دل کی آنکھ

684

سیدہ عنبرین عالم

کوئی دین نہیں ایمان نہیں، بس بات ہے ساری عشق
جو نوحؑ کو کشتی پر چڑھائے، وہ بات ہے ساری عشق
موسیٰؑ ایک لاٹھی کے زور پر، فرعون سے جو ٹکرائے
عیسیٰؑ ہنستے ہنستے سولی پر چڑھ جائے، دنیا سے جائے
وہ ابراہیمؑ کا آگ میں جانا، بات ہے ساری عشق
وہ جو محمدؐ چپکے چپکے راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتا ہے
سینے کو اس کے جدائی تڑپائے، بات ہے ساری عشق
ابو بکرؓ جو سب کچھ اس کی راہ میں لا کر ڈھیر کردیتا ہے
وہ عمرؓ جو دنیا فتح کرلیتاہے، بس بات ہے ساری عشق

جاوید چودھری جوکہ ایک مشہور اینکر پرسن ہیں، اپنے ایک کالم میں ایک قصہ بیان کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ ایک یہودی سے ان کی ملاقات ہوئی، اس یہودی نے بتایا کہ وہ اپنی ایک ریسرچ کے سلسلے میں پاکستان آیا ہے۔ پوچھا کہ ریسرچ کا موضوع کیا ہے؟ شرمندہ سے ہوکر یہودی صاحب کہنے لگے ’’مسلمانوں میں دہشت گردی کا رجحان‘‘۔
پوچھا: پھر کیا ریسرچ ہوئی؟ تو یہودی نے کہا ’’مسلمان ہر بات میں سمجھوتا کرلیتے ہیں، قرآن کبھی نہیں پڑھتے، نماز چھوڑ دیتے ہیں، روزے سے دور بھاگتے ہیں، زکوٰۃ دینے سے بہتر شاپنگ کو سمجھتے ہیں، امریکا، برطانیہ گھومتے ہیں مگر حج پر جانے کے لیے پیسہ نہیں ہوتا… لیکن ایک چیز ایسی ہے جو ان کو منفرد بناتی ہے، وہ ہے محمدؐ سے محبت۔ جہاں ان کے نبیؐ کو کچھ کہہ دیا، وہاں یہ جان سے دینے سے بھی باز نہیں آتے، اور جب تک ان میں یہ وصف موجود ہے، اسلام ختم نہیں ہوسکتا۔‘‘
مجھے یہ قصہ واٹس ایپ پر موصول ہوا جسے پڑھ کر سوچ میں میں پڑ گئی۔ جب مسلمان قرآن نہیں پڑھتے، اسلام کے پانچوں ارکان سے جان چھڑانے کے درپے ہیں، تو کون سا اسلام ہے جو باقی رہ گیا؟ رہ گئی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، تو یہ محبت جان دینے پر تو آمادہ کرلیتی ہے مگر اسی نبیؐ کا ایک حکم بھی ماننا گوارا نہیں۔ قسم خدا کی، مجھے تو یہ محبت سمجھ میں نہیں آتی۔
اب ہم تاریخ کی روشنی میں دیکھیں گے کہ ہدایت کا منبع کیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب سمجھ جاتے ہیں کہ میری قوم غلط طریقے پر چل رہی ہے تو وہ اپنی قوم سے قطع تعلق کرلیتے ہیں، اور اصل اور واحد خدا کو تلاش کرنے کی جستجو کرتے ہیں، اور وہ خدا جب ان کو مل جاتا ہے تو وہ ہدایت یاب ہوجاتے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ لینے جاتے ہیں، اللہ رب العزت ان سے ہم کلام ہوتا ہے، اور حضرت موسیٰؑ ہدایت حاصل کرلیتے ہیں۔ میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت کی تلاش میں غارِ حرا میں متمکن ہوجاتے ہیں، اپنے لوگوں کے طور طریقوں سے بے زار ہوکر علیحدگی اختیار کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ رابطہ کرتا ہے، اور ہدایت حاصل ہوجاتی ہے۔
