کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے

602

زاہد عباس
’’یہ کیا ڈرامے بازی ہے، گندے پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے پورے علاقے کا ہی پانی بند کردیا ہے! ہم بے وقوف نہیں جو تمہاری چالاکیوں میں آجائیں۔ ہر دوسری سڑک کھود کر کیا بتانا چاہتے ہو! پچھلے مہینے سے یہی رونا دھونا لگا ہوا ہے… کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے… انسانیت نام کی کوئی چیز ہے تم میں! کہاں ہے تمہارا صاحب جس نے یہ قیامت ڈھا رکھی ہے؟‘‘
’’آپ پریشان نہ ہوں، آپ کے مسئلے پر ہی کام کررہے ہیں، تھوڑا سا وقت دیں سب ٹھیک ہوجائے گا، یوں لڑنے جھگڑنے سے کیا حاصل ہوگا!‘‘
’’آواز بند کرو اپنی… ایک تو یہ وقت مانگنے کا عجیب دور آگیا ہے، ہمارے حکمران ہوں یا کوئی ادارہ، ہر کوئی بس یہی کہتا دکھائی دیتا ہے کہ تھوڑا سا وقت دے دو۔ علاقے میں پانی کی سپلائی منقطع ہوئے ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے، بجائے مسئلہ حل کرنے کے، باتیں بنا رہے ہو! اور کتنا وقت درکار ہے تم کو؟ خدا کا خوف کرو۔ گھروں میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے ٹینکر مافیا کے متھے لگنا پڑ رہا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں ہزاروں روپے دے کر ٹینکر ڈلوانے پڑرہے ہیں، اور تم کہتے ہو کہ تھوڑا سا وقت دے دو…!‘‘
’’آپ تو خوامخواہ غصہ کر رہے ہیں دیکھیے یہاں پر بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں یقین جانیے آپ کا ہی کام ہو رہا ہے پانی کی سپلائی پیچھے سے ہی نہیں ہے ہماری مجبوری ہے ہم کیا کریں ہر دوسرا آدمی آکرہم سے لڑنے کھڑا ہو جاتا ہے خدارا ہمیں کام کرنے دیں۔‘‘
’’کیا کام کر رہے ہو جب سے میں دیکھ رہا ہوں یہاں بیٹھے باتیں ہی کیے جا رہے لوگ گھروں میں پیاسے مر رہے ہیں اور تم ہو کہ بات تک سننے کو تیار نہیں! تم سب لوگ کرپشن کرتے ہو، پورا محکمہ ہی کرپٹ ہو چکا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں، اگر میرے ہاتھ میں ہو تو میں تمہاری نوکریاں ختم کر دوں گا۔‘‘
’’انکل جاؤ یہاں سے، ہماری جان چھوڑو نہ جانے کہاں سے دماغ خراب کرنے آجاتے ہیں، ایسے لوگوں کی شکل دیکھ لو تو سارا دن ہی خراب گزرتا ہے، لگتا ہے آج بھی یہی ہو گا۔‘‘
’’اوئے ہوش کر ہوش، تمیز سے بات کر تو، مجھے جانتا نہیں تیرے جیسے سینکڑوں لوگ میں اپنی جیب میں لیے گھومتا ہوں، تیری اوقات ہی کیا ہے، لائن مین ہے تو لائن مین بن کر ہی رہ، زیادہ افسری نہ جھاڑ ورنہ اچھا نہیں ہو گا، دو دو ٹکے کے لوگ ہیں زبانے دیکھو ان کی، گز گز بھر کی بڑھا رکھی ہیں، اگر میں اپنی پر آگیا تو گدی سے زبان کھنچ کر تیرے ہا تھ میں دے دوں گا۔‘‘
’’انکل چھوڑیے جانے دیں غریب آدمی بے چارہ، اس کا کیا قصور ہے، یہ سارا بیگاڑ تو اس محکمے کے افسران کا پھیلایا ہوا ہے، اس سے بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
’’ارے بیٹا تم ان کو نہیں جانتے، یہ بھی ملوث ہیں سبھی چور ہیں صنعتی علاقوں میں پانی کی سپلائی دے کر بھتہ یہی لوگ تو وصول کرتے ہیں تم ان کو معصوم نہ سمجھوں یزیدی ہیں بے ایمان کہیں کے!‘‘
’’ یار ان کو یہاں سے لے جا! ورنہ جھگڑا ہو جائے گا، دیکھ اب یہ ذاتیات پر اتر رہے ہیں، یہ اچھی بات نہیں میں نے بھی چوڑیاں نہیں پہنی ہوئی، جو ان کی باتیں سنتا رہوں، ہر شخص کی عزت ہوتی ہے، ان کے منہ میں جو آرہا ہے بولے چلے جا رہے ہیں، بہت برداشت کر لیا اب کچھ اور نہیں سنو گا۔‘‘
’’چھوڑ بھائی جانے دے عمر میں بڑے ہیں ایسی بات نہ کرجس سے تیری ہی بدنامی ہو تو ان کی طرف توجہ نہ دے اپنا کام کر۔‘‘
’’کیا خاک کام کروں صبح سے ہی متھا پینے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، میں عزت سے بات کیے جا رہا ہوں اور یہ اپنے آپ کونہ جانے کیا سمجھ رہیں ہیں۔‘‘
