برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

446

قسط نمبر166
(چوبیسواں حصہ)
ہماری انٹیلجنس ایجنسیز اور البدر کے رضاکاروں نے نومبر (رمضان المبارک) میں ہی ریڈ الرٹ جاری کردیا تھا کہ ہندوستان جیسور اور کومیلا کی طرف سے بھرپور حملہ کرنے والا ہے، رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا تھ اکہ یہ حملہ عین ممکن ہے عید الفطر کے دن ہو۔ کہتے ہیں کہ جنرل ہیڈ کوا ٹر کی جانب سے ایسٹرن کمانڈ کو ہدایت جاری کی گئی تھی کہ دفاعی انتظامات میں رپورٹ کے پیش نظر ضروری اقدامات کیے جائیں، مگر ہمارے جنرل ٹائیگر نیازی نے ان احکامات کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ ہماری فوج مکتی باہنی اور شرپسندوں سے نمٹنے کے لیے چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی تھی۔ جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ ہماری مشرقی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے فوج کو ایک جگہ مجتمع کیا جائے۔ تاہم جنرل نیازی نے اتنا ضرور کیاکہ فینی اور کومیلا کے درمیان جہاں سے ہندوستان کے لیے حملہ کرنا نسبتاً آسان تھا اس کے دفاع کے لیے ڈھاکا سے 53 برگیڈ کو روانہ کیا۔ جیسور سیکٹر کے انچارج آپریشن میجر جنرل انصاری کو بھی ریڈ الرٹ رہنے کا حکم تھا۔
عید الفطر کے دن دشمن نے بھر پور حملہ کرنے کے بجائے سرحدوں پر فائرنگ کرکے خطرے کی گھنٹی ضرور بجادی تھی۔
نومبر کے دنوں میں ہی جنرل نیازی نے صحافیوں سے دشمن کے ممکنہ حملے پر پاک فوج کی حکمت عملی کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ” میرے سپاہی کھلے ہاتھ کی انگلیوں کی طرح ملک کے چپے چپے میں پھیلے ہوئے ہیں اور جیسے ہی دشمن ہم پر حملہ آور ہوگا تمام انگلیاں سکڑ کر ایک مکے کی مانند بند ہوجائیں گی۔” کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ جنرل نیازی اپنی فوج کو تسبیح کے دانوں کی طرح سرحد پر بکھیرنا نہیں چاہتے تھے۔ ممکن ہے وہ اسطرح کا خیال رکھتے ہوں کہ اسطرح ہماری قوت بکھر کر کمزور پڑ جائے گی۔
مشرقی پاکستان میں پچھلے آٹھ ماہ سے جاری اندرونی جھڑپیں اور مکتی باہنی کے ساتھ گوریلا وار کے نتیجے میں ہماری فوج شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھی۔ شدید ذہنی بوجھ اور تھکاوٹ کے باوجود مشرقی پا کستان میں نبر آزما ہماری فوج اس بات پر حوصلہ مند تھی کہ اگر ہم یہاں مشکل میں ہیں تو شکر ہے مغربی محاذ ابھی خاموش ہے، اگر دشمن نے کوئی حملہ کیا تو ہمارا مغربی بازو اس کی قوت کو کچل کر رکھ دے گا۔ مگر ان کا یہ خیال خوش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
