برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

389

قسط نمبر164
بائیسواں حصہ
مارچ کے فوجی ایکشن کے بعد آہستہ آہستہ حالا ت کنٹرول میں آنے لگے اور مغربی پاکستان سے پانچ ہزار پولیس کے سپاہی اور دو درجن سی ایس پی افسران بطور کمک مشرقی پاکستان بھیجے گئے۔ اس سے پہلے ہی ہندوستان نے اپنے ایجنٹوں کو بڑی تعداد میں مشرقی پاکستان میں داخل کرنا شروع کردیا تھا۔ یہ ہندوستانی ایجنٹ شکل اور لباس بول چا ل میں مقامی بنگالی ہی لگتے تھے لہذا یہ شناخت بہت مشکل تھی کہ کون باغی ہے اور کون محب وطن؟۔
مغربی پاکستان سے اضافی نفری کے آجانے کی وجہ سے مئی کے وسط تک تقریبا سارے مشرقی پاکستان میں حکومت نے اپنا کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔ ہر قابل ذکر جگہ پر پاکستانی فوج پہنچ چکی تھی۔ بالآخر چٹا گانگ کا آخری قصبہ کاکس بازار بھی پاک فوج کے کنٹرول میں آگیا۔ مگر ہمارا یہ کنٹرول طاقت کے اندھے استعمال کی بدولت قائم تھا، اس کا دلوں کی حاکمیت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
عمل صفائی یعنی Sweep Operation کے نام پر مشکوک گھروں اور آبادیوں پر چھاپے مار مار کر زخموں پر نمک چھڑکنے کا تاثر قائم ہوتا جارہا تھا۔Sweep Operation مکمل طور پر اس لیے بھی کامیاب نہیں ہوا کہ جن کو ”صفائی کا کام ”کرنا تھا وہ بنگالی زبان سے ناواقف تھے اور ان کو اس کام کے لیے بنگالیوں پر ہی انحصار کرنا پڑتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مکتی باہنی کے ایجنٹوں نے محب وطن پاکستانی کا روپ دھار کر کئی مرتبہ محب وطن آبادیوں پر حملہ کروایا اور ہماری فوج کو مس گائیڈ کرکے دشمن کے لیے تر نوالہ بنایا۔
پاک فوج کی امن قائم کرنے کی ان کاروایئوں کے دوران کچھ ایسے واقعات بھی ہوئے جو آج تک فوج کی بد نامی کا سبب بن رہے ہیں۔ ہمارے کچھ فوجی لوٹ مار اور آبروریزی کے واقعات میں بھی ملوث ہوئے، ان چند اشخاص کی حرکتوں سے پوری فو ج کی رسوائی ہوئی، ایسے کل ملا کر 9واقعات کی رپورٹ ملی جس پر سخت ترین کاروائی بھی کی گئی۔ (مگر یہ بیان بھی فوج کا ہی ہے، جس پر کم ہی یقین آتا ہے)۔
پاکستانی فوج کے منحرف بنگالی بٹالین کے سارجنٹ میجر شریف الحق دا لیم پہلے ہی فرار ہوکر ہندوستان پہنچ چکے تھے، انہوں نے اپنی کتاب میں مارچ کے بعد پیش آنے والے واقعات اور (ان کے مطابق آزادی کی جدوجہد) عوامل پر علیحدگی پسندوں کے موقف کی ترجمانی کی ہے۔ان کے مطابق مشرقی پاکستان میں جب پوری قوم آزادی(علیحدگی) کی جدوجہد کر رہی تھی، 17 اپریل کو ہندوستان حکومت کے ساتھ مشورے کے بعد اچانک ایک عبوری حکومت تشکیل دے دی گئی۔ ان کے کہنے کے مطابق عوام کو اس بارے میں غیر ملکی ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے علم ہوا۔ میجر شریف الحق دا لیم کے مطابق منحرف پاکستانی بنگالی کرنل عثمانی کے ذہن میں تحریک آزادی اور ملک میں جاری جنگ کے لیے ایک واضح پروگرام موجود تھا۔ کرنل عثمانی کو اندازہ ہوگیا تھا کہ دشمن (پاکستان) کے ساتھ روایتی انداز سے زیادہ دیر مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ مکتی باہنی کی دفاعی قوت دشمن (پاکستانی افواج) کے بار بار حملوں کے نتیجے میں کمزوہوتی جارہی تھی۔ ان حالت میں ایک مضبوط اور طاقتور فوج کو دو بدو کی جنگ میں شکست دے کر آزادی (علیحدگی) حاصل کرنا نا قا بل عمل تھا۔
