مجھے بھی فارمولا دے دو

2154

زاہد عباس
’’نواب بھائی اگر مجھے بھی مال بنانے کا فارمولہ دے دو گے تو تمھیں کیا فرق پڑے گا! میری روزی روٹی کا بندوبست ہوجائے گا، اور ویسے بھی تم نے تو یہ کام چھوڑ دیا ہے، پلیز مان جاؤ، میں تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ میں ایک عرصے سے تمہارے ساتھ ہوں، کم سے کم اتنا تو خیال کرو۔ مجھے یاد ہے تم نے مجھ سے کہا تھا کہ تم جب بھی یہ کام چھوڑو گے تو مال تیار کرنے کا فارمولا مجھے ہی دو گے، لیکن تم نے اپنا وعدہ پورا کرنے کے بجائے غیر علاقے سے تعلق رکھنے والے خواجہ صاحب پر مہربانی کردی اور مجھے میری خدمت کا کوئی صلہ نہ دیا، بھائی ایسا کیوں کیا؟‘‘
’’تو بائولا نہ بن! جب تک تُو نے میرے پاس کام کیا میں نے تجھے تنخواہ کے علاوہ بھی پیسے دیے، تیری ہر ضرورت کا خیال کیا، جو ہوسکتا تھا وہ کرتا رہا۔ یہ جو بائیک چلاتا پھرتا ہے، کس نے دلائی تھی؟ عید کے کپڑوں سے لے کر گھر میں ڈالے جانے والے راشن تک کی مدد کرتا رہا ہوں، ابے میری مرضی میں جس کو چاہوں فارمولا دوں، تُو مجھے روکنے والا کون ہوتا ہے! اور پھر میں نے کسی پر کوئی احسان نہیں کیا، کاروباری ڈیل کی ہے۔ تُو دس مرتبہ بھی پیدا ہوکر آجائے، اتنے پیسے نہیں دیکھ سکتا۔ میں نے ایک خطیر رقم لے کر ہی زبان کھولی ہے تبھی اپنا نام اور برانڈ خواجہ کو دیا ہے۔ تیرا کیا خیال ہے یہ سب ویسے ہی ہوگیا؟ اب وہی مال تیار کروا کر سپلائی کرے گا۔ ویسے بھی روز روز کے چھاپوں اور بھتوں نے پریشان کیا ہوا تھا، خواجہ سرکاری عہدے پر بیٹھا ہے، پولیس سے خود نمٹتا رہے گا، اچھا ہے میری جان چھوٹی۔ مجھے جتنا کمانا تھا، کما لیا۔ خدا کا دیا بہت کچھ ہے، اور اب تو ویسے بھی مارکیٹ میں درجنوں برانڈ آچکے ہیں، ایسی صورت میں کنارہ کرنا ہی بہتر ہے۔ مر کر خدا کو جان دینی ہے، آخر کب تک یہ زہر بناتا رہوں! یہ اچھا نہیں کہ اب کوئی دوسرا کام کروں؟‘‘
گڈو کا نواب بھائی سے فارمولا حاصل کرنے کی ضد کرنا کوئی ایٹمی ٹیکنالوجی کے فارمولے کا حصول نہیں، بلکہ کراچی کی گلیوں اور محلوں میں فروخت ہونے والے مضر صحت ’’گٹکا‘‘بنانے کی ترکیب پوچھنا تھا۔
ایک زمانہ تھا جب پان کھانا ہماری ثقافت میں شامل تھا۔ دادی اماں کے پاندان سے چرائے گئے پانوں کی اپنی ہی لذت ہوا کرتی تھی۔ دادی جب بھی پاندان کھولتیں، گھر کے سارے ہی بچے ان کے گرد جمع ہوجاتے۔ سروتے سے کٹتی چھالیہ کے ٹکڑوں پر سب بچوں کی نگاہیں لگی رہتیں۔ کسی کے گھر دعوت پر جاتے تو کھانے کے بعد پان پیش کیے جاتے۔ 1971ء کی جنگ کے دوران سرحدی حالات خراب ہونے سے پاکستان میں پان اور چھالیہ پر بحران آگیا جس کے نتیجے میں پان کھانے کی عادت میں مبتلا افراد میں انتہائی بے چینی پھیلنے لگی۔ ظاہر ہے کسی بھی نشے یا عادت میں مبتلا افراد کو طلب کے وقت متعلقہ شے کا نہ ملنا طبیعت کے اندر اسی قسم کی کیفیت پیدا کرے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اس زمانے میں اس بحرانی کیفیت سے نمٹنے یا اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے پان کھانے والوں نے مختلف طریقے نکالنے شروع کردیے۔ کچھ لوگ پیپل کے پتوں پر کتھا چونا لگاکر پان کے طور پر، جبکہ چھالیہ کی جگہ کھجور کی گٹھلیاں کھاکر اپنا نشہ پورا کرنے لگے۔ یہ صورت حال خاصے عرصے تک جاری رہی۔ یہیں سے شروع ہوتی ہے اس سوغات یعنی گٹکے کی تاریخ جو ہمارے معاشرے میں اب باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ رکھتا ہے۔