دسمبر کی 3 اور4 کی درمیانی رات دشمن نے بالآخر حملے کی ابتداء کردی مشرقی محاذ پر اور یہ خبر پاکستان ریڈیو نے نشر کی جس کے فوری بعد جنرل نیازی ڈھاکا کی محفوظ چھاؤنی نے نکل کر پہلی مرتبہ میمن سنگھ ہیڈ کواٹر گئے اور فوج کے اعلی افسران سے مل کر انہیں ہدایت جاری کیں۔ اس اجلاس میں میجر جنرل راؤ فرمان علی کے علاوہ رئیر ایڈمرل محمد شریف بھی شریک تھے۔
ہندوستانی بمبار طیاروں نے ڈھاکا ائیر پورٹ کو اپنا نشانہ بنا یا وہ ڈھاکا ائیر پورٹ کو نقصان نہ پہنچا سکے اور ائیر پورٹ کے گرد و نواح میں چار بم پھینک کر چلے گئے۔ تیز رفتار ہندوستانی طیاروں کی گھن گرج سے ڈھاکہ شہر لرز اٹھا تھا۔ جواب میں ہماری طیارہ شکن توپیں اپنے گولے داغ رہی تھیں جس سے پورا ڈھاکہ شہر تھوڑی تھوڑی دیر میں چند لمحوں کے لیے چکا چوند ہوجاتا۔
دشمن نے مشرقی محاذ کھول کر حملے کی شروعات کیں جس کے جواب میں پاکستان نے مغربی محاذ پر دشمن کو للکارااور پاکستانی لڑاکا جیٹ طیارے ہندوستان کے سات ہوائی اڈوں پر حملہ آور ہوئے۔ ہندوستان کے پاس اس وقت کے جدید لڑاکا طیارے تھے جن کا مقابلہ پاکستانی پرانے سیبر مرمت شدہ طیارے… یوں سمجھیں کہ ایک اور دس کا مقابلہ تھا۔ ہمارے طیاروں نے پہلی رات دشمن کے 32 فضائی حملوں کا جواب دیا اور اسلحے کے تیس ہزار راونڈ چلائے جو کسی بھی فضائی جنگ میں ایک دن میں خرچ کرنے کا ریکارڈ ہے۔
پہلے دن کے فضائی حملے میں دشمن کے دس طیارے تباہ ہوئے جس کے بعد دشمن نے فضائی حملوں کی حکمت عملی میں رد و بدل کی،اور ہمیں بھی کومیلا اور فینی کے علاقوں میں اپنی فوج بڑھانے کا موقع مل گیا۔ پانچ دسمبر کو تو ہمارے طیاروں نے ایسی پٹرولنگ کی کہ دشمن کو ڈھاکا کی جانب پھٹکنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ 6 دسمبر کو علی الصبح دشمن نے دس مگ طیاروں کی مدد سے حملہ کیا اور جگہ جگہ ایسے بم گرائے جو زمین پر لگنے کے کچھ دیر بعد پھٹتے تھے۔ دو بم ائیر پورٹ کے رن و ے پر بھی گرے اور اس کی وجہ سے ائیر پورٹ پر دو جگہ بڑے بڑے شگاف پڑ گئے۔ اور ائیر پورٹ استعمال کے قا بل نہیں رہا۔ ہمارے پاس ایک اور ائیر پورٹ کرمیٹو لہ ائیر پورٹ ڈھاکہ سے کچھ فاصلے پر موجود تو تھا رن وے تو موجود تھا مگر دیگر تعمیرات نامکمل تھیں لہذا فیصلہ ہوا کہ چھ آٹھ گھنٹوں کے اندر اندر ڈھاکہ ائیر پورٹ کے شگاف بھر کر اسے پرواز کے قا بل بنایا جائے۔ شگاف بھرنے کو کوششیں ہوتی رہیں، لمحہ لمحہ قیمتی تھاکہ اچانک دشمن نے ایک اور پھرپور حملہ کیا جسے باوجود کوشش کے شگاف نہیں بھرے جاسکے۔
