میرانام مریم ہے

349

فارحہ شبنم (کینیڈا )
(آخری قسط)
ان تمام مصروفیات میں دن تیزی سے گزر رہے تھے۔ اس نومبر میں ہماری شادی کو دو سال ہونے کو تھے۔ سعد کی امی نے ڈھکے چھپے انداز میں مجھ سے اولاد کی فرمائشیں شروع کردی تھیں۔ سعد ان کے پہلوٹھی کے بیٹے تھے اور ان کی یہ خواہش میرے نزدیک جائز تھی۔ اور سچ کہوں تو جین اور دیگر دوستوں کے ننھے منے بچے دیکھ کر میرا دل بھی مچلنے لگا تھا۔ سعد البتہ اس سلسلے میں بالکل خاموش تھے۔ ایک دفعہ ویک اینڈ پر مانٹریال سے گھر واپسی پر بڑی ہمت کرکے میں نے ان سے ان کی والدہ کی خواہش کا ذکرکرتے ہوئے کہا ’’سعد! ہماری شادی کو دو سال ہورہے ہیں، آپ کی والدہ اب میری گود میں بچہ دیکھنا چاہتی ہیں‘‘۔ وہ بڑی سنجیدگی سے بولے ’’کیا واقعی؟ امی بھی کبھی کبھی حد کردیتی ہیں۔ چلو میں ان کو منع کردوں گا، وہ آئندہ تم سے ایسی کوئی بات نہیں کریں گی‘‘۔ میں خلافِ توقع جواب پر گڑبڑا گئی۔ پھر کچھ لمحوں بعد سوچ کر بولی ’’کیا آپ کو اولاد کی تمنا نہیں؟‘‘
’’کیوں نہیں؟‘ُ
’’تو ایسا کریں ناں کہ کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلیں مجھے۔‘‘
’’ڈاکٹر کیا کرے گی! جب اللہ کو دینا ہوگا دے دے گا۔ تمہیں کس بات کی جلدی ہے؟‘‘
’’نہیں، وہ، بس اچھا ہے ناں کہ ہماری بھی اپنی اولاد ہو۔‘‘
’’ہوں… تو یہ بات ہے۔ پھر صاف صاف کہو ناں کہ یہ تمھاری خواہش ہے۔ میری معصوم امی کو کیوں بدنام کررہی ہو!‘‘
میں پھر الفاظ کی کمی کا شکار تھی۔ ’’سعد!! آپ بھی ناں‘‘۔ وہ ہمیشہ اسی طرح میری چوری پکڑ لیتے تھے۔
’’تو اور کیا، تم میری بیچاری امی کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلارہی ہو اور چاہتی ہو کہ میں خاموشی سے بے وقوف بن جاؤں‘‘۔ وہ اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے بولے۔
’’سعد میں واقعی سچ کہہ رہی ہوں۔ وہ کئی دفعہ مجھ سے کہہ چکی ہیں‘‘۔ اب میں خفت سے روہانسی ہونے کو تھی۔
’’ویسے مریم! تم کو ایک مشورہ دوں؟ تم یہ سب کچھ خوب اچھی طرح یاد رکھنا اور ساس بن کر ایسی کوئی حرکت بالکل نہ کرنا جو تمہاری بہو کو پریشان کرے‘‘۔ وہ مجھے ہنسانے کے لیے بات بدلتے ہوئے بولے۔
میں نے گھبراہٹ میں کوئی اور بلنڈر کرنے کے بجائے دل ہی دل میں ان کے اس مذاق پر “!! very funny ” کا طنزیہ کومنٹ دیا اور خاموشی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے کو ہی غنیمت جانا۔
