مثبت رپورٹنگ…بشیرا اِن ٹربل

313

آج کا مضمون ویسے تو گزشتہ سے پیوستہ ہی تھا کیونکہ طوالت کی وجہ سے پچھلے ہفتے اُسے درمیان سے چھوڑنا پڑا تھا، البتہ اس ہفتے دوبارہ ہمارے وزیراعظم اور چیف جسٹس صاحب ہی سماجی میڈیا کے مقبول موضوعات میں کسی نہ کسی شکل میں چھائے رہے۔ وزیراعظم ہر تقریر یا کسی انٹرویو میں عوام الناس کے لیے نت نئی پھلجھڑیاں چھوڑنے کا کوئی موقع جانے ہی نہیں دیتے۔ ابھی ہم انڈوں، کٹوں کی بحث اور ’’بشریٰ بی بی کی توجہ‘‘ سے نکلے بھی نہ تھے کہ ڈالر ایشو پر لاعلمی اور مڈٹرم الیکشن کے بیان نے نئی بحث چھیڑ دی۔ ویسے انڈوں، مرغیوں والے ایشو پر اتنا شور اٹھا کہ وزیراعظم کو جوابی ٹویٹ کرنا پڑ گیا:
’’نوآبادیات سے متاثر (غلامانہ) ذہنوں کو مرغ بانی کے ذریعے غربت کے خاتمے کا خیال مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے مگر جب ’’گورے‘‘ دیسی مرغیوں (مرغ بانی) کے ذریعے غربت مٹانے کی بات کرتے ہیں تو اسے ’’خیالِ نادر‘‘ قرار دے کر یہ عش عش کر اٹھتے ہیں‘‘۔
ویسے اپوزیشن نے پورا فائدہ اٹھایا کپتان کی اس سادگی کا۔
بہرحال اسی دوران وزیراعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان کی بے شمار جائداد کا کیس بھی منظرعام پر آیا جوکہ انکم ٹیکس گوشواروں میں شامل نہیں تھی (یعنی ٹیکس چوری کیا جا رہا تھا)، مزید یہ کہ انہوں نے ایمنسٹی اسکیم سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا (یعنی اربوں روپے کما کر چند لاکھ دینے کی بھی توفیق نہیں ہوئی) جس پر سوالات تو اٹھے، شور بھی مچا، مرغی کے ساتھ علیمہ خان کی تصاویر کی کئی دلچسپ میمز بھی وائرل رہیں، لیکن سب ٹائیں ٹائیں فش رہا۔ ویسے سپریم کورٹ میں یہ کیس زیر سماعت ہے۔ سماجی میڈیاکے مطابق مجموعی کارروائی اس کے سوا کچھ نہ ہوئی کہ ’’ایف بی آر نے کلین چٹ دے دی‘‘۔ دوسری جانب یہ خلاصہ وائرل رہا کہ ’’علیمہ خان نے بینک سے قرضہ لے کر60 ارب ر وپے کی جائداد لی اور ملنے والے کرایہ سے بینک کی اقساط ادا کیں۔‘‘
ابھی حکومت علیمہ خان ڈیل کر ہی رہی تھی کہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس صاحب نے اعظم سواتی کیس میں انتہائی سخت ریمارکس دیئے جس نے قرونِ اولیٰ کے قاضیوں کی یاد تازہ کردی کہ کس طرح ایک غریب کسان کے ساتھ ایک طاقت ور حکمران کی زیادتی کا ازالہ آج کے دور میں بھی ممکن ہے۔ اس کے بعد نااہلی کی لٹکتی تلوار… سپریم کورٹ سے مبینہ سخت سزا سے بچنے کے لیے وفاقی وزیر اَعظم سواتی کو استعفیٰ دینا پڑا جسے وزیرِاعظم نے خوشی خوشی قبول بھی کرلیا۔ اس پر بھی تحریک انصاف نے ’انصاف‘کا بول بالا ہونے کی ازخود خوب داد سمیٹی۔ ویسے اہم بات یہ بھی ہے کہ اعظم سواتی بہت بری طرح پھنس چکے تھے، جے آئی ٹی میں کئی اور معاملات بھی سامنے آرہے تھے، یہی عافیت کا راستہ تھا۔ ویسے سو دنوں بلکہ ایک سو دس دنوں میں دو اہم حکومتی شخصیات نے کرپشن کے دائرے میں آنے اور نااہلی سے بچنے کی خاطر استعفیٰ دے کرجان بچائی ہے، اس میں اوّل الذکر بابر اعوان ہیں جو کہ وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے پارلیمانی امور تھے، دوسرے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی ہیں۔ سماجی میڈیا پر اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کی ٹویٹ نے جلتی پر تیل کاکام انجام دیا اور عوام پھٹ پڑے۔ ٹویٹ ملاحظہ فرمائیں: ’’اعظم سواتی وہ دوسرے وزیر ہیں جنہوں نے انتہای عمومی تحقیقات پر بھی استعفیٰ دے دیا۔ اس ملک میں سزا یافتہ لوگ بھی عہدوں سے چمٹے رہتے تھے۔ عمران خان نے خود احتسابی کا جو کلچر سیاست میں متعارف کرایا اُس کی مثال انتہائی جدید جمہوری ممالک میں ہی ملتی ہے۔ یہی روایات نئے پاکستان کا نیا رخ ہیں‘‘۔ اس ٹویٹ پر عوام نے استعفوں کا پول اس انداز سے کھولا کہ: ’’ایک وزیر کو، ایک مزدور کی بھینس لے ڈوبی۔ اس کو کہتے ہیں خدا کی بے آواز لاٹھی‘‘۔ اسی طرح ایک اور ناقد نے تجزیہ پیش کیا کہ ’’اعظم سواتی نے کلین بولڈ ہونے سے پہلے ریٹائرڈ ہرٹ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ وفاقی وزیر اَعظم سواتی کو نااہلی سے بچانے کے لیے استعفیٰ لیا گیا‘‘۔ ایک اور تجزیہ اس انداز سے کیا گیا کہ ’’جب آرٹیکل 62کی بات ہونے لگی تو استعفیٰ یاد آگیا‘‘۔ حامد میر سینئر صحافی ٹویٹ کرتے ہیں کہ ’’بابر اعوان کے بعد اعظم سواتی نے بھی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا، کیا زلفی بخاری کو بھی استعفیٰ دے دینا چاہیے یا اپنی غیر ملکی شہریت چھوڑ دینی چاہیے؟‘‘ اس کے ساتھ اعظم سواتی کے خلاف جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں پیپلز پارٹی کی رہنما صوبائی وزیر شہلا رضا نے بھی ٹویٹ کرتے ہوئے اعظم سواتی کے پاکستان سے امریکا تک کے مبینہ جرائم پر عدالتِ عالیہ کے فیصلے کی جانب اشارہ دیتے ہوئے کہاکہ’’اعظم سواتی کا استعفیٰ کیا 62F کی کارروائی سے بچنے کے لیے ہے؟ کیا اس طرح وہ اپنے تمام جرائم سے بچ کر کچھ عرصے بعد پھر چور دروازے سے سیاست میں داخل ہوکر کسی اور اعلیٰ عہدے پر براجمان ہوکر امریکا سے پاکستان تک کے جرائم پر پردہ ڈال کر نئی لوٹ مار شروع کردیں گے؟ انتظار ہے عدالت عالیہ کا‘‘۔ اس ٹویٹ کے ذیل میں شہلا رضا کے ساتھ جو کچھ ’انصافیوں‘ نے کیا وہ ضبطِ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا، صرف چند قابلِ برداشت ریپلائز پیش ہیں۔ ایک صاحب نے محترمہ کی اصلاح کرتے ہوئے بتایا کہ کیس عدالتِ عالیہ میں نہیں بلکہ عدالتِ عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔ اسی طرح ایک اور تنقیدی نشتر اس انداز سے چلایا گیا کہ ’’اب ہر کوئی زرداری تھوڑا ہی ہے‘‘۔ ’’محترمہ پی پی کے کس وزیر، مشیر نے اپنے اوپر الزام لگنے پر استعفیٰ دیا؟