ملاقات

431

سیدہ عنبرین عالم
سیرتِ طیبہؐ پر ایک شان دار کتاب میرے سامنے سے گزری تھی ’’الرحیق المختوم‘‘۔ بہت دیر تو ہمت ہی جمع کرتی رہی، مجھے معلوم تھا کہ جو کچھ پڑھوں گی اُس پر عمل بھی کرنا پڑے گا، اور سیرتِ طیبہ پر عمل کرنے کے لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جیسا مضبوط جگر بھی چاہیے۔ پڑھنا شروع کیا۔ اس قدر دل کش انداز کہ کتاب کے سحر میں ڈوبتی چلی گئی… پھر میری آنکھ لگ گئی۔
ایک باغ تھا، کھجور کے خوشے درختوں سے لٹک رہے تھے، کچھ دور ایک نہر گزر رہی تھی۔ میں نے اپنا لباس دیکھا تو موٹے کپڑے کا کھدّر اور اس پر بڑی سی چادر، مگر گرمی کا احساس نہیں ہورہا تھا۔ باغ سے باہر نکلی تو خواتین و حضرات کی چہل پہل تھی، صبح 8 یا ساڑھے 8 کا وقت محسوس ہورہا تھا۔ لوگوںکو دیکھ کر غربت کا احساس ہورہا ہے، مگر ایک طمانیت ہے جو تمام چہروں پر چھائی ہوئی ہے۔ کچھ عورتیں مجھے دیکھ کر رک گئیں، جب میں قریب پہنچی تو مجھ سے پوچھا ’’کیا تم مسافر ہو؟‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، مجھے تو خبر ہی نہیں تھی کہ میں کہاں آ پہنچی ہوں۔
’’یہ کون سی جگہ ہے، میں راستہ کھو بیٹھی ہوں، میری راہنمائی کیجیے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’یہ مدینۃ النبیؐ ہے۔ ہم سب ہجرت کے بعد یہاں آگئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے غزوۂ اُحد ختم ہوئی ہے، ہم سب بی بی عائشہؓ کے پاس جارہے ہیں تاکہ ان سے دین کا علم سیکھیں‘‘ اگر آپ بھوکی ہیں تو کچھ کھجوریں حاضر ہیں، تناول فرمایئے۔‘‘ ایک بڑی عمر کی خاتون نے کہا۔ میرے تو ہوش ہی اُڑ گئے، کیا یہ ممکن ہے کہ میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پہنچ جائوں، اور تمام صحابہؓ و صحابیاتؓ سے ملوں، اور شاید پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی شرفِ ملاقات نصیب ہو!
’’نہیں بھوک نہیں ہے، مجھے بھی حضرت عائشہؓ سے ملوا دیجیے۔‘‘ میں نے کانپتی آواز میں کہا۔
’’کیا آپ پہلے سے مسلمان ہیں؟ چوں کہ آپ باپردہ نظر آرہی ہیں۔‘‘ ایک بچی نے پوچھا۔
’’الحمدللہ! میرے رب نے مجھے ایمان کے قابل سمجھا، میں مسلمان ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ دل کی وہ کیفیت تھی کہ بیان سے باہر۔ میں اُس مقام پر پہنچ گئی تھی جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سانسوں سے معطر تھا۔ اُن لوگوں کے درمیان تھی، جن کے بارے میں اللہ نے قرآن میں کہا کہ ان کے دل ایمان سے سجے ہوئے ہیں۔ میں خود کو بہت ناپاک محسوس کررہی تھی، میری کہاں اوقات کہ ان پاکیزہ لوگوں سے ہم کلام ہوتی! دل کی بے تابیوں کو سنبھالتی ہوئی ان صحابیاتؓ کے پیچھے چلتی رہی، بس ڈر کہ کوئی گستاخی نہ ہوجائے۔
کچی مٹی کی ایک عمارت پر پہنچے، خاصی بڑی عمارت تھی، کچھ حصہ اب بھی زیر تعمیر تھا، باہر ایک طویل چبوترہ تھا جس پر بیٹھے کچھ لوگ پڑھ رہے تھے، کچھ پڑھا رہے تھے‘ کچھ سو رہے تھے اور کچھ باتوں میں مشغول تھے۔ ’’یہ لوگ کون ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ اہلِ صفّہ ہیں، یہ مسجدِ نبویؐ کی عمارت ہے، پچھلے حصے میں ازواجِ مطہرات کے حجرے ہیں، ہم وہیں جاکر حضرت عائشہؓ سے ملاقات کریں گے۔‘‘ صحابیہؓ نے جواب دیا۔ میری یہ حالت کہ ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ ’’کیا میں واقعی مسجد نبویؐ میں حضرت عائشہؓ سے ملاقات کروں گی، کیا میرا رب واقعی مجھے اس قابل سمجھتا ہے؟‘‘ میں نے سوچا۔
