آرٹس کونسل کراچی کے زیر اہتمام عالمی اردو کانفرنس

472

ڈاکٹر نثار احمد نثار
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیراہتمام 22 تا 25 نومبر 2018 گیارہویں عالمی اردو کانفرنس منعقد کی گئی جس میں دنیا بھر کے صاحبانِ علم و دانش شریک ہوئے۔ آرٹس کونسل کی انتظامیہ اور کراچی والوں کے لیے یہ بہت اعزاز کی بات ہے کہ گزشتہ گیارہ برسوں سے یہ عالمی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جس میں ادب‘ ثقافت‘ موسیقی‘ شاعری‘ ڈراما‘ فلم‘ تعلیم‘ لسانیات (مختلف زبانوں)‘ مصوری اور صحافت کے حوالے سے پروگرام ترتیب دیے گئے باالفاظ دیگر فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں کو پرموٹ کیا گیا۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے خصوصی شرکت کی اس موقع پر اردو کی ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی جب کہ وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ وہ آرٹس کونسل میں فہیدہ ریاض کے تعزیتی اجلاس میں ضرور شریک ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو ایک بین الاقوامی زبان ہے اسے کسی خاص طبقے تک محدود کرنا زیادتی ہوگی۔ اردو نے پاکستان بالخصوص کراچی میں اس شہر کی رونقیں بحال کی ہیں جس میں حکومت سندھ کا بھی اہم حصہ ہے۔ اجلاس صدارت میں افتخار عارف‘ رضا علی عابدی‘ اسد محمد خان‘ عارف نقوی‘ پروفیسر سحر انصاری‘ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی‘ مستنصر حسین تارڑ‘ مسعود اشعر‘ امینہ سید‘ نور ظہر‘ طلعت حسین‘ کمشنر کراچی‘ زاہدہ حنا اور اطہر وقار عظیم شامل تھے۔ آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ آرٹس کونسل کے جنرل سیکرٹری پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے کلمات تشکر ادا کیے۔ ہما میر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ بھارت سے تشریف لائے ہوئے پروفیسر شمیم حنیف اور ڈاکٹڑ ناصر عباس زیدی نے کلیدی مقالے پیش کیے۔ محمد احمد شاہ نے کہا کہ اردو بولنے والوں کی اصل شناخت ان کا روپ ہے۔ پہلی عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد کے وقت کراچی میں شدید نوعیت کے ہنگامے ہو رہے تھے لیکن ہم نے ہمت نہ ہاری اور کانفرنس کو کامیابی سے ہم کنار کیا۔ پہلے ہمارے ادارے کو حکومت کی جانب سے پچاس لاکھ روپے سالانہ گرانٹ ملتی تھی جو کہ اب دس کروڑ ہو گئی ہے جس کے لیے ہم سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے ممنون ہیں۔ شمیم حنفی نے کہا کہ ادب کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے اس کے اثرات معاشرے پر پڑتے ہیں ہم سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ ہم جدیدیت کی روح کو سمجھے بغیر جدید ہوگئے ہیں جس کے باعث بہت سے مسائل اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت ہماری اجتماعی بصیر ت کی آزادی متاثر ہو رہی ہے۔ ناصر عباس نیر نے کہا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا اہم مرکز ہے تاہم اس وقت اردو ادب کی یہ صورت حال ہے کہ معاشرہ تنزلی کا شکار ہے پہلے زمانے میں اگر کوئی بات غلط لکھ دی جاتی تھی تو کتاب جلا دی جاتی تھی اب تو کتاب کے رائٹر کوجلانے کی روایت پڑ گئی ہے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم مسیحائوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور ارباب قلم اس معاشرے کو بہتر بنا سکتے ہیں۔