سولہ دسمبر کے بہاری یاد ہیں ؟

427

تنویر اللہ خان
۔16دسمبر 1971ء صرف پاکستان کے دولخت ہوجانے کا ہی نوحہ نہیں ہے بلکہ یہ دن ہمارے لیے ایک رِستا ہوا زخم ہے جو ہماری قدرناشناسی، بے وفائی، بے قدری کی وجہ سے بھرکر نہیں دے رہا ہے۔ شاید ہم دنیا کا واحد ملک ہیں جو اپنے وفاداروں سے غداری کرنے اور ان سے منہ پھیرنے میں مزا محسوس کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے البدر و الشمس اور جماعت اسلامی کے پھانسی پر لٹکائے جانے والے ’’محب وطن پاکستانی‘‘ اور حال کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس کی بڑی مثالیں ہیں۔
1971ء میں سقوطِ ڈھاکا کے وقت اپنے ہی ملک کی افواج کا ساتھ دینے والے غدار تھے؟ یا غیر ملکی حملہ آور جارح فوج کے لیے کام کرنے والے غدار تھے؟ یہ سوال ہی حماقت بھرا نظر آتا ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حماقت اس سوال میں نہیں ہے، بلکہ حماقت اور غداری ہمارے آج کے اس رویّے میں ہے جو ہم نے اختیار کیا ہوا ہے۔
جماعت اسلامی کے سولی چڑھائے جانے والے صرف جماعت اسلامی کے ہی ہیرو نہیں ہیں، بلکہ انھیں پاکستانی عوام اور اُس سے بڑھ کر افواجِ پاکستان کا ہیرو ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے آرمی چیف انڈیا کے نوجوت سنگھ سدھو کو تو گلے لگاکر کرتارپور کا راستہ کھولنے کا وعدہ کرتے ہیں اور اپنے وعدے کو پورا بھی کردیتے ہیں، ہم بھی اپنے سکھ بھائیوں کی خوشی پر راضی ہیں، لیکن اپنے آرمی چیف سے یہ گلہ ضرور کرتے ہیں کہ اُنھیں سولہ دسمبر کو بھی پاکستان کے لیے مرنے والے اور پاکستان کے لیے کئی نسلوں سے کیمپوں میں سسک سسک کر زندگی گزارنے والے بہاری کیوں یاد نہیں آتے؟ کیا بہاری انسان نہیں ہیں؟ انھیں کیوں پاکستانی تسلیم نہیں کیا جاتا؟ جو پاکستان کی محبت میں مرے جارہے ہیں انھیں پاکستان کا شناختی کارڈ کیوں نہیں دیا جاتا؟ میسر خزانوں کی قدر نہ کرنے والے اور خصوصاً محبت کرنے والے انسانوں کی ناقدری کرنے والے اپنے لیے ناقابلِ تلافی پچھتاوا ہی سمیٹتے ہیں، جو ہم سمیٹ رہے ہیں۔
ہمارے سب لکھنے اور بولنے والے سولہ دسمبر کو پاکستان ٹوٹنے کی وجوہات اور اس سانحے کے ذمے داران کا تعین کرنے کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔ کسی کا بھی دھیان پانچ دہائیوں سے کیمپوں میں مہاجرین کی زندگی گزارنے والے بہاریوں کی طرف نہیں جاتا۔
زندہ رہنے کی ہر طرح کی سہولت سے محروم یہ کیمپ اور یہاں رہنے والے ہمارے بہاری بھائی جانوروں سے بدتر زندگی کاٹنے پر مجبور ہیں۔ بنگلہ دیش میں بہاریوں کو صرف غیر ملکی اجنبی ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ وہ غدار بھی سمجھے جاتے ہیں، انھیں بنگلہ دیش میں معاش کمانے کے مواقع میسر نہیں ہیں، وہ کسی ملک کے شہری نہیں ہیں۔
دُنیا میں بہت کم ایسے ملک ہوں گے جو اپنے شہریوں کی پروا نہ کرتے ہوں۔ امریکہ کے شہری خواہ وہ ماضی میں کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں، اب اگر وہ امریکی شہری ہیں تو انھیں اپنی اس شہریت پر فخر ہوتا ہے، انھیں یقین ہوتا ہے کہ وہ دُنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، امریکہ ان کا محافظ ہے۔ لیکن پاکستان ہی ایسا ملک ہے جو اپنے شہریوں کی پروا نہیں کرتا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کیا جانا ہمارے حکمرانوں کی بے حمیتی کا شاہکار ہے۔ موجودہ حکومت سے پہلے حکمران ڈاکٹرعافیہ کا نام لینے سے بھی کتراتے تھے۔ ڈاکٹر عافیہ امریکا میں مذاق جیسے الزام پر سزا کاٹ رہی ہیں۔ نام نہاد ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ، انسانی حقوق کے علَم برداروں، آزاد عدلیہ کے دعوے داروں کی عدالتیں بھی ڈاکٹر عافیہ کے معاملے میں حکومت کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہیں، ان کا انصاف جانے کہاں دفن ہوگیا ہے!
جناب عمران خان کی حکومت کچھ نیا کرنے کے خبط میں مبتلا ہے، لہٰذا ہوسکتا ہے کہ انھیں بنگلہ دیش کے بہاری پاکستانیوں کی طرف توجہ دلائی جائے تو ہمارے بہاری بھائیوں کی مشکل حل ہوجائے۔ کچھ برس پہلے بنگلہ دیش کے ان ہی کیمپوں میں رہنے والے نسیم نامی صاحب بہاریوں کی پاکستان منتقلی کی کوشش کرتے سنائی دیتے تھے۔ نامعلوم اب وہ اس دنیا میں ہیں بھی یا نہیں، لہٰذا اب بہاریوں کا ذکر بھی ختم ہوگیا ہے۔
آپ بہاریوں کے پناہ گزین کیمپ میں رہنے والے برباد بچوں، بوڑھوں اور خواتین کی میڈیا پر موجود تصاویر دیکھ لیں… انتظار، حسرت اور خوف ان کی آنکھوں سے ابلتا نظر آتا ہے۔ یہاں رہنے والوں کو بین الاقوامی این جی اوز اردو اسپیکنگ پاکستانی کے نام سے پکارتی ہیں۔ کہنے کو تو یہ عارضی کیمپ ہیں لیکن 1971ء سے آج تک ان کی عارضی ہونے کی بے یقینی ختم ہونے کو نہیں آرہی ہے۔
اپنی، اپنے بوڑھوں اور بچوں کی بھوک انسان کو سب کچھ کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ ڈھاکا کے ان عارضی کیمپوں میں رہنے والوں کی بہنیں اور بیٹیاں پیٹ بھرنے کے لیے اپنی عصمتیں بیچنے پر مجبور ہیں۔ ایک وقت کی آدھے پیٹ روٹی کے لیے وہ اپنا سب کچھ لٹانے پر آمادہ ہیں۔ اگر ہم میں کوئی غیرت و حمیت ہے تو بنگلہ دیش کے بہاری کیمپوں میں رہنے والے پاکستانیوں کو کم ازکم سولہ دسمبر کو یاد ضرور کرلیں۔

حصہ