چونکہ نواب بھائی کی جانب سے گٹکا بنانے کا فارمولا نہ ملنے پر گڈو انتہائی ناراض تھا اس لیے وہ ہمیں اس کاروبار سے جڑی ہر خبر دینے کو تیار تھا۔ اندھے کیا چاہے، دو آنکھیں… سو ہم نے بھی گڈو سے جتنا بھی وہ جانتا تھا، اگلوانا شروع کردیا۔ وہ تو پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا، ہمارے چھیڑتے ہی فرفر بولنے لگا:
’’میں گزشتہ چار دہائیوں سے گٹکا بنانے کا فن جانتا ہوں، اگر یہ کہا جائے کہ نواب بھائی کا گٹکا میں نے ہی چلایا تو غلط نہ ہوگا۔ سب سے پہلے گٹکا بابو بھائی نے بنایا، آج جس فارمولے کو نواب بھائی چھپا رہے ہیں یہ انھی بابو بھائی کا دیا ہوا ہے۔ گٹکا بنانا باقاعدہ ایک فن ہے۔ ویسے تو اس وقت بازار میں تقریباً 132 قسم کی چھالیہ کی فروخت جاری ہے، لیکن ہمارے کام میں تیسرے درجے کی پھپھوندی لگی چھالیہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ چھالیہ کو رات بھر پانی سے بھرے ٹبوں میں ڈال کر چھوڑ دیا جاتا ہے اور صبح نکال کر اس میں کتھا، چونا اور پتی کے ساتھ نارمل سلائن (گلوکوز کی بوتل) ملا دی جاتی ہے۔ بہت سے لوگ گوند یا گڑ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس طرح تیار کردہ گٹکا بازاروں میں سپلائی کردیا جاتا ہے۔ لیکن یہ طریقہ پرانا ہوچکا ہے، کھانے والے اب نیا ذائقہ مانگتے ہیں، اسی لیے ہمیں بھی نئے تجربات کرنے ہوتے ہیں۔ آج کل چھالیہ کو جلدی گلانے کے لیے بیٹری کا پانی یعنی تیزاب استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ کتھے میں ذبح خانوں سے لایا گیا جانوروں کا خون، گیرو، ملتانی مٹی، چمڑے کی رنگائی کے لیے استعمال ہونے والے مختلف کیمیکلز کے ساتھ ساتھ شیشہ ملانا عام سی بات ہے۔‘‘
گڈو کے بقول ’’نواب بھائی کا گٹکا دوسروں کے مقابلے میں خاصا بہتر ہے، اس میں کتھے کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے اور خشک ہونے پر دوبارہ تازہ کیا جاسکتا ہے، جبکہ بازاروں میں فروخت ہونے والے گٹکوں میں ایک تمباکو استعمال نہیں ہوتا بلکہ بھارت میں تیار ہونے والے کئی قسم کے تمباکو ڈالے جاتے ہیں، اسی بناء پر ہر برانڈ کی اپنی الگ قیمت ہوا کرتی ہے۔ نواب بھائی نے گٹکا بنانے سے متعلق تمام باتیں مجھے بتا دیں لیکن تیار گٹکے پر انڈیلی جانے والی بوتل سے متعلق نہ بتایا، یہی وہ فارمولا ہے جس کے لیے میں ضد کررہا تھا۔‘‘
اس سوال پر کہ اس بوتل میں بھی ضرور کوئی نہ کوئی کیمیکل ہی ہوتا ہوگا، وہ اپنی بات کا رخ تبدیل کرتے ہوئے بولا ’’اس وقت بازار میں ماوا، گٹکا، مین پوری، گرین پٹی، گولیمار، حیدری مصالحہ جیسے برانڈ فروخت ہورہے ہیں۔ پہلے ایک پڑیا دو سے تین روپے میں فروخت ہوتی تھی جو اب 8 سے 10 روپے میں ملتی ہے، جبکہ مین پوری اور ماوا 50 روپے تک فروخت ہوتا ہے۔ چھالیہ اور دوسری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اس کام میں خراب اشیاء کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے۔ کراچی میں گٹکے کی بہت مانگ ہے۔ یہاں مقامی طور پر لوگ گٹکا اور مین پوری تیار کرتے ہیں۔ گولیمار، ناظم آباد ،لانڈھی، کورنگی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، لالوکھیت، لیاری جیسے علاقوں میں یہ کام اپنے نام اور برانڈ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ مرد تو مرد، عورتیں بھی گٹکا بہت شوق سے کھاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کام سے وابستہ افراد چند دنوں میں ہی اچھے خاصے پیسے کما لیتے ہیں۔‘‘