بس ایک روبوٹ کی طرح آگے بڑھ رہی تھی اور حجرے میں داخل ہوگئی۔ ’’یہ ایک مسلمان خاتون ہیں، اسلام سیکھنے کے لیے مدینہ تشریف لائی ہیں۔‘‘ ایک صحابیہؓ نے میرا تعارف کرایا۔ میری نظر اٹھی تو جم کر رہ گئی۔ ایک صاف رنگ کی خوش نقوش کم عمر سی لڑکی، میری طرف مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔ ’’یہ بی بی عائشہؓ ہیں، پیارے آقاؐ کی زوجہ۔‘‘ مجھے بتایا گیا۔
’’بیٹھیے، خوش آمدید، آپ کو بھوک لگی ہوگی، کسی کے پاس کچھ ہو تو انہیںدیجیے، یہ ہماری معزز مہمان ہیں اور رب تعالیٰ کی محبت میں یہاں تک آئی ہیں۔‘‘ بی بی عائشہؓ نے کہا۔ وہ خاتون، جو مجھے پہلے بھی کھجور آفر کرچکی تھیں، کچھ ہچکچائیں ’’میں نے ان سے پوچھا تھا، یہ منع کرچکی ہیں، میرے پاس سولہ کھجور ہیں۔‘‘ انہوں نے بی بی عائشہؓ کو بتایا۔
’’جانے کتنی لمبی مسافت طے کرکے آئی ہیں، انہیں کھجور دے دیجیے۔‘‘ بی بی عائشہؓ نے حکم دیا۔
مجھے بھوک نہیں تھی مگر لگا کہ یہ بی بی عائشہؓ کا حکم ہے، میں نے ساری کھجوریں کھا لیں، پانی کی حاجت محسوس ہوئی تو خود ہی اٹھ کر حجرے سے باہر گئی، ایک مٹکا اور مٹی کا پیالہ رکھا تھا، میں نے پانی پیا۔ خدا کی قسم کیا لذت تھی اس پانی کی، شیریں اور فرحت بخش، مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو، قدرتی تراہٹ۔ ’’اب معلوم ہوا صحابہ کرامؓ اتنے صحت مند کیسے تھے؟ مٹی کے گھڑے کا تازہ اور مٹی کے عناصر سے بھرپور پانی پی کر۔‘‘ میں نے سوچا۔ اندر جانے لگی تو آواز آئی ’’ہم سب آپ کو ملا کر آٹھ عورتیں ہیں، اس لیے جانے کیسے کیسے جتن کرکے یہ سولہ کھجور جمع کی تھیں کہ دو دو کھالیں گے، کل صبح سے ہم سب بھوکے ہیں، اب کیا کریں۔ کھجوروںسے تو مہمان کی تواضع کردی۔‘‘ کھجوروں والی خاتون فرما رہی تھیں۔
’’جس پروردگار نے آج تک رزق دیا، وہ آئندہ بھی زندہ رکھے گا، فکر نہ کریں۔‘‘ حضرت عائشہؓ نے کہا۔ مجھے سخت صدمہ ہوا، یہ میں نے کیا کردیا! اللہ مجھے معاف فرمائے۔
بی بی عائشہؓ نے بولنا شروع کیا، عشق میں ڈوبے ہوئے الفاظ، ایسی سچی لگن کہ جیسے ہم سب کو جنت میں پہنچا کر ہی چھوڑیں گی۔ وہ سرور محسوس ہوا کہ دل کرتا تھا کہ یہ کلاس ختم ہی نہ ہو۔ عشق کی چنگاری دل میں جل چکی تھی، وہ پردے میں تھا، مگر پردہ اٹھنے کی آس پیدا ہوچکی تھی، روشنی ہوگئی تھی، آنکھ بھی کھل چکی تھی۔
ابھی کلاس جاری ہی تھی کہ کنیز نے آکر بتایا ’’ابو ایوب آئے ہیں۔‘‘
’’بلا لو‘‘۔ بی بی نے حکم دیا۔ تمام خواتین نے پردہ درست کیا اور باادب ہوکر بیٹھ گئیں۔
’’حضرت ابو ایوبؓ دو بڑے بڑے تھال لے کر داخل ہوئے ’’ہٰذا طعام‘‘ کہا اور نظریں جھکائے جھکائے ہی پلٹ گئے اور چلے گئے۔ تھالوں پر سے کپڑے اٹھائے تو تقریباً 15 روٹیاں ایک تھال میں، جو سائز میں خاصی بڑی اور موٹی تھیں، دوسرے تھال میں اونٹ کا بھنا ہوا گوشت کافی مقدار میں موجود تھا۔ بی بی عائشہؓ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جیسے کہہ رہی ہوں کہ ’’دیکھا، اللہ رب العزت نے کردیا ناں انتظام۔‘‘
’’آپ قیام کہاںکریں گی ہمشیرہ؟ چاہیں تو میرے ہاں رک جائیں۔‘‘ ایک صحابیہؓ نے مجھ سے کہا۔
’’بہت بہتر، نوازش آپ کی۔‘‘ میں نے جواب دیا اور ان کے ساتھ ہی چل دی۔
