پاکستان کو ترقی یافتہ بنانے میں جاپان اپنا کردار ادا کررہا ہے، سید ندیم عالم

834

سید وزیر علی قادری / محمد قیصر چوہان
کسی بھی زمانے میں دوستوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا گیا۔ ہر دور کا انسان ایک مخلص اور سچا دوست چاہتا ہے۔ آج کی تیز رفتار زندگی میں مخلص دوست کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان اس حوالے سے خوش قسمت ملک ہے کہ اس کو چڑھتے سورج کی سرزمین جاپان جیسے جدید اور ترقی یافتہ ملک سے دوستی کا شرف حاصل ہے جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ جاپان کی حکومت نے پاکستان میں بزنس کمیونٹی سمیت دیگر لوگوں سے اچھے تعلقات استوار کرنے کے لیے اعزازی قونصلر جنرل تعینات کیے ہیں، انہی میں سے ایک سید ندیم عالم شاہ بھی ہیں جو 2000ء سے بلوچستان میں جاپان کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ سید ندیم شاہ کو جاپان اور پاکستان کے مابین دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے میں اہم ترین کردار ادا کرنے، کوئٹہ میں جاپانی شہریوں کی مدد اور بلوچستان میں جاپانی کلچر کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کرنے پر جاپان کی حکومت نے غیر ملکیوں کو دیے جانے والے سب سے بڑے سول ایوارڈ ’’دی آرڈر آف رائزنگ سن‘‘ سے نوازا ہے۔ گزشتہ دنوں نمائندہ ’’جسارت سنڈے میگزین‘‘ نے پاک جاپان دوستی کو فروغ دینے میں اہم ترین کردار ادا کرنے والے سید ندیم عالم شاہ سے انٹرویو کیا جو قارئین کی نذر ہے۔
سوال: سب سے پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ جاپان حکومت کا بنیادی مشن کیا ہے؟
سید ندیم عالم شاہ:جاپان انسانیت کی بے لوث خدمت کے مشن پر گامزن ہے۔ جاپان حکومت نے غریب ممالک میں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر اربوں، کھربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ جاپان کا مشن دُنیا میں امن کو فروغ دینا ہے۔ اس مشن کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور اس پر بھاری رقم بھی خرچ کررہا ہے۔ جاپان کی حکومت اپنے عوام کے ٹیکس سے غریب ممالک کے عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے مکمل کرتی ہے۔ مختلف طریقوں سے امداد کرتی ہے۔ جاپان کی حکومت جو رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے اس کو بہت محتاط انداز سے مانیٹر بھی کرتی ہے، کیونکہ حکومتِ جاپان اس بارے میں اپنی پارلیمنٹ کو جواب دہ بھی ہے۔
سوال:پاکستان اور جاپان کے تعلقات کس نوعیت کے ہیں اور یہ بھی بتائیں کہ جاپان نے پاکستان کی کن شعبوں میں مدد کی ہے؟
سید ندیم عالم شاہ: جاپان پاکستان کا دیرینہ اور مخلص ترین دوست ہے۔ جاپان کی حکومت اور عوام اپنے برادر ملک پاکستان سے بے پناہ پیار کرتے ہیں، جبکہ جاپان نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور ہمیشہ دیتا رہے گا۔ جاپان اور پاکستان کے درمیان دوستی کو 66سال کا طویل عرصہ ہوچکا ہے۔ جاپان حکومت کسی بھی ملک میں ’’جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی‘‘ (جائیکا) کے ذریعے فلاحی منصوبے مکمل کرتی ہے۔ جاپان حکومت کا جائیکا کے ذریعے پاکستان کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے کیا جانے والا کام دونوں ملکوں کی دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جاپان حکومت نے کولمبو پلان کی روشنی میں اپنی تنظیم برائے بین الاقوامی تعاون جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) کے ذریعے تکنیکی تربیت فراہم کرتے ہوئے 1954ء میں پاکستان میں سرکاری ترقیاتی امداد (او ڈی اے) کا آغاز کیا تھا، جبکہ جاپانی سرکاری ترقیاتی امداد کا پہلا قرض 1961ء میں دیا گیا، اور 1970ء میں امدادی گرانٹ پیش کی گئی ۔2011ء میں جاپان کے تیکنیکی تعاون کی مجموعی رقم 46.4 ارب ین کے قریب تھی، بعد ازاں اس میں مزید اضافہ کیا گیا۔ جبکہ جاپان نے پانچ ہزار سے زائد تربیت کنندگان کو جاپان بلوایا اور بارہ سو سے زائد ماہرین جاپانی علم اور تجربے کا تبادلہ کرنے کے لیے پاکستان بھجوائے جاچکے ہیں۔ اسلام آباد میں قائم کیے گئے ’’ماں اور بچے کی صحت کا مرکز‘‘ اور ’’اسلام آباد چلڈرن ہسپتال‘‘ امدادی تعاون کی قابل ذکر مثال ہیں۔ جاپان نے وسائل آمدورفت اور توانائی جیسے شعبوں میں جاپانی قرضوں کے ذریعے پاکستان میں ترقیاتی ڈھانچے کی تشکیل میں تعاون کیا ہے۔ ان ترقیاتی کاموں میں ’’انڈس ہائی وے پراجیکٹ‘‘ خاص طور پر دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی ایک علامت ہے۔ پاکستان کو 1961ء سے دئیے جانے والے قرضوں کی مجموعی مالیت 2011ء میں 976 ارب ین کے قریب پہنچ چکی ہے۔ جاپان حکومت اپنی تنظیم ’جائیکا‘ کے ذریعے 1954ء سے حکومتِ پاکستان کے ساتھ مل کر پاکستانی عوام کے مستقبل کو درخشاں بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ جائیکا جاپان کی سرکاری ترقیاتی امداد (او ڈی اے) کے اطلاق کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے صحت، تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت، بجلی، پانی اور حفظان صحت، ذرائع آمد و رفت، صنعتی ترقی، زراعت اور قدرتی آفات سے نمٹنے جیسے شعبوں میں بہت سے منصوبے مکمل کرچکا ہے اور کئی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) کے پاکستان میں نمائندۂ خصوصی مٹسویوشی کا واساکی ہیں، انہوں نے پاکستان میں ترقیاتی ڈھانچے کی تشکیل میں جو کردار ادا کیا ہے وہ ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ تعلیم کے فروغ اور امن کے قیام کے لیے جاپان حکومت نے پاکستان کی بے پناہ مدد کی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں توانائی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے جاپان حکومت نے پاور سیکٹر میں بھی پاکستان کی بہت زیادہ مدد کی ہے۔ جاپان حکومت نے پاکستان کو توانائی کے بحران سے نجات دلانے کے لیے سولر انرجی پراجیکٹ متعارف کرایا ہے جو شاندار طریقے سے چل رہا ہے۔ اس سولر انرجی سسٹم کی سپلائی آن گریڈ ہے۔ سولر انرجی کا پراجیکٹ پاکستان انجینئرنگ کونسل اور پلاننگ کمیشن کے ساتھ جاپانی انجینئرز کا پاک جاپان دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کوہاٹ ٹنل کا منصوبہ بھی جاپان حکومت اور انجینئرنگ کا ایک شاہکار ہے۔
سوال:پاکستان میں انسانی تحفظ اور سماجی ومعاشی ڈھانچے کی بہتری کے لیے جاپان نے کیا اقدامات کیے ہیں؟
