تیرے علاقے میں تو پانی آتا ہے

702

زاہد عباس
’’جس دن سے یہ نیا ایکسین آیا ہے اس نے سارے علاقے کو کوفے میں تبدیل کردیا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’وہی پانی کا رونا۔‘‘
’’لیکن تیرے علاقے میں تو اچھا خاصا پانی آرہا ہے، میں نے خود لوگوں کو گھروں سے باہر چھڑکاؤ کرتے دیکھا ہے۔ جس گلی میں جاؤ، موٹریں چل رہی ہوتی ہیں۔ اگر کوفہ بنایا ہے تو پھر یہ پانی کہاں سے آرہا ہے؟‘‘
’’او بھائی! تجھے یہ موٹریں چلتی نظر آرہی ہیں، کسی کے گھر سے ایک گلاس پانی پی کر دیکھ، پتا چل جائے گا کہ اس نے کون سی سائنس اپنائی ہے۔ یہ بہت چالاک آدمی ہے، کسی سیاست دان سے کم نہیں۔‘‘
’’کیا فضول باتیں کیے جارہا ہے کہ چالاک ہے، کسی سیاست دان سے کم نہیں… بھائی! اگر پانی نہیں آتا ہے تو لوگ خوامخواہ اپنے گھروں میں موٹریں کیوں چلاتے رہتے ہیں؟ کیا انہیں میوزک سننے کا شوق ہے یا بجلی فری ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے ان کا یہ مشغلہ بن گیا ہے؟‘‘
’’بزرگوں نے صحیح کہا ہے ’’خاصاں دیاں گلاں عاماں چے نئی کیتیاں جاندیاں‘‘، یعنی ہر بات ہر ایک کے سامنے نہیں کرنی چاہیے۔ اب میں تجھے اس کی کیا کیا ہوشیاریاں بتاؤں، ایک نمبر کا ڈھیٹ انسان ہے۔ جو چاہے کہتے رہو، کسی کی بھی بات سننے کو تیار نہیں۔ باتیں بگھارنے کے سوا اسے آتا ہی کیا ہے! بھرپور پروٹوکول ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے ہمارے علاقے میں آیا ہوا تھا، بڑے لمبے چوڑے بھاشن دے کر گیا ہے۔‘‘
’’نہ جانے کیا بولے جارہا ہے، میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ پانی کی سپلائی پر بات کرتے کرتے ایکسین کے پروٹوکول کی سنانے لگا ہے۔ بھائی، اگر ایسا ہے تو میں کیا کروں؟ تُو پانی کی بندش سے متعلق گفتگو کرتے کرتے کسی کی ذاتی زندگی کو کیوں کرید رہا ہے؟‘‘
’’میں کب کسی کی ذاتی زندگی سے متعلق بات کررہا ہوں! یہ تو تُو نے میرا ذہن اس طرف لگا دیا، ورنہ مجھے اس قسم کی فضول باتیں کرنے کی کیا پڑی ہے! تُو ہی تو کہہ رہا تھا کہ ہمارے علاقے میں خاصا پانی آتا ہے اسی لیے میرا دماغ خراب ہوگیا اور میں واٹر بورڈ کے ایکسین کی کارکردگی پر دل کی بھڑاس نکالنے لگا۔‘‘
’’اچھا اب اصل بات کی طرف بھی آئے گا، یا یوں ہی کسوٹی کھیلتا رہے گا! چل جلدی بتا اصل معاملہ کیا ہے؟‘‘
’’ہاں یہ ہوئی ناں بات۔ اب تُو نے سوال کیا ہے تو جواب بھی سن لے۔ ہمارے علاقے سیکٹر 36-B لانڈھی کے لوگ بڑی تیزی کے ساتھ متاثرینِ آب میں شامل ہوتے جا رہے ہیں، یا یوں سمجھ کہ واٹر بورڈ کی جانب سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمارے علاقے میں پانی کی سپلائی انتہائی کم کی جارہی ہے۔ ماضی میں یہاں 12گھنٹے کے لیے پانی کی سپلائی دی جاتی تھی جسے گھٹا کر چھ گھنٹے کیا گیا، پھر چار گھنٹے، اور اب اس سے بھی کم کردی گئی ہے، اس پر مزید عذاب یہ کہ ’والو مین‘ جب چاہتا ہے چار دن کے لیے اس سیکٹر کو آنے والی لائن کا ’والو‘ بند کردیتا ہے، جبکہ کورنگی انڈسٹریل ایریا میں قائم فیکٹریوں کو ماہانہ رشوت لے کر اضافی پانی کی سپلائی دی جاتی ہے۔ میں ایسے کئی والومینوں کو جانتا ہوں کہ جنہوں نے اسی طرح پانی فروخت کرکے ٹیکسیاں اور رکشے خرید کر کرائے پر دے رکھے ہیں، یعنی یہ لوگ باقاعدہ طور پر ٹرانسپورٹر بھی ہیں۔ واٹر بورڈ کا تقریباً سارا ہی عملہ کرپشن میں ملوث ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس محکمے کی جانب سے کی جانے والی کرپشن پر کوئی بولنے والا نہیں، عوام کس سے فریاد کریں؟ علاقہ مکینوں کو مین لائن سے کنکشن لگانے کے نام پر لوٹا جاتا ہے، اسی کلیے پر عمل کرتے ہوئے غریبوں سے فی کنکشن بیس سے پچیس ہزار روپے طلب کیے جاتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو پرانی باتیں ہیں، اس میں ایسا نیا کیا ہے جسے سن کر پریشان ہوا جائے! کراچی میں پانی کی فروخت عام سی بات ہے، اور اس سلسلے میں والومینوں کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہم گزشتہ دس برسوں سے پانی خرید کر پی رہے ہیں۔ گھریلو استعمال کے لیے بورنگ کا نمکین پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ اور جہاں تک واٹربورڈ کے عملے کی بات ہے، تو یہاں کون سا ایسا محکمہ ہے جو قابلِ تعریف ہو! میں تو سمجھا تھا نہ جانے ایسے کون سے اہم راز ہیں جن سے تُو پردہ اٹھائے گا۔‘‘
’’ایک تو تیری عادت بہت خراب ہے، بڑا پروفیسر بنا پھرتا ہے۔ اپنی قابلیت دکھانے کے لیے دوسرے کی پوری بات سنے بغیر ہی فلاسفی جھاڑنے لگتا ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں سے واٹر بورڈ کی جانب سے جو کارروائیاں کی جارہی ہیں وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے علاقے میں موٹریں چلنے اور گھروں سے باہر پانی کا چھڑکاؤ کرنے کی بات ہے تو وہ ایسے ہی نہیں ہورہا، بلکہ مجبوری ہے۔ جب گھروں میں انتہائی گندا اور بدبودار پانی آئے گا تو اسے اسی طرح ضائع کیا جائے گا۔ یہی تو اس ایکسین کی وہ ہوشیاری ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا۔ پانی کی بندش کے خلاف کیے جانے والے احتجاج کے نتیجے میں علاقے کو گندے اور بدبودار پانی کی سپلائی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ محکمہ جان بوجھ کر پینے کے صاف پانی کے بجائے انڈسٹریل ایریا میں قائم کیمیکل بنانے والی فیکٹریوں سے خارج ہونے والا کیمیکل زدہ انتہائی مضر صحت پانی سپلائی کررہا ہے، جو نہ صرف انسانی جانوں کے لیے خطرناک ہے بلکہ کسی جانور کے بھی پینے کے لائق نہیں۔ کبھی پانی کی بندش کے خلاف، تو کبھی گندے پانی کی فراہمی پر احتجاج… بس یہی کچھ کرنا پڑرہا ہے۔ ان ساری شکایتوں کا بس ایک ہی جواب ہے کہ ’’لائن میں شامل ہونے والے کیمیکل زدہ پانی کے مسئلے کو بڑی سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں، جہاں سے یہ گندا پانی شامل ہورہا ہے اُس پوائٹ کو تلاش کررہے ہیں‘‘۔ تقریباً بیس دن سے اسی قسم کے لارے لپے دے کر بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ اس تیزاب کو پینے سے کہیں کوئی بڑا حادثہ نہ ہوجائے۔ اگر خدانخواستہ ایسا کوئی واقعہ رونما ہوگیا تو اس کی تمام تر ذمے داری ایکسین واٹربورڈ لانڈھی کے سر ہوگی۔‘‘
کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے۔ بدقسمتی سے یہاں کے باسی پانی جیسی بنیادی نعمت سے محروم ہیں۔ حکومت کی جانب سے بجائے محرومیوں کے ازالے کے، پانی جیسی بنیادی سہولت پر اُن سے سیاست کی جاتی ہے۔ سمندر کے کنارے آباد اس شہر کے عوام کا بوند بوند پانی کو ترسنا لمحۂ فکریہ ہے۔ یہاں نلکوں میں پانی کے بجائے ہوا آتی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت شہریوں کو پانی جیسی نعمت فراہم کرنا ہی نہیں چاہتی، یہی وجہ ہے کہ شہر کے اکثر علاقوں میں کئی کئی ماہ سے پانی کی سپلائی بند ہے۔