اب غور فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر رسول کو نہ صرف یہ کہ روحانی ہدایت دے رہا ہے بلکہ زمین پر زندگی گزارنے کے طریقے بھی بتا رہا ہے۔ آدم علیہ السلام کو جانوروں کی کھال سے لباس بنانا سکھاتا ہے، پتھر سے آگ پیدا کرنا سکھاتا ہے، تو دائود علیہ السلام کو لوہے کی زرہ بنانا سکھاتا ہے، کسی رسول کے ذریعے کھیتی باڑی سکھائی، تو کسی رسول نے طب کی ابتدا کی۔ ہم سارے رسولوں کو نہیں جانتے، مگر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ذمے داری پہچانتا ہے اور انسان کو ہر طرح کی ہدایت بہم پہنچانتا ہے۔ اصل منبع ’’اللہ‘‘ ہے۔
کیا نوحؑ کے انتقال کے بعد ہدایت آنی رک گئی؟ نہیں۔ نوحؑ کا انتقال ہوا تو اللہ نے دوسرے نبی کو بھیج دیا۔ گمراہ کون تھا؟ گمراہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کے بُت بناکر ان بتوں کی عبادت شروع کردی اور حضرت نوح علیہ السلام کے اصل مقصدِ زندگی یعنی ’’اللہ کی طرف رجوع‘‘ کو پسِ پشت ڈال دیا اور ان کی ہدایات سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی۔
کیا اصحابِ کہف کے انتقال کے بعد ہدایت رک گئی؟ حالاں کہ ان کے مزاروں کو معبد بناکر ان مزاروں کی عبادت شروع کردی گئی، مگر اللہ نے ان کے بعد رسول بھیجے اور ہدایت جاری رہی، کیونکہ ہدایت کا منبع اللہ ہے۔ کوئی رسول، کوئی نبی انسانوں سے رابطے کا ذریعے ہوتا ہے، کسی بھی رسول کے انتقال سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور ہدایت کا کام جاری رہتا ہے، کیونکہ اللہ زندہ و تابندہ ہے، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، رسول کے انتقال کے بعد اس کا کام ختم ہوگیا، اب ہمارا رابطہ اللہ سے رہے گا، اور اس رسول کی ہدایات اور تعلیمات پر مکمل عمل ہی اللہ اور اُس رسول سے محبت کا ثبوت قرار پائے گا۔
کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو مشرک و کافر تھے؟ نہیں! مشرک و کافر وہ عیسائی قرار پائے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عبادت کرتے تھے، ان کی پیدائش کا جشن مناتے تھے، ان سے دعائیں مانگتے تھے، ان کی مدح میں گیت گاتے تھے، لیکن ان کی فرماں برداری کے لیے تیار نہیں تھے۔ اور جن عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا نبی جانا اور عشقِ حقیقی کی سمت اللہ کے نبی کے بجائے اللہ جل شانہٗ کی جانب رکھی، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تمام احکامات کی تعمیل مکمل عقیدت کے ساتھ کی، وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصل پیرو اور مومن قرار پائے۔ محبت کا مرکز ’’اللہ‘‘ ہے، باقی سب شرک ہے۔
میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ پہلے طریقہ یہ ہوتا تھا کہ ایک نبی کی پیروی اُس کے انتقال کے بعد اُس وقت تک جاری رکھی جائے جب تک کوئی نیا پیغمبر آکر اللہ کی تازہ ترین ہدایت نہ پہنچا دے۔ جب نیا رسول آگیا تو پچھلے نبی کی تعلیمات کو خیرباد کہہ کر، حاضر رسول کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ یہ ایک اصول تھا، جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد یہودیوں کو ان کو قبول کرنا چاہیے تھا اور پچھلے انبیا کی شریعت میں اگر حضرت عیسیٰ ؑ نے کوئی تبدیلی اللہ کے حکم سے کی تو اسے بھی قبول کرنا چاہیے تھا۔ مگر وہ نام لیتے رہے پچھلے انبیا کا کہ ہم اُن کی مانیں گے، عیسیٰؑ کی نہیں۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ اُن رسولوں کے بھی نافرمان تھے اور حضرت عیسیٰؑ کو بھی نعوذ باللہ قتل کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کے احکام نہ ماننے پڑیں۔