مقامی مزدوروں اور انجینئرنگ بٹالین نے ان گڑھوں کو پر کرنے میں مصروف تھی کہ ان دو دنوں میں دشمن نے پئے در پے کئی حملے کیے، پاک فضائیہ عملی طور پر اڑنے کے قا بل نہیں رہی چنانچہ دشمن کے فضائی حملوں کو ناکام بنانے کی تمامتر ذمہ داری ہماری طیارہ شکن توپوں پر آن پڑی تھی۔ ہمارے توپچیوں نے بڑی جانفشانی سے چوبیس چوبیس گھنٹے چوکنا رہ کر دشمن کی فضائی یلغار کا سامنا کیا۔ جیسے ہی ہمارے توپچی دشمن کے طیاروں کو دیکھتے اپنی توپوں کا رخ فضاء میں موجود جہازوں کی جانب کرلیتے اور گھن گرج کی گولہ با ری سے دشمن کے طیاروں کو واپس بھاگنے پر مجبور کردیتے۔ ہماری توپیں سب سے پہلے گرجیں اور سب سے آخر میں خاموش ہوئیں۔ دشمن کے 22 سے زیادہ طیارے تباہ ہوئے۔ جن میں سے سات ہماری فضائیہ نے اور باقی ہماری طیارہ شکن توپوں کی بدولت تباہ ہوئے۔
ڈھاکا ائیر پورٹ کی تباہی سے ہمارے سیبر لڑاکا طیارے اڑان بھرنے کے قا بل نہیں ر ہے، ایک تجویز یہ سامنے آئی کہ ان طیاروں کو تباہ کردیا جائے تاکہ یہ دشمن کے ہاتھ نہ لگ سکیں، مگر اس تجویز کو ٹیکنیکل بنیادوں پر مسترد کردیا گیا۔ان حالات میں بے کار ہو جانے والے بارہ لڑاکا پائلٹس کو کسی دوسرے ملک کی مدد سے 8 اور 9 دسمبر کو مغربی پاکستان روانہ کیا گیا، جہاں ہمارا مغربی محاذ گرم تھا۔ تاہم فوجی ہیلی کاپٹر اور ان کے انسٹرکٹر ڈھاکہ میں ہی رہے۔
ہماری بحریہ کی حالت بھی کچھ اچھی نہ تھی، ہمارے پاس صرف کومیلا، راجشاہی، جیسور اور سلہٹ نامی چار کشتیاں تھیں یہ اصل میں اسملنگ کی روک تھام کے لیے رکھی گئی تھیں۔ جن پر بحالت مجبوری چھوٹے بور کی گنیں فٹ کی گئیں اور جنگی حالت کے لیے تیار کیاگیا۔ رئیر ایڈمرل شریف نے اپنے وسائل میں اضافے کی غرض سے مقامی طور پر تیار شدہ 17 کشتیاں خریدیں اور ان پر 12.7 کی مشین گنیں لگوائیں اوربعض پر 30 اور 50 ایم ایم کی برونگنگ مشین فٹ کروا ئیں۔ ہماری بحری قوت کا ہندوستانی بحری بیڑے سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ جن کے پاس ایر کرافٹ کیریر سمیت کئی ڈیزاسٹر اور فریگیٹ شامل تھے۔
تین دسمبر ککو جیسے ہی جنگ کا اعلان ہوا، ہدایات کے مطابق ہماری جنگی کشتیاں بندرگاہوں پر واپس آگئیں لیکن 23 غیر ملکی مال بردار جہاز کھلے سمندر میں بے یار و مددگار پڑے رہے۔ ہمارا ان سے کوئی مواصلاتی رابطہ نہیں تھا۔ جنگی صورتحال میں وائر لیس پر ان جہزوں سے رابطہ کرنا سیفٹی ہدایات کے حوالے سے مشکل تھ ا۔ ایسے میں چند نیوی جوان چھوٹی کشتی میں اپنی جان ہتھیلی پر ڈال کر ایک ایک جہاز تک پہنچے اور کپتانوں کو ہدایات دے کر واپس آئے۔
6 دسمبر تک جنرل نیازی کی پھوں پھاں اور بھڑکیاں ہوا ہو چکی تھیں، وہ مغربی محاذ سے کسی مدد کے آسرے پر تھے، جنرل ہیڈ کوارٹر سے تازہ ترین ٹیلی گرام کے آجانے سے امداد کی امید بھی ختم ہوچکی تھی، اس ٹیلیگرام میں بتایا گیا تھا کہ اپنی مدد آپ کے اصول پر جنگ جاری رکھی جائے۔
(جاری ہے)

حصہ