راستے میں جتنے لوگ نظر آئے سب کے چہرے سے مشقت عیاں تھی، مگر ایک سکون تھا، کوئی بھی پریشان محسوس نہ ہوتا تھا حالانکہ کئی کئی وقت کے فاقوں سے ہوتے تھے۔ سب گزرتے ہوئے ایک دوسرے کو سلام کرتے، حال چال پوچھتے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مدینے کا ہر شخص مدینے کے ہر باسی سے واقف ہے۔
گھر پہنچ گئے، مجھے اپنے خواب پر یقین آچکا تھا، مجھے سمجھ آچکا تھا کہ میں واقعی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہوں، اب ایک ہی تڑپ تھی کہ یہ سفر رائیگاں نہ جائے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوجائے، اس سے پہلے کہ آنکھ کھل جائے۔ آخرکار اپنی میزبان صحابیہؓ کو ساری حقیقت بتا دی، وہ بہت حیران ہوئیں۔
’’آپ پندرہ سو سال بعد کے زمانے سے آئی ہیں؟ ماشاء اللہ، ایک ارب مسلمان! پھر تو آپ کے زمانے میں مسلمانوں کا ہی حکم چلتا ہوگا، ساری دنیا پر قبضہ ہوگا۔‘‘ وہ بولیں۔
میں مسکرا دی ’’نہیں بہن، آج کا ایک عرب مسلمان پندرہ سو سال بعد کے ایک ارب مسلمانوں پر بھاری ہے۔ ہم توبہت ہی ذلیل و خوار ہیں، ایک چیونٹی سے زیادہ حقیر۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’آپ تمام مسلمانوں کا امام کمزور ہوگا، کون ہے آپ سب کا امام؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’ہمارا کوئی امام نہیں ہے۔ ہم ملکوں، قوموں، فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہر ٹکڑی اپنا الگ امام بنا لیتی ہے۔ ہم اُس کو اپنا لیڈر بناتے ہیں جو سب سے زیادہ خائن، جھوٹا اور غدار ہو۔ ہم سب مسلمان ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں اور لڑتے ہیں۔‘‘ میں نے بتایا۔
صحابیہؓ حیرت سے منہ کھولے سن رہی تھیں ’’مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’ہم تو امتِ محمدیؐ کہلانے کے لائق ہی نہیں، نہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام خود اپنایا، نہ ہم یہ پیغام اوروں تک پہنچا رہے ہیں، ہوس اور آرام طلبی نے ہمیں ختم کردیا۔‘‘ میں نے کہا۔
صحابیہ محترمہ نے توجہ سے میری بات سنی، پھر کہنے لگیں ’’اصل میں آپ لوگ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت بعد کے دور میں ہو، آپ تک پہنچتے پہنچتے ایمان کا وہ معیار نہیں رہا جو ہم لوگوں میں ہے، کیونکہ ہم اپنے نبیؐ سے براہِ راست تربیت حاصل کررہے ہیں۔ ایک نبی اُس پارس پتھر کی طرح ہوتا ہے جسے چھوتے ہی ہر انسان سونا بن جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے تبصرہ کیا۔
’’پھر اس مسئلے کا کیا حل ہے آپ کی نظر میں؟ بہرحال ہم بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیوا ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’دیکھیے ایک چیز ہم میں اور آپ میں مشترک ہے، وہ ہے قرآن۔ اب ایک چیز کی ضرورت ہے، وہ ہے مشترکہ اور مخلص امام۔ آپ بس ایک امام پر جمع ہوجائیں تو وہ امام قرآن کے مطابق آپ سب کی تربیت کرے، آپ لوگوں کی روح کو منور کرے، ایمان کی طاقت پیدا کرے تو حالات تبدیل ہوسکتے ہیں۔ منہ زبانی تبدیلی جس میں ہوس زدہ اور ناکام لوگ ہی امام ہوں‘ تبدیلی نہیں ہے۔ روحوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلی آئے گی اُس امام کے ذریعے جو آپ سب میں عشق کی زبردست طاقت پیدا کرے۔‘‘ وہ بولیں۔
