میرا نام مریم ہے

404

فارحہ شبنم (کینیڈا )
(چھٹی قسط)
میری بھوک مر چکی تھی۔ میں نے لزانیہ فریج میں رکھا اور عشاء پڑھ کر سونے کے لیے لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ گھر لوٹے تو گھنٹی کی آواز نظرانداز کرکے میں بستر پر ہی سوتی بنی لیٹی رہی۔ وہ اپنی چابی سے دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر میں کمرے میں آئے اور لائٹ جلاکر میری طرف بستر پہ آکر بیٹھے تو میں مزید ڈراما نہ کرسکی۔ وہ میری آنسوئوں سے بھیگی آنکھیں اور گیلا تکیہ دیکھ کر بڑی معصومیت سے پوچھنے لگے ’’کیا ہوا، اب میری کیا بات بری لگ گئی جناب کو؟‘‘ گہری سانس لے کر میں نے اپنی آواز درست کی اور بڑی مشکل سے جب معاملہ بتایا تو کہنے لگے ’’مریم! تم نے ایک دفعہ بھی لزانیہ کا ذکر نہیں کیا ورنہ خدا کی قسم میں اپنے دوست کو بھی گھر لے آتا۔ بلاوجہ پیزا کھلانے لے گیا۔‘‘
’’لیکن وہ سرپرائز تھا آپ کے لیے۔ فون پر کیسے بتا سکتی تھی؟‘‘
’’اوہو تو یہ بات ہے… اچھا چلو اب فٹافٹ اٹھو، میرے منہ میں تو سوچ کر ہی پانی بھر رہا ہے۔ جلدی سے فریج سے نکال کر گرم کرو، ابھی کھا لیتے ہیں‘‘۔ پھر خود کو مخاطب کرکے بولے ’’پریشانی کی کیا بات ہے سعد عباسی؟ بیگم کی محبت میں کل دو کلومیٹر ایکسٹرا جاگنگ کرلیں گے۔‘‘
لیکن اب میرا کوئی موڈ نہ تھا، لہٰذا میں نے بازو آنکھوں پر رکھا اور کہہ دیا ’’مجھے نیند آرہی ہے، سونے دیں‘‘۔ وہ اکثر میری ناراضی کو ایسے ہی تفریح میں اڑا دیتے تھے اور میں سڑسڑ کر اپنا وقت اور توانائی ضائع کرتی رہتی تھی۔
اس قسم کے معاملات کو ان سے ڈسکس کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوتا، کیونکہ میرے لیے جو بہت بڑی بات ہوتی وہ اس کو اتنا ہلکا لیتے کہ مجھے خود اپنی سمجھ داری پہ شبہ ہونے لگتا، اور جو بات میرے لیے معمولی ہوتی اس پہ ان کی ناراضی ناقابلِ فہم ہوتی۔ شاید اپنی فیملی سے دوری کے اثرات تھے یا پھر ہر نیا جوڑا ہی ایک دوسرے کو سمجھنے میں اتنا وقت لیتا ہوگا۔ مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ ہماری عمر، سوچنے کے انداز اور مزاج کا فرق رنگ لا رہا تھا۔ مگر مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ سب میں کس سے ڈسکس کروں! ماما اور گھر والوں سے اکثر بات تو ہوتی تھی لیکن مجھے اُن سے ڈسکس کرکے ہمدردی حاصل کرنا پسند نہ تھا ۔ جبکہ یہاں مسلم کمیونٹی میں سبھی سعد کو جانتے تھے اور میں کسی سے بات کرکے سعد کے لیے شرمندگی یا جگ ہنسائی کا سبب نہیں بننا چاہتی تھی۔ میری شادی کا ابتدائی سال انھی خودساختہ محرومیوں اور پریشانیوں کو روتے گزر گیا۔ البتہ دوستوں سے تعلقات کم کرنے کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اب میرے پاس واٹس ایپ چیٹنگ اور بحث مباحثے سے کافی وقت بچ جاتا جس میں میں اپنے لکھنے لکھانے کا کام کر پاتی تھی ۔ اس سے مجھے دلی سکون بھی ملتا اور میری لکھنے کی صلاحیتوں میں بھی بہتری آرہی تھی۔ کچھ لوگوں سے مجھے اپنی تحریر پر فیڈ بیک بھی ملتا تھا جس سے میری ہمت افزائی بھی ہوتی اور لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچانے کا موقع بھی ملتا۔ خود کو مزید مصروف کرنے کے لیے میں نے انٹرنیٹ سے ویڈیو دیکھ کر گھر میں اُون سے ایک جاء نماز بنانے کا کام بھی شروع کیا تھا۔ میرا ذہن زیادہ منتشر ہوتا اور دل بے چین ہوتا تو میں اسے کھول کر بنانے بیٹھ جاتی، یا پھر کبھی یوگا کی مشقیں کرلیتی تھی، اور اس طرح وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلتا۔ سعد میرے لیے مختلف تعلیمی اداروں کے گائیڈ بکس بھی لے کر آئے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ میں اپنی تعلیم دوبارہ جاری کروں۔ مگر فی الحال میری سستی کی وجہ سے وہ ایسے ہی دراز میں پڑی تھیں۔
دن اسی طرح گزر رہے تھے جب ایک دن کیوبیک مسجد پر حملہ ہوا اور ہر طرف اس کی خبریں چلنے لگیں۔ ملک بھر کی طرح ہمارے شہر میں بھی ان کے لیے vigil رکھی گئی۔ حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے سعد پر دباؤ ڈالا کہ مسجد میں تمام لوگوں کے لیے اوپن ہاؤس رکھیں۔ یہ ایک کامیاب پروگرام رہا۔ کمیونٹی نے بڑھ چڑھ کر اپنا حصّہ ڈالا اور کافی لوگوں نے اسلام کے بارے میں اپنے سوالات کے جوابات حاصل کیے۔ بعد میں مسجد کے فیس بُک پیج پر بھی لوگوں سے اس حوالے سے گفتگو رہی۔ اسی طرح کبھی کبھار جو نئے مسلمان مسجد سے کانٹیکٹ کرتے اُن میں سے خواتین کو سعد میرا نمبر دے دیتے تھے، اور میں ان کو ضروری معلومات دینے کے ساتھ ساتھ دل و جان سے ان کی مدد کرتی اور ساتھ ہی اپنی دوستوں کے ذریعے کمیونٹی کی دوسری خواتین سے بھی ملواتی تاکہ انہیں مناسب سپورٹ مل سکے۔ مجھے اب اندازہ ہورہا تھا کہ میں خوش قسمت تھی کہ مجھے سعد نے آگے بڑھ کر سہارا دیا، ورنہ ان اکیلی خواتین کو دیکھ کر پتا چلتا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اس پر قائم رہنا کس قدر دشوار ثابت ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایسی صورت حال میں وہ نومسلم خواتین پریشان ہوجاتیں اور اسلام کو چھوڑ کر واپس گمراہی کی طرف پلٹ جاتیں۔ مجھے صرف وہ خواتین نسبتاً کچھ مطمئن نظر آتی تھیں جنہیں صالح مسلم شوہر حضرات مل گئے تھے۔ بعض اوقات انھی باتوں کو سوچ کر دل شکر کے جذبات سے لبریز ہوجاتا تو میں بے اختیار سجدے میں گر کر رب کریم کا دل کی گہرائیوں سے شکر بجالاتی۔(جاری ہے)

حصہ