اس موقع پر آرٹس کونسل کراچی کی جانب سے نویں اور دسویں عالمی اردو کانفرنس میں پڑھے گئے مقالوں پر مرتب کردہ کتب کی رونمائی بھی کی گئی اور آرٹس کونسل کے مختصر احوال پر مشتمل دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔ اس روز کے دوسرے اجلاس میں ممتاز شاعر جون ایلیا کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی گئی اس حوالے سے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں وہاں جون ایلیا کو جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ جون ایلیا کی شاعری براہِ راست ہمارے ذہن و دل پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ شکیل عادل زادہ نے کہا کہ جون ایلیا نظم و نثر دونوں شعبوں میں ماہر تھے ان کی نثر پر بھی بات کی جانی چاہیے لیکن لوگ ان کی شاعری پڑھ رہے ہیں انہوں نے ہمارے سماجی مزاج کو بیدار کیا ہے ہم ان کے الفاظ سے اپنی اصلاح کر سکتے ہیں۔ اقبال حیدر نے کہا کہ جون ایلیا میر تقی میر کے اسلوب کے نمائندہ شاعر تھے‘ وہ ایک قد آور شخصیت تھے ان کی تحریریں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ شاہد رسام نے کہا کہ جون ایلیا ایک بہت بڑے فلسفی اور عالم تھے‘ ان کا مشاہدہ بہت وسیع تھا وہ معاشرے میں بہتری لانا چاہتے تھے۔ عباسی نقوی نے کہا کہ جون ایلیا بہت بڑے پرفارمر تھے‘ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں‘ وہ ایک قلندر مزاج شخص تھے انہوں نے کائنات کے مختلف گوشوں پر ہماری رہنمائی کی ہے‘ وہ بہت بڑے انسان تھے۔
اجلاس کے نظامت کار انیق احمد نے کہا کہ جون ایلیا سے جن اشخاص نے فیض پایا ہے وہ بھی آج بڑے قلم کار بن گئے ہیں بلاشبہ جون ایلیا جیسے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس موقع پر یوسف بشیر قریشی نے جون ایلیا کو منظوم خراجِ تحسین پیش کیا۔ پہلے دن کے تیسرے اجلاس میں ممتاز مزاح نگار اور نظامت کار انور مقصود نے جون ایلیا کے حوالے سے ایک خاکہ پیش کیا جس پر حاضرینِ اجلاس نے انہیں داد و تحسین سے نوازا۔
کانفرنس کے دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں ’’اردو شاعری نئی پرانی تخلیقی جہات‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی گئی جس کی نظامت راشد نور نے کی جب کہ اس دن کے تیسرے اجلاس میں ممتاز شاعر و افسانہ نگار اسد محمد خان نے کہا کہ پاکستان میں اردو فکشن نے غیر معمولی ترقی کی ہے اب افسانے بھی اچھے لکھے جارہے ہیں اور ناول نے بھی ارتقائی سفر طے کیا ہے۔ اجلاس میں مرزا حامد بیگ نے ’’اردو فکشن کل‘ آج اور آنے والا کل‘‘ کے عنوان پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تخلیق کار ہمیشہ اپنے موڈ کے مطابق لکھتا ہے تاہم وہ معاشرے کے مناظر کو نظر انداز نہیں کرتا‘ وہ برننگ ایشوز پر بات کرتا ہے تاہم نئے لکھنے والوں نے اردو ادب میں بہت سے تجربات کے ہیں اب یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔ حمید شاہد نے کہا کہ موجودہ افسانے میں جدید رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر آصف فرخی نے کہا کہ زندہ کہانی وہ ہے جو کہ بہت سے سوالات کو جنم دے اردو افسانے کے بہت رنگ ڈھنگ ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ اس دور میں ایک نئے وضع کا افسانوی ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر اوجِ کمال نے کی۔