اسی طرح جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہدایت دینی شروع کی تو یہودیوں اور عیسائیوں کو پہلے مخاطب کیا، کیونکہ وہ پہلے رسولوں کو مان چکے تھے اور اب ان کو اصولاً اللہ کی تازہ ترین ہدایات کو اپنی الہامی کتب کی روشنی میں جانچ کر قبول کرلینا چاہیے تھا، تاکہ وہ ہر دور میں اُس دور کے مطابق بھیجی گئی اللہ تعالیٰ کی ہدایات سے اَپ ڈیٹ رہیں۔ مگر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے رسول کی حیثیت سے پہچاننے کے باوجود انہوں نے اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کا انکار یہ کہہ کر کیا کہ ہم تو موسیٰؑ کے پیرو ہیں، یا ہم عیسیٰؑ کے پیرو ہیں، اور ان کے سوا کسی کی اطاعت نہیںکریں گے۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ محض حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ سے عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے تھے، درحقیقت نہ وہ رسولوں کے تابعدار تھے نہ اللہ تعالیٰ کے۔ وہ صرف اپنے نفس کی غلامی کرتے تھے اور مذہب کے نام پر صرف چند رسومات اور عبادات کو اپنائے ہوئے تھے۔ درحقیقت اخلاقی اور روحانی اعتبار سے وہ کافروں سے بھی بدتر تھے، اور اپنے رسول سے عقیدت کا اظہار محض ایک پردہ تھا جو انہوں نے اپنے کرتوت چھپانے کے لیے ڈال رکھا تھا۔ بے شک اللہ سب علم رکھتا ہے۔
ان عیسائیوں اور یہودیوں نے اپنے اُن رسولوں کی محبت میں جانیں بھی دیں جن کا کبھی کوئی حکم نہ مانا۔ غزوۂ تبوک سے لے کر صلیبی جنگوں تک، عیسائیوں کے حضرت عیسیٰؑ اور صلیب کے نام پر جان دینے کی تاریخ رقم ہے۔ وہ حضرت عیسیٰؑ جو کہتے تھے کہ اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو اپنا دوسرا گال آگے کردو، ان کے ماننے والوں نے فلسطین کے حصول کے لیے بیت المقدس میں مسلمانوں کا اتنا خون بہایا کہ خون کے بہائو کی کثرت کی وجہ سے گھوڑے بیت المقدس میں چل نہیں پاتے تھے۔ شراب، زنا، حرام خوری، غیبت، جھوٹ، خیانت سب کچھ اپنائے ہوئے یہ عیسائی حضرت عیسیٰؑ کے نام پر جان دینے کو نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ یہ جان دینا کوئی روحانی بلندی کے سبب نہ تھا، یہ جان دینا ایسا ہی تھا جیسے کوئی اپنے مک کی محبت میں جان دے، یا قومیت کی حمیت میں جان دے۔ مذہبی گروپ کے سردار کی حیثیت سے حضرت عیسیٰؑ کے نام پر بھی بہت سے عیسائیوں نے جانیں دیں۔ یہ جنگیں مسلمانوں سے زیادہ یہودیوں سے ہوئیں جو سچ مچ شرپسند تھے اور عیسائی بلاشک یہودیوں سے بہتر لوگ تھے۔ اللہ کے سوا کسی کے نام پر جان دینا شرک ہے چاہے سبب کچھ بھی ہو اور دشمن کوئی بھی ہو۔ بے شک اللہ بہترین فیصلہ ساز اور دلوں کا حال جاننے والا ہے، وہی اس لائق ہے کہ تمام محبتوں کا مرکز ہو۔ بے شک ہم شرک سے باز آئے اور ہم اللہ کے تمام رسولوں کو مانتے ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرماں بردار ہیں۔
