیں کر پائی ہے تاہم اس سلسلے میں کام ہو رہا ہے امید ہے کہآئندہ سرکاری احکامات اردو میں جاری ہوں گے۔ اس وقت پاکستان میں اردو ادب کے دو اہم مراکز ہیں دبستان کراچی اور دبستان لاہور جہاں تمام اصنافِ سخن پر کام ہو رہا ہے۔ غزل اب اپنے روایتی انداز کے علاوہ جدید لب و لہجہ اختیار کر چکی ہے اب غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ غم زمانہ بھی اس صنفِ سخن کا طرۂ امتیاز ہے۔ غزل اس حوالے سے بھی بہت اہم ہے کہ اس کے دو مصرعوں میں بڑے سے بڑا مضمون باندھا جا سکتا ہے لیکن نظم کہنے والا شاعر بڑا شاعر مانا جاتا ہے البتہ نثری نظم کا کوئی مستقبل نہیں ہے اس کا کوئی رول ماڈل بھی ہمارے سامنے نہیں ہے اس وقت نوجوان شعرا بہت تازہ کاری کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں بالخصوص کراچی میں کئی اہم نوجوان شعرا منظر نامے میں جگہ پا رہے ہیں یامین اختر نے کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ جب کراچی میں مشاعرے اور تنقیدی نشستیں اپنے عروج پر تھیں اس وقت مشاعرے تو ہو رہے ہیں لیکن تنقیدی نشستوں کا دور دور تک پتا نہیں ہے تنقیدی نشستوں کے حوالے سے کئی اہم نام ہمارے ذہنوں میں ہیں ان میں سے ایک اہم نام نقاش کاظمی کا ہے جو ان دنوں شدید علیل ہیں اللہ تعالیٰ انہیں صحت عطا فرمائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ اس موقع پر جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں یامین اختر‘ سلمان صدیقی‘ صفدر علی انشاء ‘ عارف شیخ عارف‘ جاوید ہمایوں‘ زبیر اکرم‘ شہناز روبی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد‘ زبیر صدیقی اور ماہ جبیں شامل تھے۔

قمر جمالی امروہوی اور سہیل غازی پوری اب اس دنیا میں نہیں رہے

قمر جمالی امروہوی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے‘ وہ شاعر تھے اور سماجی رہنما بھی۔ انہوں نے زنددگی بھر عوام کی خدمت کی‘ انہوں نے محمود آباد کالونی کی تعمیر و ترقی میں کارہائیٔ نمایاں انجام دیے۔ وہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں بھی فعال تھے اس کے علاوہ وہ بہت سے ادبی اداروں کے سربراہ تھے۔ وہ اردو زبان و ادب کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ وہ شعر و سخن کی ترویج و اشاعت میں مصروف لوگوں کی مالی اعانت بھی کرتے تھے۔ ان کی ادبی تنظیم کا نام دبستان مصحفی ہے جس کے تحت وہ ہر ماہ تواتر سے اپنے گھر پر مشاعرے ترتیب دیا کرتے تھے تاہم ان کی علالت کے باعث یہ مشاعرے بند ہو چکے ہیں۔ قمر جمالی امروہوی کا نام مثال احمد خان تھا وہ 3 جنوری 1925 کو امروہہ ضلع مراد آباد یوپی بھارت میں پیدا ہوئے اور دسمبر 2018ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ان کی نماز جنازہ محمود آباد میں اد اکی گئی اور وہ کراچی میں آسودۂ خاک ہوئے۔ انہوں نے ایڈور ٹائزنگ کے شعبے میں بھی نام کمایا۔ وہ حکیم فوقی انجم کے شاگردوں میں شامل تھے۔ ان کا شعری سفر پانچ دہائیوں پر مشتمل ہے ان کے چار مجموعے شائع ہوہے صحرا میں شجر اور زخم آشنائی اس وقت بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ وہ ایک سینئر شاعر تھے غزل ان کا ذریعۂ اظہار تھا۔ وہ انسان دوست شاعر تھے ان کی غزلوں میں ہجرت کا کرب نمایاں ہے اس کے علاوہ ان کی شاعری تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے۔ زبان کی صحت اور عروض کے تقاضوں سے وہ خوب واقف تھے انہوں نے حمدیہ کلام بھی کہا اور سلام و نعتیں بھی کہی ہیں ان کے انتقال سے ہم ایک علم دوست شخصیت سے محروم ہو گئے ہیں۔
سہیل غازی پوری ایک سینئر شاعر و صحافی تھے‘ انہوں نے روایتی غزل کو نیا شعری پیکر دیا‘ ان کے کلام میں معانی و مفاہیم کی تہہ داری نمایاں تھی اس اعتبار سے وہ اپنے ہم عصر شعرا میں زیادہ اہمیت کے حامل تھے‘ انہوں نے اپنی غزل میں زندگی کے مختلف روّیوں کو برتا۔ کراچی کے منظر نامے میں سہیل غازی پوری کی ادبی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے پندرہ شعری مجموعے منظر عام پر آئے جنہوں نے ان کے ادبی قد و قامت میں اضافہ کیا۔ سہیل غازی پوری کا خاندانی نام سہیل احمد خان ہے وہ 30 جون 1934ء کو ہندوستان کے شہر غازی پور میں پیدا ہوئے۔ شبلی کالج اعظم گڑھ سے گریجویشن کیا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد وہ ڈھاکا شفٹ ہوئے اور اے جی آفس میں ملازمت کی۔ انہوں نے دوسری ہجرت ڈھاکا سے کراچی کے لیے اور وہ مرتے دم تک اس شہر میں رہے اور یہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ انہوں نے 1994ء تک کراچی کسٹم میں ملازمت کی‘1951ء میں شاعری کا آغاز کیا وہ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی جانے پہچانے جاتے تھے۔ ان کی زیر ادارت ایک سہ ماہی رسالہ ’’شاعری‘‘ کا اجرا ہوا جس کا 66 واں شمارہ حال ہی میں شائع ہوا۔ اس رسالے کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں ہر عبارت منظوم ہوتی ہے۔ سہیل غازی پوری عبرت الٰہ آبادی کے شاگرد تھے۔ ان کی نظموں کے بھی کئی مجموعے شائع ہوئے۔ ان کی ادبی خدمات کے صلے میں انہیں علامہ نیاز فتح پوری ایوارڈ اور نیشنل بینک اکادمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ وہ 24 نومبر 2018ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے‘ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے‘ آمین۔

حصہ