مارچ میں خواتین ڈے کے موقع پر میں نے کچھ دیگر خواتین کے ساتھ مل کر مال میں حجاب اسٹال لگانے کا سوچا۔ سعد کو تھوڑا محنت کرکے راضی کیا۔ اتنے عرصے میں مجھے ان کے مزاج کا اتنا اندازہ تو ہو ہی چکا تھاکہ ان کی ’ناں‘ کو ’ہاں‘ میں کس طرح بدلا جا سکتا ہے۔ حجا ب اسٹال کا آئیڈیا مجھے فیس بُک پر ایک وڈیو دیکھ کے آیا۔ ہم نے ایک ماہ پہلے مسجد میں ایک میٹنگ ارینج کرکے تفصیلی پلاننگ کی، اور سب کی ذمے داریاں بھی تقسیم کرلیں۔ ہم سب بہت پُرجوش تھے۔ دن قریب آرہے تھے اور تیاریاں تقریباً مکمل تھیں کہ اچانک میری طبیعت خراب ہوگئی۔ الٹیوں اور متلی نے میرا حال خراب کردیا تھا۔ پہلے تو میں سمجھی کہ شاید فوڈ پوائزننگ ہوگئی ہے، کیونکہ میں سعد کے منع کرنے کے باوجود اکثر فریج میں رکھا ہوا پرانا کھانا پھینکنے کے بجائے بے فکری سے نکال کر کھالیتی تھی۔ مگر پھر مجھے اندازہ ہوا کہ اللہ نے میرے دل کی خواہش کو حقیقت کا روپ دے دیا اور میں ماں جیسے عظیم رتبے پر فائز ہونے والی ہوں۔ سعد میری طبیعت کی خرابی سے پریشان تھے لیکن میں نے جان بوجھ کر یہ خوش خبری ان سے چھپا لی تھی۔ ان کے اصرار کے باوجود میں نے ڈاکٹر کے پاس جانے سے مختلف بہانے کرکے انکار کردیا۔ جتنی بے پروائی اور بے دردی کا اظہار انہوں نے میری خواہش کے اظہار کے موقع پر کیا تھا اب میں بھی ان سے بدلہ لے کر حساب برابر کرنا چاہتی تھی۔
حجاب اسٹال میری غیر موجودگی کے باوجود اللہ کی مدد اور سب کے تعاون سے اچھی طرح ہوگیا اور عام پبلک کی طرف سے خاصا اچھا ردعمل ملا۔ خواتین نے وہاں سے حجاب کے علاوہ قرآن کے ترجمہ اور اسلا م کے متعلق دیگر معلوماتی فلائرز بھی اٹھائے۔
دن تیزی سے گزر رہے تھے۔ میں انٹرنیٹ سے پریگننسی کے متعلق ساری ہی ضروری معلومات حاصل کرچکی تھی۔ میرے دبلے پتلے جسم پر ابھی کوئی اثرات نظر آنا شروع نہیں ہوئے تھے۔ تاہم طبیعت اب پہلے سے کافی بہتر تھی۔ صرف کمزوری تھی جو مجھے پریشان کررہی تھی۔ اس دن ہم مسجد سے جمعہ پڑھ کر نکلے تو موسم اچھا دیکھ کر سعد نے گاڑی کا رخ گھر کے بجائے فارمرز مارکیٹ کی طرف کردیا۔کھلی فضا اور تازہ سبزیاں ہمیشہ سے میری کمزوری تھیں، اس لیے میں ان کے پوچھنے پر چاہتے ہوئے بھی انکار نہ کرسکی۔ تھوڑا ہی وقت یہاں گزرا تھا کہ میرا سر چکرانے لگا۔ میں نے سہارا لینے کے لیے سعد کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن وہ ہوا میں ہی گھوم کر رہ گیا اور میں بے ہوشی کے عالم میں نیچے گر پڑی۔ جب ہوش آیا تو پتا چلا کہ اسپتال میں تھی۔ میرے ہاتھ پہ ڈرپ لگی تھی اور نرس میرا بی پی چیک کررہی تھی، جبکہ سعد میرے سرہانے کھڑے تھے۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا تو ان کی آنکھوں میں ناراضی کا اظہار تھا۔ جب مجھے یاد آیا کہ میں مارکیٹ میں گر پڑی تھی تو میرا ذہن خوف زدہ ہوگیا۔ یا اللہ، کہیں میرے بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچ گیا ہو، سعد مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے۔ میں نے بے چینی سے نرس سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے اطمینان دلایا کہ سب ٹھیک ہے۔ میں نے سکون کی سانس لی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
نرس باہر نکلی تو میں نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کرلیں۔ لیکن کاش آنکھیں بند کرنے سے میرے کان بھی بند ہوسکتے۔
’’مریم! یہ کیا بچپنا ہے؟ مجھے تم سے ہرگز یہ امید نہ تھی‘‘۔ وہ دھیمی آواز میں مجھ پر گرم ہورہے تھے، ’’تم نے کیوں مجھ سے یہ بات چھپائی؟ پتا ہے ڈاکٹر تمھارے ہوش میں آنے سے پہلے مجھ پر کتنا خفا ہوکر گیا ہے؟ شرم آرہی تھی مجھے اُس کے سامنے کہ میری بیوی تین ماہ سے پریگننٹ ہے اور مجھے علم تک نہیں۔ کب بڑی ہوگی تم؟ اللہ تعالیٰ تم کو ماں کا رتبہ دینے جارہے ہیں اور تم چھوٹی بچی کی طرح بی ہیو کررہی ہو۔ تم کو پتا ہے اللہ نے کتنا کرم کیا ہے۔ تمہارا ہیموگلوبن اور بلڈ پریشر دونوں انتہائی خطرناک سطح پر تھے۔ موت کے منہ سے واپس آئی ہو۔ ڈاکٹر نے اگلے تین ہفتے دواؤں کے ساتھ ساتھ مکمل بیڈ ریسٹ کرنے کے لیے کہا ہے۔‘‘
میرے پاس جواب میں کہنے کو کچھ نہ تھا، اس لیے خاموش رہی۔ البتہ ڈانٹ سن کر میری آنکھوں میں آنسو بھرنے لگے۔ میں جب جب سمجھتی تھی کہ حالات میرے کنٹرول میں ہیں تبھی کوئی ایسی بات ہوجاتی جو مجھے پھر آسمان سے زمین پر دے مارتی۔ اس وقت تو دل چاہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے بھی ناراض ہوجاؤں۔ سارا پلان ٹھپ کرکے رکھ دیا۔ کچھ عرصہ تو خوش ہو لینے دیتے۔ پھر ان شیطانی وسوسوں سے بچنے کے لیے میں نے استغفار کا ورد کرنا شروع کیا۔ سعد کی نظروں سے بچنے کے لیے میں نے ابھی کروٹ لے کر دوسری طرف رخ کیا ہی تھا کہ میرے کانوں سے ان کی آواز ٹکرائی:
Maryam! I think you owe me an apology
’’مارے گئے‘‘ میں نے دل میں سوچا۔
’’آئی ایم سوری‘‘، میں نے کڑے دل کے ساتھ بدقت زبان سے یہ الفاظ ادا کیے ہی تھے کہ وہ مجھے مزید شرمندہ کرتے ہوئے بولے:
I can only hope that you are truly sorry!!