سید ندیم عالم شاہ:ایک چوتھائی پاکستانی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، جس کی وجہ سے ملک کے لیے ایک بڑی سطح پر ترقیاتی کام درکار ہیں۔ غربت سمیت دیگر مسائل حل کرنے سے پاکستان کو نہ صرف استحکام حاصل ہوگا بلکہ بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا وقار بلند ہوگا۔ 1954ء کے آغاز سے پاکستان کو جاپان سے ایک قابل ذکر امداد حاصل ہوئی ہے۔ تعاون کی بنیادی پالیسی معاشی نشو و نما کے ذریعے ایک مستحکم اور دیرپا معاشرے کی تعمیر ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ 2050ء میں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہوگا۔ لہٰذا پاکستان کے لیے یہ بات ناگزیر ہے کہ نجی شعبے کی قیادت میں معاشی نشوونما کے حصول کے لیے ایک مستحکم اور دیرپا معاشرہ تعمیر کرے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے جاپان نے درج ذیل3 ترجیحی شعبے طے کیے ہیں جن میں معاشی ڈھانچے کی بہتری، انسانی تحفظ اور سماجی ڈھانچے کی بہتری کو یقینی بنانا، متوازن اور مربوط علاقائی ترقی بشمول سرحدی علاقے شامل ہیں۔ معاشی ڈھانچے کی بہتری کے لیے جاپان بجلی کی فراہمی کا ایک مؤثر اور دیرپا نظام قائم کرتے ہوئے بجلی کی شدید کمی پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی مدد کرنے کا خواہش مند ہے۔ علاوہ ازیں جاپان موثر مقامی اور بین الاقوامی رابطے کی صلاحیت کے لیے ذرائع مواصلات کے ڈھانچے، غربت میں کمی، زرعی اجناس کی پیداوار میں بہتری اور سرمایہ کاری کی فضا اور برآمدات کے فروغ سمیت صنعتی شعبے کی مضبوطی کے لیے تعاون فراہم کرتا ہے ۔انسانی تحفظ اور سماجی ڈھانچے کی بہتری کو یقینی بنانے کے لیے جاپان پاکستان کو بنیادی تعلیم میں تعاون فراہم کرے گا، خصوصاً تکنیکی تعلیم میں تعاون فراہم کیا جائے گا تاکہ ملازمت اور معاشی نشوونما کے مواقع پیدا کیے جاسکیں۔ علاوہ ازیں پانی اور حفظانِ صحت کے خصوصاً شہری علاقوں میں خراب حالات، پولیو کے خاتمے کے پروگراموں سمیت کمیونٹیز میں صحت کی خدمات میں بہتری، اور وقفے وقفے سے قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کی استعداد کو مضبوط بنانے کے لیے تعاون فراہم کیا جارہا ہے، جبکہ متوازن اور مربوط علاقائی ترقی بشمول سرحدی علاقوں کے حوالے سے پاکستان، افغانستان کے سرحدی خطے کے استحکام میں بہتری لانے کے لیے جاپان متاثرہ علاقوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تعاون فراہم کرنے کا خواہش مند ہے۔ علاوہ ازیں پورے جنوبی ایشیائی خطے کو مستحکم کرنے کے لیے وہ پاکستان کے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعاون میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ جاپان خطے میں موجود تضادات کی وجہ سے پیدا ہونے والی سماجی بے چینی کو دور کرنے کے لیے ترقی پذیر خطوں کو بھی تعاون فراہم کررہا ہے۔ ’جائیکا‘ عالمی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے جاپان کی سرکاری ترقیاتی امداد کا اطلاق کررہا ہے۔ اس ایجنڈے کا مقصد مساوی نشوونما کے ذریعے غربت کو کم کرنا اور حکمرانی کو بہتر کرنا ہے، تاکہ انسان کو تحفظ حاصل ہوسکے۔ 1965ء میں ’’جاپان اوورسیز کوآپریشن والنٹیئرز‘‘ کے نام سے جاپانی سرکاری ترقیاتی امداد کی چھتری تلے رضاکار پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت جاپانی رضاکار بھرتی کیے جاتے ہیں اور نچلی سطحوں پر تکنیکی معلومات اور تجربے کی منتقلی اور تبادلے کے لیے انہیں ترقی پذیر ممالک میں بھجوایا جاتا ہے۔ یہ رضاکار عام طور پردو سال تک ترقی پذیر ملکوں میں مقامی لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ جائیکا رضاکار پروگرام کے تحت دو بڑی اسکیمیں ہیں۔ جاپان اوورسیز کوآپریشن والنٹیئرز کے رضاکار 20 سے 39 سال تک کی عمر کے جاپانی نوجوان ہوتے ہیں۔ یہ مختلف شعبوں میں تربیت یافتہ اور کوالیفائیڈ پروفیشنلز ہوتے ہیں جو میزبان تنظیموں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مقامی سطح پر کام کرتے ہیں۔ جائیکا کی طرف سے جاپان اوورسیز کوآپریشن والنٹیئرز کو پاکستان میں 1995ء میں وسعت دی گئی اور صحت و آگاہی، خواندگی و تعلیم، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ووکیشنل ٹریننگ، زراعت، کھیلوں، کمیونٹی ڈیولپمنٹ اور سماجی بہبود اور خصوصی تعلیم کے شعبوں میں اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ رضاکار کام کرچکے ہیں۔ سینئر والنٹیئر پروگرام ایسی اسکیم ہے جو درمیانی عمر کے افراد کے لیے مخصوص ہے جو ترقی پذیر ممالک میں تکنیکی تعاون سے متعلق سرگرمیوں میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں اور تجربے کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت بے پایاں صلاحیتوں اور بیش بہا پیشہ ورانہ تجربے کے حامل 40 سے 69 سال تک کی عمر کے افراد بھرتی کیے جاتے ہیں۔ جائیکا نے سینئر والنٹیئرز کو پاکستان بھیجنے کا آغاز 2001ء میں کیا، اور اب تک پچاس سے زیادہ سینئر والنٹیئرز پاکستان میں سائنس و ریاضی، تعلیم، انفارمیشن ٹیکنالوجی، جاپانی زبان، سیاحت، صنعت (ٹیکسٹائل اور آٹو موبائل) کے شعبوں میں اپنی خدمات فراہم کرچکے ہیں۔
سوال: یہ بتائیں کہ جاپان نے بلوچستان میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کون سے پراجیکٹ مکمل کیے ہیں؟
سید ندیم عالم شاہ: جاپان نے کائونٹر ویلیو فنڈز کے طریقہ کار کے تحت بلوچستان کے غریب عوام کی فلاح و بہبود کے کئی منصوبے مکمل کیے۔ غریب مچھیروں کو زندگی کی بنیادی ضروری اشیاء کی فراہمی کے لیے جاپان حکومت نے 800 ملین روپے کائونٹر ویلیو فنڈز کے ذریعے پسنی فش ہاربر ڈپارٹمنٹ کو منتقل کیے۔ اسی طرح بلوچستان میں غریب بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے 200 اسکول تعمیر کیے گئے۔ صحت اور زراعت کے شعبوں میں بھی خاصا کام کیا گیا۔ 350 کے قریب بلڈوزر بھی دیئے گئے۔ بلوچستان میں چونکہ بارشیں کم ہوتی ہیں اس لیے وہاں پر پانی زمین میں خاصا نیچے ہے، اس لیے وہاں پر ڈرلنگ کے لیے بیس سے زائد ڈرلنگ مشینیں دی گئیں۔ بولان میڈیکل کالج کی بھی امداد کی گئی۔ اس کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز میں اندرون ملک تربیت اور آلات کی فراہمی، گرڈ سسٹم آپریشن اور دیکھ بھال پر تربیتی استعداد کی بہتری کے لیے منصوبہ، قومی آفت سے نمٹنے کے لیے منصوبہ، ایئرپورٹ سیکورٹی کی بہتری کا منصوبہ،پاکستان میں پولیو وائرس پر قابو پانے اور خاتمے کے لیے منصوبہ، سیلاب کی وارننگ اور انتظامی استعداد کی اسٹرے ٹیجک مضبوطی، قومی ٹرانسمیشن لائنز اور گرڈ اسٹیشنز کی مضبوطی کا منصوبہ، پولیو کے خاتمے کا منصوبہ، دادو خضدار ٹرانسمیشن سسٹم منصوبہ، (LA) مشرقی مغربی سڑک کی بہتری کا منصوبہ، انڈس ہائی وے کی تعمیر کا منصوبہ شامل ہیں۔