ممتاز شاعر اور دانش ور افتخار عارف نے کانفرنس کے تیسرے دن کے پہلے اجلاس کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ سچے جذبات کے بغیر نعت نہیں ہوتی اور نعت نگاری میں جھوٹ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس پروگرام میں اعجاز رحمانی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے تھے ۔ عزیزالدین خاکی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ فراست رضوی نے نعت کے تخلیقی اور جمالیاتی پہلو پر‘ گہر اعظمی نے اردو شاعری میں سیرت نبویؐ کے موضوعات پر مقالات پیش کیے۔ دوسرے اجلاس میں‘ جس کا موضوع ’’بچوں کا ادب‘‘ تھا‘ سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے رضا علی عابدی نے کہا کہ ان کی نظر میں بچوں کا ادب تخلیق کرنا عین عبادت ہے‘ جو شخص بچوں کی کہانیاں سن کر بیان کر دے وہی بچوں کا ادب ہے۔ بچوں کا ادب لکھنے کو فرشتہ صفت ہونا چاہیے۔ سلیم مغل نے کہا کہ بچوں کے لیے کہانیاں لکھتے وقت ہمارا لہجہ بالکل سادہ اور سہل ممتنع جیسا ہونا چاہیے کیوں کہ کہانیاں پڑھ کر بچوں میں نئی قوت پیدا ہوتی ہے۔ اس پروگرام کے دیگر مقررین میں امینہ سید‘ فرزانہ روحی اور ابن آس شامل تھے جب کہ رضوان زیدی نے نظامت کی۔ پاکستانی زبانیں‘ پاکستانی ثقافت کے موضوع پر اکادمی ادبیات کے سابق چیئرمین ڈاکٹر قاسم بگھیو نے کہا کہ سب زبانیں ادب و ثقافت کے فروغ میں اہمیت کی حامل ہیں۔ اس اجلاس کے دیگر مقررین میں منیر بادینی‘ سید مظہر جمیل‘ ڈاکٹر انوار احمد‘ امداد حسینی‘ احمد فواد‘ گل حسن کلمتی اور عظمیٰ سلیم شامل تھے جب کہ ڈاکٹر ایوب شیخ نے نظامت کی۔ پاکستان میں ٹی وی اور تھیٹر کی صورت حال کے موضوع پر گفتگو کرنے والوں میں بھارت سے آئی ہوئیں ممتاز اداکارہ نادرہ ظہیر ببر‘ طلعت حسین‘ حسینہ معین‘ نورالہدیٰ سید‘ ایوب خاور‘ اقبال لطیف‘ زین احمد‘ ساجد حسین اور اختر وقار عظیم شامل تھے جب کہ نظامت کے فرائض احمد شاہ نے ادا کیے۔ طلعت حسین نے کہا کہ تھیٹر ہماری روایت کا حصہ نہیںرہا اب شاعری ہماری تہذیب و تمدن کے نمائندوں میں شامل ہے۔ حسینہ معین نے کہا کہ ہمیں تھیٹر کے ذریعے اچھائیوں کو اجاگر کرنا چاہیے‘ منفی روّیوں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ ساجد حسن نے کہا کہ آزادیٔ اظہار سے تھیٹر ترقی کرتا ہے۔ خالد احمد نے کہا کہ ہمارے یہاں تھیٹر روبہ سوال ہے شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ادیب و شاعر کا اسٹیج والوں سے تعلق ٹوٹ رہا ہے۔ نورالہدیٰ سید نے کہا کہ اب ڈراما زیادہ پسند کیا جارہا ہے اس تبدیلی کی وجہ ہمارے معاشرتی رویے ہیں۔ اداکار زین احمد نے کہا کہ تھیٹر کے حوالے سے صورت حال حوصلہ افزا نہیں ہے اب تو لوگ ٹکٹ خرید کر تھیٹر دیکھنے کے بجائے پاس طلب کرتے ہیں۔ اختر وقار عظیم نے کہا کہ اب ڈراما اچھا لکھا جارہا ہے‘ اقبال لطیف نے کہا کہ اب ڈرامے نے فلم کی شکل اختیار کرلی ہے آج کل ٹی وی ڈرامے فلم کی طرز پر بنائے جارہے ہیں۔ ایوب خاور نے کہا کہ ڈرامے بنانے والے سیٹھ لوگ ریٹنگ کے چکر میں رائٹر سے اپنی مرضی کے ڈرامے لکھوا رہے ہیں۔آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے کہا کہ آرٹس کونسل کراچی میں ڈراموں کے لیے دو ہال موجود ہیں مگر دو کروڑ کی آبادی والے شہر کراچی میں کوئی اور تھیٹر نہیں ہے ہم نے دیگر شہروں کے فن کاروں اور ادیبوں سے کہا ہے کہ وہ ہم سے رجوع کریں ہم اس سلسلے میں ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔ اس چار روزہ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس میں متعدد کتابوں کی تقاریب اجرا‘ مشاعرہ اور کئی دیگر پروگرام بھی منعقد ہوئے اس طرح کی ادبی تقریبات کا انعقاد قابل ستائش ہے اس کا تمام تر کریڈٹ محمد احمد شاہ اور ان کے رفقائے کار کو جاتا ہے کہ جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کانفرنس کو کامیاب بنایا‘ ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بے شمار علم دوست شخصیات نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔

جمعیت الفلاح کے زیراہتمام سیرت طیبہ پر لیکچر اور نعتیہ مشاعرہ

۔23 نومبر 2018ء کو جمعیت الفلاح کراچی کے زیر اہتمام سیرت نبویؐ پر لیکچر اور نعتیہ مشاعرہ ترتیب دیا گیا اس پروگرام کے پہلے دور میں شہاب الدین شیخ نے سیرتِ نبویؐ کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا اسلام کے بنیادی ارکان میں شامل ہے کہ ہمارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حبِ رسولؐ اپنے دل میں نہ بسائیں‘ جو اللہ کے ذکر سے ہٹ جاتا ہے وہ شیطان کے راستے پر چل نکلتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہمارا مقصدِ زیست ہے‘ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اپنائٔے بغیر رضا الٰہی نہیں پاسکتے۔ ہمارے نبیؐ دونوں جہان کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے‘ وہ قیامت میں ہماری شفاعت فرمائیں گے۔ ہمارے تمام مسائل کا حل اتباع رسول میں مضمر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 برس تک دین کی دعوت دی اور مدینے میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ ہماری ترقی کے راستے کھول دے گا۔ ناموس رسالتؐ کی حفاظت ہماری ذمے داری ہے ہم شرعی معاملات میں ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہو جائیں تاکہ دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت بہتر ہو سکے۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں پروفیسر عنایت علی خان کی زیر صدارت مشاعرہ منعقد ہوا‘ نظر فاطمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ صاحبِ صدر بوجوہ نصف مشاعرے کے بعد پنڈال سے چلے گئے تاہم انہوں نے اپنی نعت سنانے سے قبل کہا کہ نعت میں شریعت کے مخالف اشعار نہیں کہنے چاہئیں۔ عقیدتِ رسولؐ نعت کا اہم حصہ ہے تاہم سیرت نبویؐ پر بھی اشعار کہے جائیں تاکہ تبلیغ اسلام کا فروغ ہو۔ مشاعرے میں سرور جاوید‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ نظر فاطمی‘ نجیب ایوبی‘ عبدالمجید محور‘ عتیق الرحمن‘ سہیل اختر ہاشمی‘ یونس فوق‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ عدنان عکس‘ الحاج نجمی‘ محمد علی سوز‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ اخلاق احمد درپن‘ ریاض ندیم نیازی اور اکرم راضی نے نعتیہ اشعار پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ جہانگیر خان نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ادارے کے تحت اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں مصروف عمل ہیں لیکن ہم اسلامی تعلیمات کے پرچار میں بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اس تناظر میں ہم سیرت نبویؐ پر لیکچرز اور نعتیہ مشاعرے منعقد کرا رہے ہیں آپ لوگوں کے تعاون سے ہم کامیابی کی طرف گامزن ہیں۔ قمر محمد خان نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام شرکائے محفل کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ہماری محفل کو کامیاب بنایا۔

حصہ