معاشرے کی فرسودہ روایات

758

افروز عنایت
موجودہ زمانے میں اگرچہ تعلیمی شعور و آگہی کی بدولت بہت سی پرانی رسوم و رواج سے انسان دور ہو گیا ہے، جن میں کچھ رسومات تو ایسی بھی ہیں جن کو نبھانے کے لیے انسان اپنے نفس پر جبر کرنے پر مجبور تھا، خصوصاً شادی بیاہ کی رسومات، خاندان کو جوڑے رکھنے کے لیے کچھ رسومات وغیرہ۔ ان رسومات میں وٹے سٹے کی شادی، ونی، قرآن سے شادی، بے جوڑ شادیاں وغیرہ عام تھیں۔ لیکن آج بھی والدین مجبور ہوکر دیہاتوں میں ہی نہیں بلکہ شہروں میں بھی وٹے سٹے کی شادیوں اور بے جوڑ شادیوں کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں۔
٭٭٭
بیٹیاں باعثِ رحمت ہیں لیکن بعض اوقات یہی رحمت والدین کے لیے آزمائش بن جاتی ہے، اور اس کی بھینٹ کافی لوگ چڑھ جاتے ہیں۔ سطورِ ذیل میں بھی مَیں ایک ایسی ہی شادی کے بارے میں آپ سے شیئر کررہی ہوں۔ ضروری نہیں کہ ہر جگہ وٹے سٹے کی شادیوں کا انجام بھیانک ثابت ہو، لیکن عام طور پر یہی تاثر سامنے آتا ہے کہ وٹے سٹے کی نذر ہوکر دونوں گھرانے پس جاتے ہیں۔
٭٭٭
ساجد صاحب: اسلم بھائی آپ اس بات کے لیے سوچیں، آپ کا اور میرا مسئلہ یکساں ہے، پھر ہم پرانے دوست ہیں، برسوں سے ہمارے خاندان ایک دوسرے کو جانتے ہیں، اس لیے اس رشتے میں کوئی قباحت نہیں۔ آپ بھابھی اور گھر والوں سے بھی مشورہ کرلیں۔
٭٭٭
بیگم اسلم: ارقم کے ابو آپ کی بات صحیح ہے، ہمارا مسئلہ حل ہوسکتا ہے، لیکن ہمارا بڑا مسئلہ ہماری بڑی بیٹی ہے، میں بڑی کو بٹھا کر اس سے پانچ چھ سال چھوٹی کی شادی کیسے کردوں! آپ اُن سے کہیں کہ بڑی کا رشتہ لیں، اس طرح ہی ہمارا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
٭٭٭
ساجد صاحب: ٹھیک ہے بھائی صاحب، ہم اپنے بیٹے کو منانے کی کوشش کریں گے، لیکن ہماری بھی ایک شرط ہے… آپ ہماری بیٹی کا رشتہ اپنے چھوٹے بیٹے سے کریں گے۔
ساجد صاحب کی بات پر تو اسلم صاحب کے دماغ پر سناٹے چھا گئے، لیکن یہ سوچ کر وہ خاموش ہوگئے کہ اگر ان کی بیٹی میرے بیٹے سے چار پانچ سال بڑی ہے تو میری بیٹی تو لڑکے سے سات سال بڑی ہوگی۔ لہٰذا سمجھوتا تو کرنا ہی پڑے گا۔
غرض دونوں خاندانوں کے درمیان یہ ایک سودے بازی کا فیصلہ تھا، دونوں نے اپنے اپنے بیٹوں کو بڑی مشکل سے راضی کیا۔ شادی کی رات دونوں دلہنوں کے شوہروں نے اپنی اپنی دلہنوں کو منہ دکھائی میں جو تحفہ دیا وہ یہی تھا کہ ہم نے اپنی بہنوں کی وجہ سے یہ قربانی دی ہے، اب ہم سب کو سمجھوتا تو کرنا ہی پڑے گا۔ شروع میں تو دونوں لڑکیوں نے بہت سنبھل سنبھل کر قدم اٹھایا کہ معاملہ نہ بگڑے، کیونکہ دونوں کے والدین نے رخصتی کے وقت یہ باور کروایا تھا کہ سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا ہی سمجھوتے کی شرط ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ دونوں طرف سے شکوے شکایتیں شروع ہوگئیں جو ایسی شادیوں کے نتیجے میں سامنے آتی ہیں کہ اگر ایک کا شوہر بیوی کو مری گھمانے لے گیا تو دوسری نے نہ صرف شوہر بلکہ بھائی کو بھی دس سنائیں۔ غرض کہ آئے دن چھوٹی چھوٹی باتوں پر دونوں طرف سے کھینچا تانی ہونے لگی۔ اس ساری صورت حال کی وجہ سے دونوں کے شوہر اپنا زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنے لگے، لیکن جیسے ہی گھر میں داخل ہوتے، گھر میدانِ جنگ بن جاتا۔ اس گمبھیر صورت حال کی لپیٹ میں دونوں گھرانے آگئے تھے اور ان کا سکون غارت ہوچکا تھا۔ صورت حال اُس وقت مزید انتہا کو پہنچ گئی جب ساجد صاحب کے بیٹے عارف نے اپنی بیوی کو طلاق دینی چاہی تو نہ صرف اس کے ماں باپ نے روکا بلکہ بہن نے بھی پائوں پکڑ لیے کہ میں بچے کی ماں بننے والی ہوں، میرا گھر برباد نہ کریں۔ کیونکہ ارقم نے اپنی بیوی کو دھمکی دی تھی کہ تمہارے بھائی کی طلاق سے پہلے تم طلاق کا پروانہ لے کر میکے جائو گی۔ اس طرح دونوں نے اپنی بیویوں کو طلاق تو نہ دی لیکن سکون کی تلاش میں دوسری جگہ پناہ ڈھونڈ لی۔ دونوں کی دوسری شادی کا سن کر دونوں گھرانوں پر سناٹا چھا گیا، لیکن اب رونے پیٹنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ پہلے ارقم نے دوسری شادی کی، معلوم ہونے پر ارقم کی بیوی اور اس کے سسرال والوں نے زبردستی انتقاماً عارف کی بھی دوسری شادی کروا دی، تاکہ حساب برابر ہوجائے۔ مثل ہے ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘۔ ان سنگین نتائج کو بھگتنے کے باوجود ابھی تک دونوں طرف سے کھینچا تانی جاری ہے، جس کی لپیٹ میں ان کے بچے بھی آگئے ہیں۔
٭٭٭
یہ ایک حقیقی تصویر تھی جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی، لیکن بعض جگہ ایسی صورت حال کے پیش نظر اگر افہام و تفہیم کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو نتائج اس حد تک بگڑنے سے بچ جاتے ہیں، گرچہ ایسا ہوتا بہت کم ہے۔
٭٭٭
ریحانہ اور عشرت دونوں ایک ہی محلے میں رہتی تھیں۔ آپس میں بڑی محبت و پیار کا سلوک تھا۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ ان کے پیچھے کون سی تلخ کہانی ہے۔ لیکن جو کچھ ہوا اسے درگزر کرکے نصیبوں کا کھیل سمجھ کر دونوں گھرانوں نے ایک دوسرے کو عزت و تکریم بخشی تھی۔ ریحانہ اور عشرت کی وٹے سٹے کی شادی تھی۔ دونوں سمجھ داری سے گزربسر کررہی تھیں کہ اچانک ریحانہ اور اُس کے شوہر کے درمیان کسی بات پر سخت اختلافات ہوئے جس کے نتیجے میں دونوں کی طلاق ہوگئی۔ ریحانہ نے بڑی عقل مندی کا مظاہرہ کیا اور اپنے گھر والوں کو یہ کہہ کر کسی انتقامی کارروائی سے روکا کہ اس طلاق میں میرا بھی ہاتھ ہے لہٰذا بھائی، بھابھی کے معاملے میں کوئی سخت رویہ اختیار نہیں کریں گے کہ ان کے بچے باپ کی شفقت سے محروم ہوجائیں، میں بھی اپنے بچوں کو باپ سے ملنے سے منع نہیں کروں گی۔ ریحانہ کی اس مثبت سوچ اور درست اقدام سے عشرت کے دل میں اس کی عزت و محبت اور بڑھ گئی۔ اس حکمت عملی سے نہ صرف دوسرا گھر ٹوٹنے سے بچ گیا بلکہ آپس کی محبت میں اضافہ ہوا اور ایک دوسرے کے دل میں عزت و تکریم بھی برقرار رہی۔
٭٭٭
بے شک بیٹیوں کی شادی آج کے ماں باپ کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ پریشان حال والدین بعض اوقات بیٹیوں کو بوجھ سمجھ کر ان سے جلد سے جلد سبک دوش ہونا چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر غلط فیصلوں پر مجبور ہوجاتے ہیں، جس کے نتائج آنے پر پچھتاتے ہیں۔ بے شک جوڑے اللہ نے ہی بنائے ہیں، لیکن ایسے موقعوں پر کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت اس کے اغراض و مقاصد کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ جلد بازی میں یا مجبور ہوکر کیے گئے فیصلے اکثر و بیشتر مجبوری سے ہی نبھانے پڑتے ہیں۔ یا پھر دونوں طرف سے افہام و تفہیم و تدبر کا مظاہرہ کیا جائے تو معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوسکتا ہے۔
صرف بچی کی شادی ہونا ضروری نہیں کہ کسی طرح اس کو ٹھکانے لگایا جائے، بلکہ یہ بات ذہن میں ہو کہ ایسی جگہ اور ایسے لڑکے سے شادی ہو جہاں حالات سازگار ہوں، ساتھ ہی بیٹی ہو یا بیٹا، ان کی تربیت ایسی ہو کہ اگر انہیں نامناسب اور مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے تو صبر و تحمل اور بردباری سے مسئلے کو حل کرنے کی توفیق و صلاحیت ہو، جیسا کہ میں نے اوپر (دوسری کہانی میں) بیان کیا ہے کہ کس طرح ریحانہ نے حالات کو مزید بگڑنے سے بچا لیا، اور اس نے اپنی غلطی کو بھی تسلیم کیا۔ رب العزت تمام بیٹے اور بیٹیوں کو اپنے اپنے زوجین کے ساتھ صحیح طریقے سے نباہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

حصہ