سوال:جاپانی حکومت کس پالیسی کے تحت پاکستان کی امداد کرتی ہے؟
سید ندیم عالم شاہ: حکومت جاپان کی پالیسی کے تحت، جائیکا پاکستانی حکومت کی جانب سے کی جانی والی درخواستوں پر مبنی سرکاری ترقیاتی امداد (او ڈی اے) فراہم کرتا ہے۔ جائیکا کی جانب سے منظم کی جانے والی سرکاری ترقیاتی امداد (او ڈی اے) کی 3 اقسام میں درجہ بندی کی گئی ہے جس میں تکنیکی تعاون،امدادی گرانٹ اور اوڈی اے قرضہ جات شامل ہیں۔تکنیکی تعاون ۔تکنیکی تعاون استعداد کی تشکیل پر توجہ دیتا ہے۔ جاپانی علم اور تجربے کو پاکستانی عوام کو منتقلی کے لیے جاپانی ماہرین کو پاکستان کے لیے روانہ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان کے سرکاری اہلکاروں کو تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ تکنیکی تعاون کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ لوگ خود انحصاری اور اپنے مسائل خود اپنی کوششوں کے ذریعے سے حل کرسکیں۔امدادی گرانٹ، صحت، تعلیم، پانی کی فراہمی کے منصوبوں وغیرہ سمیت بہت سے شعبوں میں ترقیاتی منصوبوں اور سماجی شعبے کے لیے مالی تعاون ہے۔ یہ رقم کی واپسی کی ذمہ داری کے بغیر ایک تعاون ہے۔اوڈی اے قرضہ جات ۔جاپان کا اوڈی اے قرضہ نرم شرائط پر دیا جاتا ہے، اور سود کی کم شرح اور اس کی خاصیت ادائیگی کے لیے لمبا عرصہ اس قرضے کی خاصیت ہے۔ او ڈی اے کے قرضے زیادہ بنیادی، معاشی اور سماجی اساس کے ایسے منصوبوں کو دیئے جاتے ہیں جو پاکستان کی قومی ترقی کے لیے ناگزیر حیثیت کے حامل ہیں۔ اس طرح یہ قرضہ ’’معاشی افزائش‘‘ اور ’’استعداد اور ادارہ سازی‘‘ کے ذریعے غربت میں کمی میں مدد دیتا ہے۔
سوال: پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابوپانے کے لیے جاپان نے پاکستان کی کیا مدد کی ہے؟
سید ندیم عالم شاہ:جاپان حکومت نے جائیکاکے ذریعے پاکستان میں جاری توانائی بحران کے خاتے کے لیے کافی سارے اقدامات کیے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق، پاکستان میں بجلی کا شدید بحران ملک کی سالانہ گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ (جی ڈی پی) کے 3.0-2.5 فی صد کے نقصان کا ذمہ دار ہے۔ بجلی کی کمی کے علاوہ، شعبے کو جن اہم مسائل کا سامنا ہے ان میں بجلی کی مہنگی پیداوار اور ٹرانسمیشن اور تقسیم کاری نظام کی انتظامی نااہلی شامل ہیں جنہیں درست کرنے کے لیے جاپان جہد مسلسل کے طور پر پاکستان کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔گزشتہ 3 عشروں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جائیکا نے بن قاسم، کراچی،جام شورو، حیدرآباد اور غازی بروتھا ہائیدرو پاور پراجیکٹ سمیت بجلی کے پیداواری منصوبوں میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ بجلی تقسیم کاری کے نقصانات میں کمی کے لیے جائیکا نے قومی ٹرانسمیشن اور ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کی 12 نئے گرڈ اسٹیشن 1487 کلو میٹر لمبی تقسیم کاری لائنز تعمیر کرتے ہوئے اور تربیتی سہولتوں کو اپ گریڈ کرتے ہوئے گرڈ نظام کو پھیلانے میں مدد کی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ، بجلی کے قومی کنٹرول سسٹم کو کامیابی کے ساتھ انالاگ سے ڈیجیٹل نظام میں تبدیل کیا گیا ہے جو اس شعبے میں گورننس کو بہتر کرنے میں مدد دے گا۔ بجلی کی تقسیم کاری میں جائیکا نے پاکستان کے طول و عرض میں 6000 سے زائد دیہاتوں کو بجلی کی فراہمی میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔جائیکا ایک موثر اور دیر پا بجلی فراہمی کا نظام قائم کرنے میں تعاون کا ارادہ رکھتا ہے کیونکہ بجلی کی شدید کمی پاکستان میں سماجی استحکام اور معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
سوال: جاپان حکومت صنعتی ترقی کے لیے پاکستان کے ساتھ کیا تعاون کر رہی ہے؟
سید ندیم عالم شاہ: پاکستان میں تقابلی صنعتی بنیاد اور بہتر سرمایہ کاری کی آب و ہوا کو یقینی بنانے کے لیے بھی جائیکااپنا کردار ادا کر رہا ہے۔غربت کے خاتمے اور لوگوں کو زندگی کے اعلیٰ معیار سے لطف اندوز ہونے کے قابل بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں صنعتی ترقی اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) پر توجہ دی جائے۔ پاکستان کو بچت، سرمایہ کاری میں خلا کا سامنا ہے اور (ایف ڈی آئی) اس خلا کو پُر کرتے ہوئے معاشی نشوونماء کے عمل پر اثر انداز ہوتی ہے جو صنعتی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی سرگرمیوں کا گڑھ ہونے کے ناطے کراچی سے یہ امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ پاکستان کی بے پناہ معاشی نشوونماء میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔جائیکا چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ای)، خصوصاً آٹو موبائل شعبے کو تکنیکی تعاون فراہم کرنے کے علاوہ صنعت، تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے پالیسی سازی میں مدد کے لیے کردار ادا کررہا ہے۔ جائیکا سرکاری اور نجی شعبے میں متعلقین کی استعداد سازی میں اضافہ کرنے اور مارکیٹ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مقامی صنعت کے ساتھ تعاون کے طور پر جدید ٹیکنالوجی منتقل کرنے کا خواہش مند ہے چونکہ پاکستان میں ہموار (ایف ڈی آئی) کے داخلے دیر پا معاشی نشوونما کو یقینی بنانے کے لیے قومی پیداوار میں اضافہ اور مارکیٹ کا پھیلائو پر توجہ مرکوز ہے۔ جائیکا کی مدد سے جاپان کی صارف مارکیٹ کو تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانی آموں کے لیے کھولا گیا تھا۔جائیکا نے فرسٹ مائکرو فنانس بینک آف پاکستان (ایف ایم ایف پی) کے ساتھ مل کر غریب اور کم آمدنی رکھنے والے کاشتکاروں،چھوٹے پیمانے کے کاروباری منتظمین اور پاکستان کے دیگر شہریوں کو اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے اور زندگی کا معیار بہتر بنانے کے لیے خدمات فراہم کرنے کا کام شروع کیا۔
سوال: پاکستان میںذرائع آمد ور فت کو بہتر حوالے سے جاپان حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں؟