چنانچہ پانچ باقاعدہ بٹالینز پر مشتمل ایک گوریلا فورس قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان کے خیال میں صرف ایک تربیت یافتہ گوریلا فوج (گونو باہنی) ہی گوریلا وار کی بدولت دشمن کی عددی قوت کو بے اثر بنا سکتی تھی۔ یہ ” گونو باہنی” انتڑیوں میں موجود کینسر کا کام کرے گی، اور دشمن (پاکستان) کو اندر ہی اندر ختم کردے گی۔ان کا خیال تھا کہ اس حکمت عملی کو اپنائے بغیر آزادی حاصل کرنا ناممکن ہوگا۔
کرنل عثمانی کی اس اسکیم کو کامیاب کرنے کے لیے جو منصوبہ تیار کیا گیا وہ اسطرح تھا کہ گوریلا فوج دشمن (پاکستانی افواج) کو کمزور کرنے کے لیے چاروں طرف سے حملے کریں گی۔ اور ساتھ ہی ساتھ باقاعدہ فوج کے ساتھ ملکر بھی کاروائیاں کی جائیں گی۔ تاکہ دشمن (پاکستان فوج) کے ٹھکانے ایک دوسرے سے کٹ جائیں اس منصوبے میں مواصلات اور رسد کو منقطع کرنے، ریڈیو اور فون کی تنصیبات کو تباہ کرنے میں گوریلا فوج کی معاون ثابت ہوگی۔ اس منصوبے کے مطابق باقاعدہ حملہ آور برگیڈز روایتی فوج کی طرز پر قائم کی جائیں گی اور دشمن کے تنہا کئے گئے ٹھکانوں کو تباہ کردیں گی۔
منصوبے کے مطابق گوریلا فوج کو گونو باہنی، اور باقاعدہ فوج کو نیو میتو باہنی میں تقسیم کیا گیا۔ان کی تعداد بالترتیب 50 سے 60 ہزار اور 20 سے 25 ہزار تھی۔ ان کو ہندوستانی حکام ایف ایف (فریڈم فائیٹرز) کہتے تھے۔ گونو اور نیو باہنی کی مدد کے لیے سا بق کمانڈروں پر مشتمل گوریلا مشیروں کو بھی شامل کی گئی پاکستان اضافی فوج مدد لے لیے روانہ کی گئی ان کو مشرقی پاکستان کے حالا ت، زبان، جغرافیے اور مزاج کے بارے میں کوئی خاص بریفنگ نہیں تھی۔ اور ہماری فوج کی یہ لا علمی باغیوں کے لیے بہت مفید ثابت ہورہی تھی۔ ان کے پھیلائے ہوئے جال میں ہم پھنستے جارہے تھے۔
پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ کیپٹن صدیق جن کا تعلق میڈیکل کور سے تھا وہ جیسور کے علاقے میں باغیوں کی سرکوبی کے آپریشن میں شریک تھے۔
ایک ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ ” وہ آ پریشن کے لیے جانے والی پلاٹون کا براہ راست توحصہ نہیں تھے مگر بیک اپ کور کے طور پر ایک ایمبولنس میں سوار تھے، اس ایمبولنس پر ریڈ کراس کا نشان موجود تھا انہوں نے فوجی وردی نہیں پہنی تھی۔ جیسے ہی پاکستانی پلاٹون اپنے ہدف کی جانب بڑھی اس پر چاروں طرف سے حملہ شروع ہوگیا۔
جو گائیڈ فوج کے ساتھ تھا غالبا وہ مکتی باہنی کا مخبر بھی تھا اسی کی مخبری پر ایک نہر کے کنارے پاک فوج کو گھیر لیاگیا، عالم یہ تھا کہ رات کے اندھیرے میں کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ گولیاں کس جانب سے آرہی ہیں؟۔ حملہ بہت شدید تھا، ہماری پلاٹون مکمل طور پر باغیوں کے رحم و کرم پر تھی۔ حملہ ہوتے ہی ایمبولینس کے ڈرائیور نے ایمبولنس کو نہر کی جانب جھاڑیوں کی طرف موڑ دیا، مگر دو تین لڑکوں نے ایمبولنس پر بھی فائرنگ شروع کردی، ہمارا ڈرائیور اسی وقت شہید ہوگیا، میری کمر پر ایک گولی لگی،جسم سے خون تیزی کے ساتھ بہہ رہا تھا، مگر میں ہوش میں تھا۔ وہ لڑکے بوکھلاہٹ میں اندھا دھند فائر کر رہے تھے، میں نے اپنے آپ کو جھاڑیوں میں چھپانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا، پاکستانی فوج کے جوابی حملے سے شاید وہ لڑکے بھاگنے پر مجبور ہوئے ہوں گے، لیکن جاتے جاتے انہوں نے میرے سر پر سنگین مار دی، خون بہہ جانے کی وجہ سے میں بے ہوش ہونے کے قریب تھا کہ ایک عورت کو اپنے قریب دیکھ کر میں نے زمین پر پاکستان لکھا اور پھر بیہوش ہوگیا۔ہوش آنے پر میں ایک جھونپڑی میں تھا۔ وہ عورت بول چا ل سے بہاری لگ رہی تھی اس کا شوہر بنگالی تھا اور بنگلہ میں ہی بات کر رہا تھا، آدمی کا کہنا تھاکہ اسے نہر میں پھینک کر اپنی جان چھڑاؤ، جبکہ عورت میری مدد کرنا چاہتی تھی، مجھے کچھ دیر اپنی جھونپڑی میں مرہم پٹی کے بعد انہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کسی نہ کسی طرح مجھے ریڈ کراس ایمبولنس تک پہنچایا، ہماری فوج کے کچھ جوان شہید ہوئے مگر باغیوں میں سے بہت سے مارے گئے۔ مجھے فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ایک ماہ تک میں زیر علاج رہا۔ انہوں نے مجھے پنے جسم پر موجود تین گولیوں اور سر پر ایک بہت بڑے زخم کو (جو اب اگرچہ مندمل ہوچکا تھا مگر ابھی بھی اس کا نشان موجود تھا) دکھایا۔” کیپٹن صدیق آجکل اپنے خاندان کے ساتھ کراچی گلستان جوہر میں مقیم ہیں، آپ ہندوستان کی قید میں بھی رہے۔
کیپٹن ریٹائرڈ صدیق نے اپنے ایک اور ساتھی کیپٹن عمر (فیصل آباد کے رہائشی تھے) کے بارے میں بتایا کہ وہ مکتی باہنی کے ہاتھ لگے،مگر بچ گئے۔مکتی باہنی کے لڑکوں نے ان دونوں کانوں میں کوئی ایسا سیال (شا ید پارہ) ڈا لا جس سے ان کی سماعت ختم ہوگئی۔
اپریل کی 10 تاریخ کو پاکستان ہائی کمانڈ نے مشرقی پاکستان میں کمانڈ کی تبدیلی کا فیصلہ کیا، ہوسکتا ہے کہ ہماری ہائی کمانڈ تازہ دم کمانڈر کے ذریعے دشمن (باغیوں) کو اپنی قوت کا احساس دلانا چاہتی تھی۔ مغربی پاکستان نے دوسری جنگ عظیم میں ملٹری کراس اور 1965 کی جنگ میں ہلال جرات حاصل کرنے والے لیفٹننٹ جنرل امیر عبدللہ خاں نیازی (جو فوج میں ٹائیگر کے نام سے مشہور تھے) کو اس وقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر ٹکا خان کی جگہ تعینات کیا۔جنرل نیازی اپنی چرب زبانی، بھڑکوں اور بیہودہ لطائف کی بنیاد پر بھی فوج میں خاصے مشہور تھے۔ جنرل نیازی سینے پر تمغے سجائے عجیب سی شان کے ساتھ فلیگ ہاؤس پہنچے اور گیارہ اپریل کی صبح اپنے عہدے کا چارج لیا۔ چارج لینے کے بعد انہوں نے اپنے اسٹاف سے خطا ب کیا۔ جناب شہید صدیق سالک نے جنرل خادم حسین راجہ کے حوالے سے بتایا کہ ” جنرل خادم حسین راجہ نے انہیں بتایا کہ، جب وہ فوج کی کمان نیازی کے سپرد کرچکے تو جنرل نیازی نے ان سے پوچھا ” اپنی داشتا ؤ ں کا چارج کب دو گے ”؟
حوالہ جات:حوالہ جات: Witness to surrender میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا۔ صدیق سالک شہید
”Bangladesh Untold Facts ” لیفٹنٹ کرنل (ریٹائرڈ) شریف الحق دالیم
(جاری ہے)

حصہ