کیا سبب ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ، حضرت صلاح الدین ایوبیؒ، حضرت طارق بن زیادؒ، حضرت محمد بن قاسمؒ کے ادوار میں کسی کی ہمت نہیں تھی کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے خلاف کوئی لفظ منہ سے نکالے؟ سبب یہ ہے کہ یہ لوگ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سپاہی تھے، ان کی زندگیاں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا چلتا پھرتا نمونہ تھیں، مگر جانیں یہ صرف اللہ کے نام پر دیتے تھے، ان کے جیتے جی کسی کی ہمت نہیں تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی نازیبا الفاظ کہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہدایت جاری ہے، کوئی اور نبی اللہ کی ہدایت ہم تک پہنچا دے گا۔ اللہ کی طرف سے اب ہم پیغام پہنچانے والے ہیں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا کہ میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا، اب تم کو اللہ کا پیغام آگے پہنچانا ہے۔ مگر ہم اللہ سے ناتا توڑ بیٹھے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اعلان تو کرتے ہیں مگر میں نے کسی کو کہتے نہیں سنا کہ ’’مجھے اللہ سے محبت ہے‘‘۔ ہم سب اب اللہ کے نبی کے درجے میں ہیں کیونکہ اگلا رسول کوئی نہیں آئے گا، ہمیں پیغام آگے پہنچانا ہے، ہمیں اللہ کا دین دنیا میں ایسے ہی نافذ کرنا ہے جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں کیا تھا۔ یہ ہوتی ہے محبت۔
اتنی شدید محبت کہ ہم سے اللہ رابطہ کرے، جیسے رابعہ بصریؒ سے کیا تھا جو کہ نبی نہیں تھیں۔ ہم سے اللہ کام لے، جیسے صلاح الدین ایوبیؒ سے لیا۔ آج کیوں ہم میں کوئی محمد بن قاسم یا صلاح الدین ایوبی پید انہیں ہوتا؟ کیونکہ ہماری محبتیں جھوٹی اور ایمان کھوٹے ہیں۔
ساری زندگی مسجد میں نعتیں پڑھنے اور وظیفے بانٹنے والے سے زیادہ مومن میں اُس ادنیٰ سپاہی کو سمجھتی ہوں جو سیاچن کی برف میں 18 گھنٹے کھڑے ہوکر ڈیوٹی دیتا ہے، اُس عورت کو سمجھتی ہوں جو اپنے چار بچوں کے ساتھ ایک یتیم بچی کو پال کر جوان کردیتی ہے۔ یہ ہوتی ہے محبت، ایسی ہوتی ہے محبت۔

وہ کون ہے جس نے پانی برسایا، سر سبز باغ اُگائے؟
کیا کوئی اور بھی معبود ہے؟ کیا تم درختوں کو اُگاتے ہو؟
کس نے زمین کو گھر بنایا، نہریں بنائیں اور پہاڑ بنائے؟
دو دریائوں کے بیچ اوٹ بنائی، عقل سے کام نہیں لیتے ہو
کون بے قرار کی التجا سنتا ہے؟ جب تم دعائیں کرتے ہو
کون تم کو وراثت میں دے دیتا ہے؟ جو تم نہیں کماتے ہو
کیا کوئی اور بھی تیرا خدا ہے؟ مگر تم بہت کم غور کرتے ہو
کون جنگلوں میں، سمندروں میں، تم کو رستہ بتاتا ہے؟
وہ رب اُس سے بہت بلند ہے جو شرک تم کرتے ہو
کون پہلی بار تخلیق کرتا ہے؟ پھر بار بار پیدا کرتا ہے؟
کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین میں رزق دیتا ہے؟
اللہ کے علاوہ یہ سب کام کون کون تیرے لیے کرتا ہے؟
کیا کوئی اور بھی خدا ہے؟ لائو کیا ثبوت پیش کرتے ہو؟

حصہ