’’تو کیا کرے گا، تیرے جیسوں سے تو میں اکیلا ہی نمٹ لوں گا، تجھ میں ہمت ہے تو آ دیکھ تیرا کیا حال کرتا ہوں۔‘‘
’’انکل جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔‘‘
’’ابے نہیں جاتا کیا کر لے گا تو؟‘‘
’’بتاؤ کیا کر سکتا ہوں۔‘‘
’’اوے اوے شرم کر بزرگ ہیں۔‘‘
’’جائیں انکل آپ جائیں میں دیکھ لیتا ہوں، میرا یقین کرو میں اس مسئلے کو ٹھیک کرواتا ہوں آپ گھر جائیں۔‘‘
’’اچھا بیٹا تو کہہ رہا ہے تو چلا جاتا ہوں ورنہ آج میں اسے نہیں چھوڑتا۔‘‘
وحید بھائی نے بیچ میں مداخلت کرکے لانڈھی 36 بی کی سڑک پر کمال صاحب کا لائن مین سے ہوتا جھگڑا تو ختم کروا دیا لیکن پانی کا مسئلہ حل نہ ہو سکا، ہوتا بھی کیسے! بقول کمال بھائی، اس محکمے کے سارے ہی لوگ کرپشن میں ملوث ہیں، بات تو ٹھیک ہی ہے وگرنہ کراچی کے مکینوں کو ہر آنے والے دن کے ساتھ پانی کی کمی کا یوں سامنا نہ کرنا پڑتا، ویسے تو یہ مسئلہ سارے ہی ملک کا ہے جس کی طرف کسی حکومت نے کبھی بھی سنجیدگی سے کوئی توجہ نہ دی، مسئلے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اخبارات میں آتی رپورٹس کے مطابق پاکستان پانی کی شدید قلت سے دوچار ہوتا جارہا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے پاکستان کے لیے بوند بوند پانی کی اہمیت ہے۔ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی، شہروں کی طرف نقل مکانی، موسمیاتی تبدیلیوں اور حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں نے پاکستان کو پانی کی شدید قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں لاکھڑا کیا ہے۔ پاکستان کے تین بڑے آبی ذخائر منگلا، تربیلا اور چشمہ ڈیم میں صرف 60 سے 90 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت باقی رہ گئی ہے، حالانکہ عالمی معیار کے مطابق کم از کم ایک سو بیس دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ دوسری جانب ترقی یافتہ ممالک ایک سے دو سال کے لیے بآسانی پانی ذخیرہ کررہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے پاس دو سو بیس دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے، جبکہ جنوبی افریقہ پانچ سو دن تک پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھتا ہے۔ آسٹریلیا چھ سو دن جبکہ امریکہ نو سو دن کا پانی ذخیرہ کررہا ہے۔ مصر ایک ہزار دن کا پانی صرف ایک دریائے نیل سے ذخیرہ کررہا ہے، مگر پاکستان میں دریاؤں کا بہ مشکل 10فیصد پانی ہی ذخیرہ ہوپاتا ہے۔ ملکی دریاؤں میں آنے والے پانی کا 28 ملین ہیکڑ فٹ سے زائد ضائع ہوکر سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ہمارے دریاؤں میں 144ملین ہیکڑ فٹ پانی آتا ہے جس میں سے صرف 13.8 ملین ہیکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوتا ہے، اور اگر کبھی بارشیں زیادہ ہوجائیں تو اضافی پانی ہمارے لیے سیلاب کی صورت حال پیدا کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں آنے والے سیلابوں سے 38 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔
مارچ 2012ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ورلڈ واٹر ڈے رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ ممالک میں پاکستان نویں نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ بھارت اور افغانستان کے ڈیم بنانے کے جاری منصوبے بھی پاکستان کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ دنیا کی آبادی 1927ء میں صرف دو ارب تھی جو کہ 2011ء میں بڑھ کر سات ارب ہوکر ہوچکی ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050ء میں یہ آبادی 9.3 ارب تک پہنچ جائے گی، جس کے لیے صاف پانی کے مزید ذخائر کی ضرورت ہوگی۔ عالمی ادارۂ خوراک کے مطابق 2050ء تک آبادی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خوراک کی پیداوار میں 70فیصد اضافہ ناگزیر ہوگا، جبکہ عالمی واٹر ریسورسز گروپ کے اندازوں کے مطابق تازہ اور صاف پانی کے ذخائر میں اضافہ ازحد ضروری ہے۔ اندیشہ ہے کہ 2025ء تک 3 ارب لوگ پانی جیسی نعمت کی کمی کا شکار ہوں گے جن میں ایشیائی اور افریقی ممالک کے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی۔ ماہرین کے مطابق پاکستان 2030ء تک پانی کی شدید قلت کے شکار تیس ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان اس حوالے سے 36 ویں نمبر پر ہے۔ امریکی ادارے ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق پاکستان میں 60 سال پہلے فی فرد سالانہ 50 لاکھ لیٹر پانی دستیاب تھا، جو کہ اب 5گنا کمی کے بعد فی فرد10 لاکھ لیٹر رہ گیا ہے۔ اس کے باوجود افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں پانی ضائع کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس کا سیدھا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنی یہ روش برقرار رکھی تو 2025ء تک ہم اس فہرست میں پہلے نمبر پر آجائیں گے۔ اب یہ مسئلہ کون حل کرے؟ اگر ہم کو زندگی معمول کے مطابق رواں دواں رکھنی ہے تو پینے کے صاف پانی کو بچانا ہوگا جس کے لیے پانی کے گھریلو،,زرعی اور صنعتی استعمال میں سائنسی اندازِ فکر اپنانا ہوگا۔ پانی کے دستیاب وسائل کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بے ہنگم طور پر زیر زمین پانی کی نکاسی پر پابندی عائد کرنا ہوگی، کیونکہ ہمارے ہاں زیر زمین پانی نکالنے کا کوئی باضابطہ اصول موجود نہیں، جس کا جب جی چاہے زمین سے پانی نکال سکتا ہے۔ میٹھے پانی کے غیر انسانی استعمال سے متعلق بھی طریقہ کار طے کرنا ہوگا۔ گاڑیوں اور گھروں کی غیر ضروری دھلائی پر مکمل پابندی عائد کرنا ہوگی۔ صنعتی، زرعی اور گھروں کے سیوریج کے پانی کو میٹھے پانی میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے سپلائی لائنوں کو ٹھیک حالت میں رکھنا ہوگا۔ گٹر لائن سے ملنے اور رِسنے سے بچانا ہوگا۔ زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلوں اور سیلابی پانی سے متعلق سخت قوانین بنانے ہوں گے اور ایسی فصلوں کی کاشت کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی جن میں پانی کم سے کم درکار ہوتا ہے۔ فوری طور پر ایسے امور پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی جن کی وجہ سے بارش کے پانی سے کاشت کاری کی جاسکے۔ ہمارے ملک میں زرعی مقاصد کے لیے 70 فیصد سے 94 فیصد تک میٹھا پانی استعمال ہوتا ہے۔ جدید طرز اپنانے سے یہ شرح پچاس فیصد تک آسکتی ہے۔ سب سے زیادہ توجہ آلودگی کے خاتمے، موسمی تغیرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر دینا ہوگی تاکہ حد سے زیادہ بلند ہوتی سمندری سطح پر جلد از جلد قابو پایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں پانی کے استعمال سے متعلق عوام کے رویوں میں بھی مثبت تبدیلی لانے کے لیے ہر سطح پر مؤثر اور بھرپور آگہی مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے۔ خاص طور پر چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی جانب سے چلائی جانے والی دیامر بھاشا ڈیم مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا، تاکہ جلد سے جلد اس بڑے منصوبے کی تکمیل ہوسکے۔ ایسے اقدامات کو عملی جامہ پہنا کر ہی ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے قدرت کی اس نعمت اور بنیادی ضرورت پانی کو بچا سکتے ہیں۔

حصہ