حسنِ قدیم کی ایک پوشیدہ جھلک

311

عائشہ صدف… ہیوسٹن
تقریباً آٹھ بجے ہوٹل پہنچے۔ یہ پندرہ بیس منٹ کی Brisk Walk تھی۔ نہادھوکر تیار ہوئے۔ ناشتے کا انتظام ہوٹل کی طرف سے تھا۔ کھانوں کی بے انتہا ورائٹی تھی۔ شُکر ہے وہاں انگلش چائے دستیاب تھی، ورنہ امریکہ میں اٹھارہ سال رہنے کے باوجود اب تک کڑوی کسیلی کافی سے کوئی شغف پیدا نہیں ہوا تھا۔ میں اپنی پلیٹ بناکر اور چائے لے کر دو چھوٹے بچوں کو لے کر ایک ٹیبل پر بیٹھ گئی۔ برادر حسن اپنا حق میزبانی ادا کرتے ہوئے باقی سب کو ڈشز سے متعارف کرارہے تھے اور ساتھ ساتھ ان کو کھانے پر اکسا بھی رہے تھے۔ میاں صاحب نے تو ان کا مکمل ساتھ دیا مگر بچوں نے جانی پہچانی چیزیں کھانے پر اکتفا کیا۔ واتوبہ متشابھا (جانی پہچانی چیزیں دی جائیں گی) کی حکمت بڑی اچھی سمجھ میں آئی کہ انسان جانی پہچانی چیزوں کی طرف بہ خوشی راغب ہوجاتا ہے جبکہ ان جانی چیزوں سے گھبراتا ہے۔ بہرحال جب تک ناشتے سے فارغ ہوئے، دس بج چکے تھے۔ گائیڈ بھی آچکے تھے لہٰذا فیصلہ ہوا کہ آج پورا دن قدیم یروشلم کی سیر کریں گے اور شہر میں گھومنے پھرنے کے لیے پیدل ہی سفر کیا جائے گا۔ جدید یروشلم میں تو سڑکیں ہیں اور گاڑیوں کی آمدورفت بھی ہے مگر فصیل کے اندر۔ علاقہ نہایت گنجلک ہے۔ جہاں تنگ راستوں پر گاڑی چلانا دشوار ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔
ہوٹل سے باہر نکلے تو نرم گرم چمک دار دھوپ نے استقبال کیا۔ موسم اگرچہ سرد تھا، مگر سورج کی موجودگی کافی حوصلہ افزا تھی۔ اچھے کشادہ فٹ پاتھ تھے۔صبح فجر کے وقت تو سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اب ہر طرف زندگی کی رونقیں نمایاں تھیں۔ کثیر تعداد میں مقامی اور غیرمقامی لوگ اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں تھے۔ تھوڑا ہی چلے تھے کہ دائیں ہاتھ پر ’بوستانِ مسیح‘ کا بورڈ لگا تھا جس نے توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ اب تک داستان اور بوستان کے الفاظ شیخ سعدیؒ کے حوالے سے ہی سنے تھے۔ گائیڈ اپنی دھن میں چلاجارہا تھا۔ اس کی توجہ اس کی طرف مبذول کرائی اور اس نے ہلکا پھلکا سا تعارف کروایا کہ یہ ایک چرچ ہے جس کا تعلق عیسائیوں کے ایک فرقے پروٹسٹنٹ سے ہے۔ ہماری دل چسپی دیکھ کر اس نے اندر جاکر انتظامیہ سے ہمارے اندر گھومنے پھرنے کی اجازت مانگی جو مہیا کردی گئی۔ اندر Demonstrationکا انتظام تھا۔ ہمیں ایک نحیف و نزار پادری کے حوالے کردیا گیا۔ وہ ہمیں دونوں طرف موجود پھولوں کی خوب صورت روش سے گزارتا ہوا ایک بارہ دری کی مانند پرفضا مقام پر لے گیا، جہاں باقاعدہ بینچز کا انتظام تھا اور وہاں سے اس پورے علاقے کا بہ خوبی نظارہ بھی کیا جاسکتا تھا۔ وہاں پر بٹھا کر اس نے اپنا پورا زورِبیاں اس پر صرف کیا کہ پہاڑی کی ہیئت، غار کی موجودگی، کھنڈرات اور قدیم یروشلم کی فصیل سے باہر آکر علاقے کی موجودگی بائبل کے بیانات کی روشنی میں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہی وہ مقدس مقام ہے جہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا اور یہیں سے ان کا جسم ان کے حواریوں نے چھپا دیا تھا جو غائب ہوگیا تھا۔ آگے دو اور چرچز میں جانے سے اندازہ ہوا کہ اگر وہ اپنی تاریخی حیثیت ثابت نہ کرپائیں تو لوگ ان کو چھوڑ کر دوسرے چرچز میں چلے جائیں گے لہٰذا وہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں تاکہ لوگ ان سے وابستہ ہوجائیں۔ پادری نے ہاتھ کے اشارے سے ایک پہاڑی کو Skull Hillکے نام سے متعارف کرایا، جو ہمیں باربار مشاہدے کے باوجود کھوپڑی سے مشابہ نظر نہیں آرہی تھی۔ ہماری پریشانی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے ہمیں اطمینان دلایا کہ حالاتِ زمانہ کی وجہ سے اس کی ساخت اب کافی تبدیل ہوچکی ہے۔ لہٰذا نگاہوں کو مزید تھکانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن بہرحال یہی وہ پہاڑی ہے جہاں (ان کے عقیدے کے مطابق) سیدنا عیسیٰؑ کو نعوذباللہ مصلوب کیا گیا تھا۔ اس Demonstration کے بعد ہم نے مقبرہ نما مقدس غار کی زیارت کی۔ اس میں داخلے کے لیے دوسیڑھیاں اوپر چڑھ کر چھوٹا سا دروازہ تھا۔ اس میں سے ایک وقت میں ایک شخص سرجھکا کر اندر داخل ہوسکتا تھا۔ اندر داخل ہوکر دائیں طرف دو چھوٹے کمرے ہیں جن کے متعلق گمان ہے کہ مصلوب ہونے کے بعد ان کو یہاں رکھا گیا تھا۔ جس کمرے میں دروازہ کھلتا تھا اس کو ’غم و اندوہ کا کمرہ‘ (Weaping Room) کا نام دیا گیا تھا۔ لوگ دروازے سے نکلتے ہوئے بازو پھیلا کر اڑنے کے انداز میں تصویریں کھنچوارہے تھے۔
داخلی دروازے کے سامنے ایک دوفٹ چوڑا Groove تھا۔ اس کی تو شاید کوئی تاریخی حیثیت ہو مگر اب وہاں پہیے کی مانند ایک بڑا پتھر لاکر Effects کے لیے رکھ دیا گیا ہے۔ اس کو ہلانا ہمارے پادری کے بس میں نہیں تھا۔ ورنہ وہ شاید اس کو ہلاکر دروازہ بند کرانے کا عملی مشاہدہ بھی کراتا۔ امریکا کے صحت مند، خوش حال اور مطمئن پادریوں کے مقابلے میں فلسطین کے اس بیمار، کمزور پادری کو دیکھ کر بڑا ترس آیا۔ حالاںکہ اس چرچ کو UKمیں موجود ٹرسٹ باقاعدہ امداد فراہم کرتا ہے۔
یہاں سے باہر نکل کر دوبارہ قدم حرم شریف کی طرف بڑھائے۔ جلد ہی سیڑھیاں اتر کر بابِ محمود (Damascus Gate) کے ذریعے قدیم یروشلم میں داخل ہوگئے۔ شہر کا حال ہی بدلا ہوا تھا۔ محسوس ہورہا تھا کہ کسی سوتے ہوئے بچے کو جگادیا گیا ہے۔ مصروف ترین پررونق بازار تھا۔ چہل پہل اپنے عروج پر تھی۔ گاہکوں اور دکانداروں کے مباحث چل رہے تھے۔ معلوم ہورہا تھا کراچی کے جمعے بازار میں ہیں مگر دکانیں اور راستے پختہ تھے۔ یہ پورا پہاڑی علاقہ ہے۔ اس لیے ہر تھوڑے فاصلے پر سیڑھیاں تھیں۔ دکانوں کے آگے سڑک پر بھی لوگ سامان رکھ کر بیٹھے تھے۔ جہاں تھوڑی جگہ ملی، وہاں بیچنے کے لیے سامان رکھا تھا۔ بوڑھی خواتین پورا عبایا پہنے بھی تازہ سبزیاں لے کر بیٹھی تھیں۔ نہ جانے گھر کے مردوں پر کیا گزری جو اس بڑھاپے میں رُل رہی تھیں۔ شکل و صورت سے اچھے خاندان کی معلوم ہورہی تھیں۔ یہ سارا مسلم بازار تھا اور یہیں مسلم کوارٹرز بھی ہیں۔ تجارت ہی مقامی مسلمانوں کا ذریعہ معاش ہے۔ حالاںکہ آمدنی کی اچھی بڑی رقم ٹیکس کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے، مگر وہ اس آزادی کو چھوڑ کر کسی کی ملازمت کرنا پسند نہیں کرتے۔ ان کو اپنی غیرت کرنا بھی نہیں آتا۔ یہودی ان سے منہ مانگے داموں زمین خریدنے کو تیار ہیں، مگر مسلمان کسی نہ کسی طرح پائوں جمائے کھڑے ہیں۔ وہ فرض سمجھتے ہیں کہ یہاں پر ٹھہرے رہیں، جب تک حالات ان کے لیے ناقابل برداشت نہ ہوجائیں۔ مسجدِ اقصیٰ سے ان کی محبت اور اس کے لیے قربانی و جاںفروشی کا جذبہ دیکھ کر دل سے دعائیں نکلیں۔ حالاںکہ ان میں سے اکثر اپنی اگلی نسلوں کے لیے پریشان ہیں، کیوںکہ اعلیٰ تعلیم کے دروازے مسلمانوں کے لیے بند ہیں۔
یہیں پر ایک دکان سے مستطیل شکل کا ایک میٹر لمبا اسکارف برادر حسن نے خرید کر بچوں کو تحفے میں دیا۔ اس میں ایک طرف فلسطین کا نقشہ جبکہ دوسری القدس لنا لکھا تھا۔ بڑے بیٹے نے بہت شوق سے اسے کھول کر گلے میں ڈال لیا۔ حجاب اور اسکارف کی بڑی ورائٹی وہاں پر موجود تھی۔ خیر ضرورت کی ہر چیز ہی اس بازار میں موجود تھی۔ باب الصالحین کے ذریعے جب حرم شریف کے وسیع و عریض صحن میں داخل ہوئے تو وہاں موجود ایک اسرائیلی سپاہی ہمیں روک کر کھڑا ہوگیا اور مطالبہ کیا کہ گلے میں فلسطین کا اسکارف ہے، اس کو یہاں پہننے کی اجازت نہیں ہے کیوںکہ اس سے بغاوت کا خدشہ ہے۔ ساتھ موجود مقامی افراد نے مشورہ دیا کہ بدمزگی سے بچنے کی خاطر ان کی بات مان لی جائے۔ ورنہ یہ ہمارا باقی سفر کھوٹا کردیں گے۔ لہٰذا میں نے اس کو اتار کر بیگ کے اندر رکھ دیا۔ کیسا ظلم اور ناانصافی ہے۔ اپنے ملک میں اپنی روایتی چیزوں کا استعمال بھی جرم قرار دیا جائے۔ ہم امریکا میں رہتے ہوئے اس ذہنیت کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ چاہے تو جسم پر ساتر لباس ہو یا برائے نام، سر پر ٹوپی ہو یا اسکارف، کسی چیز کی ممانعت نہیں ہے۔ ہر شخص مادرپدر آزاد ہے۔ اگرچہ 9/11کے بعد اب بہرحال فرق پڑتا جارہا ہے۔ یہی غلامی ہوتی ہے۔ ہر اس چیز پر قدغن لگادو، جس سے آزادی کی کونپل پھوٹنے کا ڈر ہو۔ جن کو ان کی مائوں نے آزاد جنا تھا، ان کو کب تک غلام بنایا جاسکتا ہے؟ کب تک سوچوں پر پہرے بٹھائے جاسکتے ہیں؟ کون کسی کی دادرسائی کرے گا؟ ہم کب تک بہروں، گونگوں کی طرح آنکھیں بند رکھیں گے؟ امت مسلمہ کی خواب غفلت کی نیند کب ٹوٹے گی؟ یہ سوال آج ہر فلسطینی مسلمان کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں پاکستان کا نام سن کر امید کے جگنو جگمگانے لگتے تھے۔ وہ اپنی محبت کا اظہار شدت سے گلے لگاکر، محبت کے بوسے دے کر اور کبھی ٹافیاں دے کر کرتے تھے۔
زبان پر چپ کا تالا لگا لیا، مگر دل و دماغ میں خیالات کی یلغار تھی۔ سفر تو جاری رہنے کے لیے ہوتا ہے لہٰذا قدم اٹھائے بنا چارہ نہ تھا۔ صحن سے گزر کر مسجد میں داخل ہوئے۔ دورکعت تحیۃ المسجد ادا کی۔ جب تک چھوٹا بیٹا سوچلا تھا۔ اس کو میاں صاحب کی حفاظت میں دے کر میں اور بچے گائیڈ کی معیت میں مسجد کے مشاہدہ کرنے چل پڑے کیوںکہ وہ مسجد کے اند رپہلے ہی گھوم رہے تھے۔
ضعیف العمر افراد چھوٹی چھوٹی کرسیوں پر بیٹھے قرآن کا مطالعہ کررہے تھے۔ یہیں پر کھڑکی کے ذریعے گائیڈ نے باہر کا منظر دیکھنے کی دعوت دی۔ سبز رنگ کی کھڑکیوں پر سفید جالیاں لگی تھیں۔ باہر قومی لباس میں نوجوان اسرائیلی لڑکے اور لڑکیاں موجود تھے، (جاری ہے)

حصہ