سید ندیم عالم شاہ:جائیکا آمدورفت کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے مختلف ممالک کے ساتھ بھرپور تعاون کرتا ہے ۔وسائل آمدورفت معیشت کا ایک اہم شعبہ ہے جو جی ڈی پی میں اپنا 10 فی صد اور گراس کیپیٹل فارمیشن میں 17 فی صد سے زائد حصہ ڈالتا ہے۔ برسوں پرانی سڑکوں کے نیٹ ورک اور نئی شاہراہوں اور موٹرویز کی اس میں شمولیت کے باوجود پاکستان کی سڑکوں کے نیٹ ورک کو اب بھی 22کروڑ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی شدید ضروریات کو پورا کرنے کے لیے معیاری وسائل آمدورفت کی خدمات میں کمی کا سامنا ہے، وسائل آمدورفت کے شعبے میں، جاپان کا تعاون سڑکوں اور ریلویز کی شکل میں فراہم کیا گیا ہے۔جائیکا کے تعاون نے انڈس ہائی وے کے 92 فی صد (1024 کلومیٹر میں سے 945 کلومیٹر) حصے کی تعمیر اور بحالی کرتے ہوئے پاکستان کے جنوبی اور شمالی حصوں کو آپس میں منسلک کردیا ہے۔ مزید برآں، انڈس ہائی وے پر تعمیر کی جانے والی پہلی جدید ترین 1.9 کلومیٹر لمبی کوہاٹ سرنگ نے فاصلے کو خاصا کم اور انسانوں اور گاڑیوں کے تحفظ میں اضافہ کردیا ہے۔ پاکستان میں آمدورفت کے مطابق کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے جائیکا نے مختلف منصوبوں کے ذریعے امداد فراہم کی ہے۔پلاننگ کمیشن کے زیر نگرانی قومی تجارتی راہداری کی بہتری کے پروگرام پر عملدرآمد ہورہا ہے جبکہ ترقیاتی شراکت دار اس پروگرام میں معاونت کررہے ہیں۔ قومی تجارتی راہداری کی ترقی کا مقصد کراچی سے پشاور تک شاہراہ کو مستحکم اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے کاروباری نقل و حمل پراٹھنے والے اخراجات کوم کم کرنا ہے۔ انڈس ہائی وے منصوبہ کے تحت اضافہ کیرج وے کی تعمیر قومی تجارتی راہداری کی ترقی کا لازمی حصہ ہوگی۔ انڈس ہائی وے کی بحالی سے کراچی اور پشاور کے درمیان فاصلہ نیشنل ہائی وے کی روایتی مین روٹ کے مقابلے میں 500 کلومیٹر کم ہوکر رہ جائے گا۔ کوہاٹ ٹنل سرکاری ترقیاتی امداد کے قرضے کے تحت شروع کیا جانے والا منصوبہ درہ کوہاٹ کے لیے ایک متبادل روٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد سفر کے لیے فاصلے کو کم کرنا، ٹریفک جام کا خاتمہ کرنا اور وڈسیفٹی کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے علاوہ صوبہ سندھ میں دیہی سڑکوں کی تعمیر سے صوبے کے دیہات میں رہنے والی آبادی کی زندگی میں بہتری آنے کا امکان ہے۔ اسلام آباد میں ٹیکنالوجی ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (امداد گرانٹ کے تحت منصوبہ) کی تعمیر پاکستان، جاپان دوستی کی ایک زندہ مثال ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ مؤثر اور جامع تعمیراتی ٹیکنالوجی سے وابستہ تکنیکی تعلیم فراہم کرتا ہے۔ یہ مواصلات کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور دیکھ بھال کے لیے معیاری روک فورس کی بھرتی میں وزارت مواصلات کی معاونت کرتا ہے۔دیہاتوں کو شہروں کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے 1000 کلومیٹر لمبی دیہاتی سڑکوں کی تعمیر کی گئیں اور بحال کی گئی ہیں تاکہ دیہاتوں میں زندگی گزارنے کا معیار بہتر بنایا جاسکے۔ شہری علاقوں میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے منسلک ٹریفک کے دبائو سے نمٹنے کے لیے جائیکا نے کراچی اور لاہور میں ٹرانسپورٹ کے لیے ایک مجموعی ماسٹر پلان تشکیل دینے میں مدد کی ہے تاکہ شہری علاقے ایک دیر پا اور منصوبہ بندی کے انداز میں پروان چڑھ سکیں اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کے لیے زیادہ متحرک ہوتے ہوئے انہیں اپنی جانب متوجہ کرسکیں۔
(جاری ہے)

حصہ