’’کیا آپ سمجھتی ہیں کہ ہم ایمان والے ہیں اور شرک میں مبتلا ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’دیکھیے بہن، شرک صرف یہ نہیں ہے کہ آپ اللہ کے علاوہ بتوں کو بھی پوجیں۔ ہر وہ چیز اور عمل شرک ہے جس میں آپ کے نزدیک اللہ سے زیادہ کسی اور کی اہمیت ہو۔ اگر آپ کو دولت سے زیادہ پیار ہے اور اس وجہ سے آپ اللہ کے احکام نہیں اپنا پاتے تو یہ بھی شرک ہے، اگرآپ اپنے آرام کی وجہ سے اللہ کا حکم ٹال رہے ہیں تو یہ بھی شرک ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’ہم نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، پردہ کرتے ہیں، غریبوں کی پروا کرتے ہیں۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’یہ سب آپ کی ثقافت ہے، ایمان نہیں۔ صدیوں کے اسلام نے کئی اسلامی احکام کو آپ کی عادت بنا دیا ہے۔ جب تک ان احکام کے پیچھے عشق نہ ہو، ایمان مکمل نہیں۔‘‘ صحابیہ نے کہا۔
’’یعنی اللہ کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے، اس سے عشق کرنے کی ضرورت ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی ہاں! صرف اللہ کی محبت، یہی توحید ہے۔ اور جو یہ عشق اللہ کی مخلوق میں پیدا کردے، وہی وقت کا امام ہے۔ جیسا کہ آپ ہمارے زمانے میں دیکھ رہے ہیں، میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں عشق پیدا کیا، ہماری روحیں خودبخود منور ہوگئیں۔ ہر چیز ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں سکھاتے، ہمارا ایمان ہمیں صحیح غلط کا فرق ہر وقت بتاتا ہے۔‘‘ صحابیہ نے فرمایا۔
میں نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا ’’اب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا کچھ سبب ہو۔‘‘ میں نے کہا۔ اسی وقت اذان کی آواز آئی ’’بلال نے اذان دے دی ہے، چلو۔‘‘ صحابیہ نے کہا۔
’’کیا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مسجد نبوی میں نماز کے وقت ملیں گے؟‘‘ میں نے صحابیہ سے پوچھا۔
’’جی! وضو کرلیجیے، آج جہاد کے لیے بھی ایثار مانگا گیا ہے، سب لوگ کچھ نہ کچھ پیش کریں گے۔ میرے پاس ایک بکری ہے، میں وہ دوں گی، آپ کیا دیں گی؟‘‘ صحابیہ نے مجھ سے پوچھا۔
’’میں خود حاضر ہوں جو حکم دربارِ سرکار سے آئے، جان سے زیادہ کیا نذر کروں!‘‘ میں نے کہا۔
صحابیہ مسکرانے لگیں۔ ہم دھیمے قدموں سے مسجد نبویؐ کی جانب چل پڑے۔ دل ایسے دھڑک رہا تھا جیسے طوفان آیا ہوا ہو۔ کیا میں واقعی اپنے وقت کے سب سے بہترین امام سے ملنے والی ہوں، کیا وہ شخص میرے روبرو ہوگا جس نے میرے اللہ سے ملاقات کی ہے، وہ پارس جسے چھو کر میں سونا بن جائوں گی، وہ رسولؐ جو زمانوں کا رہبر ہے۔ ہم مسجد نبویؐ پہنچ گئے۔ صفیں درست ہورہی تھیں، سب ایک دوسرے کو سلام کررہے تھے۔ سب مزدور قسم کے لوگ تھے مگر چہروں پر نور برس رہا تھا۔ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ہیں امامت کے لیے، صفیں درست کرلیجیے۔‘‘ ایک صحابیؓ بلند آواز میں بولے۔
اب تک تو ملاقات کی بے چینی تڑپائے دے رہی تھی، اب یہ حال کہ نظریں ہی نہیں اٹھا پا رہی تھی۔ سانسیں بے ترتیب، آنسوئوں کی روانی، ایسا لگتا تھا کہ اب جی نہیں پائوں گی۔ صفیں درست ہوچکی تھیں، اب بس وہ وقت قریب تھا کہ ان کی آواز کانوں میں آئے، وہ کہیں ’’اللہ اکبر…‘‘ اور میں کھڑی ہوجائوں۔ وہ قیام جو کائنات سے ٹکرانے کا حوصلہ پیدا کردے، وہ سجدے جو ہر خواہش کو سرنگوں کردیں۔ ہاں دیدار کا وقت بھی آگیا تھا، کاش دیدار کی تاب بھی آجاتی۔

میں نہیں جا سکتی اپنے رسولؐ کے دور میں لیکن
میرے رسولؐ کا دور تو لوٹ کر آ سکتا ہے ابھی بھی
میرا رسولؐ تو بس اب درودوں کو سننے رہ گیا
مگر اس رسولؐ کا حکم تو مانا جاسکتا ہے ابھی بھی

حصہ