گڈو کی جانب سے دی جانے والی معلومات اپنی جگہ، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ کراچی کا رہنے والا ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی علت میں مبتلا ہے۔ کسی بازار میں چلے جائیں یا شاپنگ سینٹر میں… کسی دفتر میں جائیں یا کسی بھی تفریحی مقام پر… ہر جگہ گٹکے اور مین پوری کے اڑتے ریپر آپ کو اپنے ہونے کی خبر دیں گے۔ کراچی کی کوئی سڑک اور کوئی دیوار ایسی نہیں جہاں نشہ خوروں نے نقشے نہ بنائے ہوں۔ یہاں چلتی گاڑی سے باہر تھوکنا، سڑکیں رنگنا، یا لوگوں کے کپڑوں پر پچکاری مارنا اپنی جگہ… انتہائی خطرناک بات تو یہ ہے کہ کراچی میں ناقص چھالیہ، غیر معیاری رنگوں اور دیگر مضر صحت اشیاء سے بنائے جانے والے گٹکے اور مین پوری کے ایسے شوقین لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو جانتے ہیں کہ گٹکا اور مین پوری کینسر جیسی مہلک بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں لیکن وہ پھر بھی اپنی اس لت سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ ایک سروے کے مطابق 51 فیصد نوجوان دن میں چھ سے آٹھ مرتبہ گٹکا کھاتے ہیں، جن میں سے 37 فیصد پڑھے لکھے جب کہ 32 فیصد کم عمر ہوتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس قسم کی مضر صحت اشیاء کھانے والوں میں 84 فیصد کی عمر 20 سے 30 سال کے درمیان، جبکہ 76 فیصد انتہائی کم عمر اور 7 فیصد پرائمری اسکول کے بچے شامل ہیں۔
بعض افراد کو گٹکا منہ میں رکھ کر سونے کی عادت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس میں شامل مضر صحت کیمیکل منہ اور گلے کے اندر کی جھلی کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے جھلی اور جبڑے اپنی کارکردگی کھو دیتے ہیں، اس کے نتیجے میں متاثرہ حصہ بتدریج ناکارہ ہونے لگتا ہے۔ طویل عرصے تک گٹکا اور مین پوری کھانے سے مسوڑھوں، حلق، پھیپھڑوں، معدے اور پروسٹیٹ کا کینسر ہونے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق وہ عوام کو اس کے مضر اثرات اور نتائج بتا بتا کر تھک چکے ہیں… اور رہی بات حکومتی اداروں کی، تو ان کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عدلیہ کی جانب سے دیے جانے والے احکامات کے باوجود آج بھی شہر کی گلیوں اور بازاروں میں گٹکے، مین پوری، ماوا کھلے عام فروخت کیے جارہے ہیں، جنہیں ہر نوجوان آسانی سے خرید سکتا ہے۔ سیلزمین بھرے تھیلے موٹر سائیکلوں پر لاد کر با زاروں اور گلیوں میں بڑے دھڑلے کے ساتھ سپلائی دینے میں مصروف ہیں۔ انہیں حکومتی احکامات یا کسی بھی انتظامیہ کا کوئی ڈر نہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ زہر بنانے والوں کے ہاتھ قانون سے بھی لمبے ہیں۔ انہیں یہ بات بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ پولیس ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔ وہ اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ پیسے کے سامنے لوگوں کی زندگیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ گٹکا بنانے اور سپلائی کرنے والوں نے حکومت کو بتادیا ہے کہ ان سے بڑا کوئی نہیں۔ زہر بیچنے والوں کے پھلتے پھولتے کاروبار سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت سندھ اس مافیا کے سامنے بے بس ہوچکی ہے۔
سندھ حکومت اگر لوگوں کی زندگیاں بچانا چاہتی ہے تو اسے سنجیدگی سے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ ملک کے مستقبل کے معماروں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جاسکے۔ ایسے قوانین بنانے ہوں گے، جن کے تحت کسی بھی ایسی جان لیوا چیز، جس میں نشہ آور کیمیکل شامل ہوں یا جس سے عوام کی صحت کو خطرات لاحق ہوں، فروخت کرنا بڑا جرم قرار پائے۔ اس طرح کے اقدامات ہی سے معاشرے میں پھیلے اس زہر سے آنے والی نسلوں کو محفوظ کیا جاسکتا ہے!!

حصہ