اگر کسی علاقے میں پانی آتا بھی ہے تو وہ انتہائی گندا اور بدبودار ہونے کی وجہ سے ناقابلِ استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واٹر بورڈ کے ذمے دار ملازمین کی غفلت، لاپروائی اور بے حسی کے باعث لوگ نہ صرف انتہائی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں بلکہ یہ پانی پینے کے باعث بیماریوں میں مبتلا ہوکر سرکاری اور نجی اسپتالوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ محکمے کے نااہل اور راشی افسران کی وجہ سے واٹر بورڈ کا پورا نظام تباہ ہوچکا ہے، زیر زمین پائپ لائنیں بوسیدہ ہوچکی ہیں، محکمے کی جانب سے نئی پائپ لائنیں بچھانے کا کوئی کام نہیں ہوا۔ اکثر علاقوں میں سیوریج اور پینے کے پانی کی لائنیں ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے مین لائنوں کی حالت بوسیدہ ہوچکی ہے، جس کی وجہ سے گندا پانی، پینے کے پانی کی لائنوں میں جا ملتا ہے۔ چونکہ ان لائنوں کی مرمت اور دیکھ بھال کا کام باقاعدگی سے نہیں ہوتا اس لیے یہاں گندے اور بدبودار پانی کی سپلائی کی شکایات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کراچی کے شہریوں کو سرکاری طور پر روزانہ 650 ملین گیلن پانی مہیا کیا جاتا ہے۔ کے ڈی اے حکام کا دعویٰ ہے کہ450 ملین گیلن پانی کی فلٹریشن ہوتی ہے، لیکن بقیہ200 ملین گیلن آلودہ پانی صاف کرنے کا کوئی بندوبست نہیں، اور یہی گندا پانی فلٹر شدہ 450 ملین گیلن پانی کو دوبارہ آلودہ کرتا رہتا ہے۔ یہاں سرکاری اور نجی طور پر بمشکل 20 سے 30 فیصد فلٹر پلانٹس لگائے جاتے ہیں، جبکہ پہلے سے نصب کیے گئے پلانٹس کی دیکھ بھال نہ ہونے سے شہریوں کو صاف پانی نہیں ملتا۔ یہی حال دیگر شہروں کا بھی ہے۔ بعض شہروں میں سیوریج سے آلودہ پانی کے علاوہ زیر زمین سیم زدہ اور کھارا پانی ملتا ہے۔ اسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے تقریباً اٹھارہ بیس سال سے منرل واٹر کے نام پر مہنگے داموں پانی مہیا کرنے کا سلسلہ جاری ہے، لیکن یہاں بھی صورتِ انتہائی افسوسناک ہے۔ حال ہی میں اِن کمپنیوں کے پانی کی ٹیسٹنگ رپورٹ منظرعام پر آئی ہے، جس میں 47کمپنیوں کے سیمپلز میں سے 27 سیمپلز کو مضر صحت قرار دیا گیا۔ گندا پانی پینے کے باعث بیشتر شہری ہیپاٹائٹس کے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں، چونکہ اس مرض کا علاج انتہائی مہنگا ہوتا ہے، اس لیے بہت سے لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ سندھ حکومت سمیت تمام صوبوں کی حکومتیں ہیپاٹائٹس کے علاج کی کچھ سہولتیں مہیا کررہی ہے، لیکن انہیں مہنگے ٹیسٹ اور قیمتی ادویہ کی فراہمی پر بھی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عدم توجہی سے پرانے مریضوں کو بہت کم فائدہ ہوتا ہے، جبکہ نئے مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عالمی تنظیموں کے تعاون سے جامع پیکیج تیار کرکے یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں، اور خاص طور پر حکومت کراچی واٹر بورڈ میں موجود پانی مافیا کے خلاف اقدامات کرے، تاکہ شہریوں کو پانی جیسی بنیادی سہولت دی جا سکے۔

حصہ