‘‘ ایک اور صاحب پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت کے ’’کارنامے‘‘ گنواتے ہوئے کہتے ہیں ’’مائی! سرے محل سے سوئس اکاؤنٹس تک، گھوڑوں کے مربہ سے بلاول ہاؤس تک، بھٹو کے مقبروں سے لے کر اس خاندان کی دال روٹی تک عوام کے پیسے چوری کرکے پورا کرتے ہو۔ بی بی کے قاتل کو بی بی کی پارٹی دے دی اور باتیں سنو چوروںکی‘‘۔ اسی طرح ایک اور انصافیے نے بتانے کی کوشش کی کہ ’’کون سا اور حکمران ہوگا جو ایک میٹر ریڈر سے پوچھے گا کہ وہ سیاست کی سیڑھی استعمال کرکے ارب پتی کیسے بنا؟ سوال تو اُٹھے گا کہ ایک شخص سینما کے ٹکٹ بلیک کرتے کرتے کھرب پتی کیسے بنا؟ لوگ تو پوچھیں گے کہ بے نظیر نے سرے محل کیسے خریدا؟ سوالوں کے انبار!‘‘
لوگ سماجی میڈیا کی کرامت سے کچھ سمجھ دار بھی ہوگئے ہیں، کیونکہ اس کیس میں کسان اور اس کی بھینس کے بعد اگلا متاثر آئی جی اسلام آباد تھا، لہٰذا اس کے لیے بھی سماجی میڈیا پر آواز بلند ہوتی نظر آئی: ’’اعظم سواتی نے استعفیٰ ٰتو دے دیا مگر کیا عمران خان کو بھی بطور وزیر داخلہ آئی جی اسلام آباد کی تبدیلی کرنے پر معذرت یا افسوس کا اظہار نہیں کرنا چاہیے!‘‘
اس ساری صورتِ حال میں وزیراعظم پاکستان عمران خان اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کے مابین قربت اور انفرادی ملاقاتیں دیکھ کر اس انداز سے بھی تجزیے کیے گئے، ’’معروف صحافی رؤف کلاسرا کی جانب سے اعظم سواتی کے بارے میں کیے گئے انکشافات بھی وائرل رہے جس کے مطابق’’اعظم سواتی کے کارنامے تو نوازشریف اور ان کے صاحب زادوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ ایک دیہاتی شخص اٹھا اور اس نے ہند، سندھ اور باہر جہاں جہاں اس شخص کا داؤ لگا اس نے داؤ لگایا۔ اعظم سواتی کے خلاف جب جے آئی ٹی نے تحقیقات شروع کی تو اس کو پہلا جھٹکا تو یہ لگا کہ اسے اعظم سواتی نام کا بندہ کہیں ملا ہی نہیں۔ اعظم سواتی نامی شخص کہیں بھی وجود نہیں رکھتا تھا، کیونکہ موصوف کا نام اعظم سواتی ہے ہی نہیں۔ اس پر ایف آئی اے نے ایک ٹیم بنائی جو مانسہرہ پہنچی جہاں ان کے ہائی اسکول کا ریکارڈ نکالا گیا تو معلوم ہوا کہ موصوف کا نام بشیر احمد ہے اور ان کی تاریخ پیدائش 8 دسمبر 1947ء ہے۔ ان کا نام اعظم سواتی بعد میں مشہور ہوا۔ بشیر احمد المعروف اعظم سواتی کے پاس بہت سے ملکوں کے اقامے موجود ہیں۔ ان صاحب نے مانسہرہ کے ناظم کی حیثیت سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ اعظم سواتی ایک کاروباری شخص ہیں۔ امریکا اور یو اے ای میں ان کی لگ بھگ 82 جائدادیں، جبکہ پاکستان میں 22 جائدادیں ہیں۔ وہ پاکستان سے باہر 15 کاروبار چلاتے ہیں۔ ان کے نام پر 5 بینک اکائونٹس ہیں اور ان میں ایک ارب 53 کروڑ سے زائد کی رقم موجود ہے۔ دوسری جانب ان کے ڈالر اکائونٹ میں 97 لاکھ ڈالر سے زیادہ کی رقم موجود ہے۔ اعظم سواتی کی اہلیہ کے نام پر 7 بینک اکائونٹس اور ایک لاکر ہے۔ انہوں نے 2007ء سے اب تک صرف 14 لاکھ ٹیکس دیا ہے۔ اعظم سواتی نے جو یہ ٹیکس دیا ہے وہ سینیٹ کی تنخواہ سے کٹتا رہا ہے۔ رؤف کلاسرا کا کہنا تھا کہ موصوف کے خلاف صرف آرٹیکل 62 کے تحت کارروائی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان پر کرمنل کیسز بننے چاہئیں‘‘۔ ان حقائق کے منظرعام پر آنے کے بعد وزیراعظم کی چیف جسٹس سے ون ٹو ون ملاقات کیا معنی رکھتی ہے! کس کس کو بچائیں گے… بہن علیمہ خان کو، شادیوں کے سفیر زلفی بخاری کو یا دونمبری اعظم سواتی کو؟‘‘
یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے البتہ اس ہفتے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے بھی ایک پریس کانفرنس کی گئی، جس میں بہت کچھ کہا گیا، البتہ میڈیا کے حوالے سے یا ذمہ دارانہ صحافت کے حوالے سے اُن کی ایک اہم ہدایت جو کہ فی زمانہ واقعتاً پاکستان کے لیے بہتری کی ضامن ہوسکتی ہے، یہ تھی کہ میڈیا کچھ عرصے پاکستان کا صرف مثبت امیج پیش کرے، مثبت خبریں نشر کرے اور پاکستان کی اچھی چیزوں کو کھل کر بیان کیا جائے۔ ماہرین نفسیات اور ماہرین ابلاغیات بھی یہی کہتے ہیں کہ منفی خبروں کے اثرات بھی سماج پر منفی ہی پڑتے ہیں۔ لیکن کیا کریں، ٹویٹر پر جیسے ہی’’مثبت رپورٹنگ‘‘ کا ٹرینڈ بنا اس کے ذیل میں خوب مذاق ہی بنتا نظر آیا۔ ایسی ایسی میمز، مثبت رپورٹنگ کے اظہار کے لیے ایسے ایسے کیپشن بنائے گئے کہ واقعی طبیعت بحال ہوگئی۔ چند نمونے پیش ہیں۔
پاکستان نیوزی لینڈ کرکٹ سیریز کی ایک خبر کو مثال بناتے ہوئے ٹویٹ چلی کہ ’’سرفراز آئوٹ ہوگیا مگر ابھی بھی بلال آصف اور یاسر شاہ کی وکٹیں باقی ہیں‘‘۔ ایک اور دلچسپ مثال یوں دی گئی کہ ’’آج پاکستان کرکٹ ٹیم نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا، صرف پانچ کھلاڑی آئوٹ ہوئے کھانے کے وقفے تک۔اس کا کریڈٹ پوری ٹیم کو جاتا ہے۔‘‘
اسی طرح قرضوں کے حوالے سے: ’’برطانیہ نے پاکستان سے اپنے شہریوں کے اکائونٹ کی تفصیلات مانگنے کے لیے عمران خان کے پاؤں پکڑ لیے‘‘۔ ایک اور دوست پاکستانی معیشت کے لیے مثبت خبر کی مثال یوں ٹویٹ کی صورت دیتے ہیںکہ ’’اور امریکا کی رال ٹپک گئی۔ پاکستان سے دو سو ارب کی بھیک مانگ لی‘‘۔ اسی طرح ملکی معیشت پر مثبت خبر کی مثال یوں دی گئی کہ ’’پاکستان کی معیشت فلک شگاف کرتے ہوئے چاند پہ جا پہنچی‘‘۔ اور ’’ڈالر کی قیمت بڑھنے سے اسٹاک مارکیٹ کا دھڑن تختہ ہونے سے ملک کی معیشت مضبوط اور مستحکم ہوگی اور مہنگائی کا طوفان بے قابو ہونے سے عام آدمی خوش حال ہوگا‘‘۔ ڈیم فنڈ کے حوالے سے: ’’ڈیم فنڈ میں ایک دن میں دس کروڑ ڈالر جمع ہوگئے‘‘۔ پاک بھارت جنگ کے تناظر میں ایک مثال یہ دی گئی:’’ہم نے کارگل فتح کرکے کشمیر کو رہا کروا لیا تھا۔ پھر نوازشریف نے مہمانوں سے عیدی کی طرح واپس کرادیا۔ ہم نے جیسے ہی کشمیر فتح کیا نوازشریف نے بارڈر کا گیٹ بند کرکے تالا لگادیا۔‘‘
نوٹ: مثبت رپورٹنگ ضرور ہونی چاہیے لیکن مذکورہ بالا مثالیں اس ضمن میں نہیں آتیں۔ لوگوں نے یہ تمام ازراہِ تفنن سماجی میڈیا پر پیش کی ہیں۔

حصہ