امی تھوڑی دیر میں قاسم کے ساتھ آجائیں گی تو میں آرام کے لیے گھر جاؤں گا۔ پلیز ان کو پریشان نہ کرنا۔ میں ذہنی طور پر بہت تھک گیا ہوں۔ رات تک واپس آجاؤں گا‘‘۔
میں نے سر ہلا کر ہدایت پر عمل کرنے کا اشارہ دیا۔ دل میں تو آرہا تھا بول دوں کہ میں کوئی بچی نہیں ہوں کہ پریشان کروں گی، مگر پھر تازہ ہونے والے حادثے اور اس پر پڑنے والی ڈانٹ کے الفاظ یاد کرکے چپ رہی۔
دو دن بعد چھٹی ملی تو ان کی امی کی طرف کچھ دیر ٹھہرنا پڑا۔ وہ بہت خوش تھیں اور سعد سے اصرار کررہی تھیں کہ مجھے ان کے پاس ہی چھوڑ جائیں، لیکن سعد اس کے لیے قطعی تیار نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتے، اور اگر ان کو شوق ہے تو وہ ہمارے ساتھ چل کر رہ سکتی ہیں… میں اتنی بڑی گڑبڑ ہونے کے بعد اب خاموشی سے دوسروں کے ہاتھوں اپنی قسمت کے فیصلے ہوتے دیکھ رہی تھی۔ باقی کا عرصہ ان سب لوگوں نے مجھے اپنے ہاتھ کا چھالا بناکر رکھا۔ سعد میرا بے حد خیال رکھتے اور میں بھی کوشش کرتی کہ ان کو ناراضی کا موقع نہ دوں۔ اس حادثے میں جہاں اللہ نے میری اور میرے بچے کی جان بچائی تھی وہیں مجھے کچھ عقل کے ناخن بھی عطا کردیے تھے۔ اتنے عرصے میں مَیں سعد کی بے لوث رفاقت، ان کی محبت اور خلوص کی دل سے معترف ہوچکی تھی۔ ان کے سخت رویّے یا مزاج کی برہمی پر اگر شیطان کبھی میرے دل کو بہکاتا بھی، تو میں اللہ کی طرف سے بہترین بدلے کی امید پر صبر اور خوشی کے ساتھ اس کو برداشت کرتی تھی اور آپس کے تعلقات کو خوشگوار رکھنے کی پوری کوشش کرتی۔ اس کے لیے اگرچہ مجھے اپنے جذبات اور انا کی قربانی دینا پڑتی تھی، لیکن ظاہر ہے کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا تو پڑتا ہی ہے۔ اور پھر سعد بھی تو ہنسی خوشی میری تمام بے وقوفیوں کے باوجود میرے ساتھ گزارا کرہی رہے تھے۔ سوچ کی یہ طرز انسان کو سکون کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا پر راضی رکھتی ہے اور نفس مطمئنہ کے رستے پر چلاتی ہے۔ اور رہی خواہش آئیڈیل شوہر اور پرفیکٹ زندگی کی، تو میرا خیال ہے کہ ہر ایک کو ہی اس کی چاہت اور طلب ہوتی ہے اور میرا ایمان ہے کہ مجھے بھی یہ ضرور ملے گی، مگر ان شا اللہ مرنے کے بعد۔ میرا اور سعد کا آپس میں یہ غیر تحریری معاہدہ ہے کہ ہم جنت میں ایک دوسرے کے بغیر ہرگز نہیں جائیں گے اور ہم دونوں ہی ان نکات اور خصوصیات پر بھی متفق ہیں جو اللہ تعالیٰ سے کہہ کر ہم ایک دوسرے کے اندر مانگیں گے۔
سعد نے مجھ سے چھپ کر ماما کوبھی آنے والی خوش خبری کی اطلاع دے دی تھی اور مجھے اُس وقت بتایا جب ماما کینیڈا آنے کے لیے جہاز میں بیٹھ چکی تھیں۔ وہ ہمارے بیٹے عبدالرحمن کی پیدائش کے محض دو دن بعد میری خوشیوں کو دوبالا کرنے پہنچ گئی تھیں اور اپنے نواسے کو دیکھ کر بے انتہا خوش تھیں۔البتہ بابا کے متعلق میرے پوچھنے پر خاصی دل گرفتگی سے بتانے لگیں کہ میرے جانے کے بعد سے وہ بہت بیمار رہنے لگے ہیں اور خاصے کمزور ہوگئے ہیں اسی وجہ سے وہ خود ساتھ نہ آسکے۔ ماما کے ہاتھ بابا اور پیٹرک نے میرے، سعد اور عبدالرحمن کے لیے خوب سارے تحفے بھجوائے تھے۔ میں اپنے جذبات کو سنبھالے ان تحفوں میں سے ہر ایک کو ہاتھ لگا لگا کر اپنے بابا کی خوشبو اور ان کے جسم کی گرمی تلاش کرنے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔

حصہ