ذراسی بات

424

شیبہ اعجاز
خالہ بی نے نہ جانے کیوں مجھ سے ضد سی باندھ لی تھی۔ بچوں کے کام آہستہ آہستہ اپنے ذمے لے لیے تھے۔ پہلے تو مجھے اندازہ نہیں ہوا، لیکن جب ہر صبح وہ مجھ سے پہلے اٹھنے لگیں تو مجھے تشویش ہوئی۔ کل تو حد ہی ہوگئی، میں صبح فجر پڑھنے سے پہلے کچن میں آگئی اور بچوں کے لنچ کی تیاری شروع کردی، ابھی دو منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ خالہ بی کچن میں آگئیں۔’’ارے خالہ بی آپ اپنی تسبیح پڑھیں، میں کرلوں گی‘‘۔ میں نے غصے کے باوجود بڑے تحمل سے کہا، لیکن انہوں نے تو جیسے سنا ہی نہیں، اور انڈے پھینٹنا شروع کردیے۔
میں نے بھی کمرے میں آکر نماز شروع کردی، لیکن میرا دماغ اسی طرف لگا رہا۔ میں نے سوچ لیا تھا آج میاں جی سے ضرور بات کروں گی۔ بچے اسکول جاچکے تھے اور خالہ بی اپنے کمرے میں جاکر دوبارہ سوگئی تھیں۔ اندر ہی اندر میرا دماغ کھول رہا تھا۔ سمیع ناشتے کی میز پر آئے تو مسکراتے ہوئے بولے ’’یہ غصہ برتنوں پہ کیوں نکل رہا ہے، کیا ہوگیا آج صبح صبح؟‘‘ میں تو جیسے بھری بیٹھی تھی ’’دیکھیں سمیع، میں نے بہت برداشت کرلیا، خالہ میرے ساتھ اچھا نہیں کررہیں، وہ بچوں کو مجھ سے دور کررہی ہیں‘‘۔ ’’واہ واہ! کیا خیال ہے۔ اچانک کیسے ذہن میں آیا!‘‘ سمیع نے طنز کیا
’’میں مذاق نہیں کررہی، وہ بچوں کے سارے کام خود کرنے لگی ہیں۔ مجھ سے پہلے سب کچھ کرنے کی فکر رہتی ہے انہیں، اور اب تو جتنی جلدی میں صبح اٹھوں، دوسرے دن اس سے پہلے اٹھ جاتی ہیں‘‘۔ میں نے بات کرتے کرتے چائے نکالی اور میز پہ سمیع کے ساتھ ہی ناشتا کرنے بیٹھ گئی، مگر کچھ کھانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا، عجیب سی بے چینی تھی۔ ’’تم کو وہم ہے، بات کچھ نہیں۔ بھلا وہ ایسا کیوں کریں گی؟‘‘ میں خاموش ہی رہی تو انہوں نے کہا ’’تم ایساکرو تھوڑی دیر امی کی طرف ہو آئو، بلکہ میں تمہیں چھوڑتا ہوا آفس چلا جائوں گا ‘‘۔ مجھے بھی کچھ تسلی ہوئی کہ امی سے مشورہ کروں گی تو سکون مل جائے گا۔ گھر قریب ہونے کی سہولت بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ ’’نہیں آپ جائیں، میں ماسی سے کام کرواکے چلی جائوں گی، خالہ بی بھی جب تک اٹھ جائیں گی‘‘۔
امی کے گھر داخل ہوئی تو دال بگھارنے کی خوشبو سے ایک دم بھوک محسوس ہوئی۔ ویسے بھی اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی میکہ میں کھانے کا مزا ہی الگ ہے۔ پلیٹ میں دال چاول نکالے اور امی کے ساتھ بیٹھ گئی۔ ’’بات کیا ہے، کچھ خیریت نہیں لگ رہی‘‘۔ میرے بے وقت آنے پر وہ حیران تھیں۔ میں نے کھانا کھاتے ہوئے امی کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا تو میری توقع کے برخلاف وہ پریشان ہونے کے بجائے مسکرانے لگیں اور ان کے مسکراتے ہی میرا منہ بن گیا۔ ’’امی میں نے آپ سے آج تک کوئی شکایت نہیں کی، اب آپ میری بات کو سن ہی نہیںرہیں۔‘‘
’’یہی تو میں کہہ رہی ہوں بیٹا کہ اچانک ایسا کیا ہوگیا!‘‘ میرا دل خود پریشان تھا، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔ میں بالکل خاموش ہوگئی تو امی نے پلیٹ ایک طرف رکھی اور میرا ہاتھ پکڑ کر بولیں ’’میں تمہیں غلط نہیں کہوں گی، لیکن خود سوچو، شادی سے اب تک کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہوئی تو اب کیوں؟ اور اگر واقعی کوئی وجہ ہے تو خود سوچو‘‘۔ مجھے امی کی بات سے اتفاق تھا، لیکن خالہ بی کو مسئلہ ہی کیا تھا! کوئی ذمہ داری تو تھی نہیں ان کی۔ ہم سب ان کا خیال رکھتے تھے، بس آج کل نئے گھر کی شفٹنگ میں تھوڑا مصروف ہوگئے تھے۔ بچے بھی ہر وقت اپنے کمروں کی سیٹنگ کی باتیں کرتے رہتے۔ نیچے خالہ بی کا اور ہمارا کمرہ تھا، باقی بچوں کے کمرے اوپر تھے۔
امی دروازہ کھولنے گئیں تو میں اپنے گھر کے بارے میں ہی سوچنے لگی۔ سب ہی اپنی اپنی پسند بتارہے تھے سوائے خالہ بی کے۔ امی واپس آئیں اور امی کے ساتھ محلے کی خواتین کو دیکھا تو میرے ذہن کی ساری گتھیاں سلجھ گئیں۔ جب سے نئے گھر جانے کا فیصلہ ہوا تھا تب سے ہی خالی بی کے رویّے میں تبدیلی شروع ہوگئی تھی۔ ان کے اندر اکیلے پن کا خوف سر اٹھانے لگا تھا، اور انہوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اب بچے مجھ سے دور ہوجائیں گے لہٰذا میں بچوں کو اپنا اتنا عادی بنالوں کہ وہ مجھے چھوڑ کر اوپر کی منزل پہ نہ جائیں۔ امی نے مجھے مسکراتے ہوئے دیکھا ’’یقینا تم نے حل نکال لیا ہے اپنے مسئلے کا‘‘۔
’’جی امی، آپ کی مصروفیت نے مجھے اس مشکل سے نکال لیا ہے۔ میری شادی کے بعد جب بھائی نوکری کی وجہ سے جدہ چلے گئے تو امی نے اپنے گھر میں عورتوں کے لیے تدریس قرآن کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ ان کو اکیلے پن کا کوئی خوف نہیں تھا، اور اب مجھے خالہ بی کے دل سے بھی یہ خوف نکالنا تھا اپنائیت، محبت اور اس یقین کے ساتھ کہ اگر ساتھ اچھا ہو تو صرف گھر بدلتے ہیں، دل نہیں۔

حصہ