حسنِ قدیم کی ایک پوشیدہ جھلک

684

عائشہ صدف… ہیوسٹن
ہمارا ہوٹل مشرقی یروشلم میں، جو مسلم اکثریتی علاقہ ہے، واقع تھا۔ برادر حسن کا خیال تھا کہ اس ہوٹل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کسی گاڑی سواری کا انتظام نہیں کرنا پڑتا۔ جب دل چاہے انسان پیدل چل پڑے۔ یروشلم جیسے تاریخی شہر کو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے، بازار کی رونقوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مسجد اقصیٰ پہنچ جائے۔
آج کا دن یروشلم کے نام تھا۔نماز فجر مسجد اقصیٰ میں ادا کرنے کی نیت سے ساڑھے چار بجے سے اٹھ کر تیاری شروع کی۔ سردی سے حفاظت کا خوب اچھی طرح انتظام کیا۔ پچھلا تجربہ کام آیا۔ بچوں کو بھی اور خود بھی کئی Layers پہنیں۔ ہوٹل کی لابی میں پہنچے تو برادر حسن پہلے سے منتظر تھے۔
باہر نکلتے ہی اندازہ ہوا کہ سردی خوب کاٹنے والی تھی، اندر تک ہڈیاں بھی ٹھنڈ محسوس کررہی تھیں۔ مگر پہلے سے کی ہوئی تیاری نے خوب مدد کی۔ سڑکوں پر اکادکا گاڑیوں کی آمدورفت تھی مگر مجموعی طور پر پورا راستہ سنسان ہی تھا۔ خانہ کعبہ یا مسجد نبویؐ میں جو تہجد کے وقت رونق ہوتی ہے، اس کا عشر عشیر بھی نہ تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف پیدل چلنے والوں کے لئے کشادہ فٹ پاتھ تھا، جو سفید رنگ کے مستطیل پتھروں کو خوبصورتی سے چن کر بنایا گیا تھا۔ یہ سارا علاقہ نیا کہلاتا ہے مگر اندھیرے میں ڈوبی عمارتوں سے کوئی خاص اندازہ نہیں ہورہا تھا۔
تقریبا آدھا راستہ طے کرنے کے بعدسامنے دور قدیم یروشلم کی اونچی فصیل نظر آنے لگی۔ یہ عثمانی دور کے خلیفہ سلطان سلیمان قانونی اول کے دور کی نشانی ہے۔ پَو پھٹنے سے پہلے کا اندھیرا، یروشلم شہر اور یہ اونچی فصیل مل کر مجھے چھ سو سال پرانے زمانے میں کھینچ کر لے جارہے تھے۔ مگر گھوڑوں کی ٹاپوں کے بجائے گاڑی کے ٹائروں کی آوازیں، مشعل برداروں کے بجائے اسٹریٹ لائٹس کی روشنیاں مجھے روک رہی تھیں۔ کتنی مضبوط تھی یہ فصیل جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے باوجود اب تک قائم ہے مگر اس کے باوجود اپنے باسیوں کو امن و سکون مہیا نہیں کرسکی۔ ماضی بعید میں ہونے والی تمام بڑی جنگوں میں یہ شہر لڑائی کا اہم مرکز رہا ہے۔ اس پر قبضہ کرنا حکمرانوں کی اولین خواہش رہی ہے۔ برکتوں والی سرزمین جہاں انبیاکرامؑ متواتر مبعوث ہوئے۔ سیدنا عمرؓ بن خطاب کے دور خلافت میں، سیدنا عمروؓ بن العاص نے یروشلم کےآس پاس کا ساراعلاقہ فتح کرلیا تھا ۔لیکن یروشلم شہر کے پادری نے مطالبہ کیا تھا کہ ان کی مقدس کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ شہر فاتح قوم کے بہترین آدمی کے لئے ہتھیار ڈالے گا۔ لہٰذا سیدنا عمرؓ بن خطاب خود آکر چابیاں وصول کریں گے تو وہ لوگ کسی قسم کی مزاحمت نہیں کریں گے۔ لہٰذا سیدنا عمرؓ کو خبر دی گئی تو وہ اپنے غلام کے ہمراہ مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے۔ جب وہ شہر کے قریب پہنچے تو اس حال میں تھے کہ کپڑوں میں بیوند لگے تھے، ایک اونٹ تھا جس میں وہ اور ان کا غلام باری باری سواری کررہے تھے اور اس وقت غلام کی باری تھی۔ مسلمان جرنیلوں نے کپڑے تبدیل کرنے کا مشورہ دیا مگر انہوں نے انکار کردیا کہ مجھے عزت اسلام نے دی ہے، کپڑوں نے نہیں۔ عیسائی پادری بھی مسلمانوں کے امیرالمومنینؓ کو اس حلیے میں دیکھ کر ششدر رہ گئے اور بغیر حیل و حجت کے چابیاں ان کے حوالے کردیں۔ اب کہاں سے ڈھونڈوں ایسے حکمران جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ عزت و دولت کے پیمانے بدل دیئے۔ امن و انصاف کا چرچا عام کردیا۔ ’کاش موجودہ خوںآشام دور میں پیدائش کے بجائے اُس سلامتی والی حکومت کے شہری ہوتے۔‘ دل میں ایک آس سی اٹھی۔ پھر خود ہی اپنے آپ کو تسلی دی کہ مالک ارض و سماء کو بہتر علم ہے کہ ہمیں کب، کہاں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
جیسے جیسے فصیل قریب آرہی تھی دل پر ایک ہیبت طاری ہورہی تھی۔ دور سے باب عمود (Damascus Gate) نظر آرہا تھا۔ پرانے زمانے میں یہاں سے سڑک سیدھی شام جاتی تھی، اسی لئے اس کا نام Damascus Gate پڑگیا تھا۔ کافی سیڑھیاں نیچے اتر کر دروازہ سے اندر داخل ہونا تھا مگر سیڑھیاں کافی آرام دہ تھیں اور ایک طرف ramp بھی بنا ہوا تھا، جو خیال ہوا کہ اسٹرالرز اور وہیل چیئرز کے لئے بنایا گیا ہوگا مگر بعد میں یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ دن کی روشنی میں جب ہم یروشلم شہر کے اندر گھومے تو اندازہ ہوا کہ یہ پورا بازار ہے اور یہاں گاڑی یا ٹرک کی آمدورفت تقریباً ناممکن ہے کیونکہ ہر تھوڑی دیر بعد کچھ سیڑھیاں اتر کر مزید نیچے اترتا پڑتا ہے۔ لہٰذا ہر جگہ سیڑھیوں کے ساتھ اسی طرح کے ramp بنے ہیں تاکہ چھوٹی چھوٹی carts کے ذریعے سامان کی ترسیل کا سلسلہ جاری رہے۔
دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی بازار شروع ہوگیا۔ پتلی پتلی راہداریاں تھیں۔ زرد روشنی میں خاموشی نے ہر طرف ڈیرے جمائے ہوئے تھے۔ ذرا آگے بڑھے تو چھوٹے چھوٹے بنکرز نظر آرہے تھے جن میں اسرائیلی فوجی خوش گپیوں میں مگن تھے۔ ہمارے اوپر بھی اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی اور پھر مصروف ہوگئے۔ ہمیں پہلے ہی تاکید کردی گئی تھی کہ جب بھی ہوٹل سے باہر نکلیں، اپنے پاسپورٹ اپنے ساتھ رکھیں۔ کہیں بھی روک کر مانگے جاسکتے ہیں اور جہاں اسرائیلی فوجی دکھائی دیں تو انگلش یا اردو میں بات کرنے سے گریز کیا جائے، بہتر ہے کہ خاموش رہیں ورنہ وہ خوامخواہ شک میں مبتلا ہوکر ہمارا راستہ کھوٹا کریں گے۔
بازار ختم ہوا تو سامنے ایک دروازہ تھا، باب القطانن ، Cotton Merchant’s Gate اس کے ذریعے حرم شریف میں داخل ہوئے تو مسجد اقصیٰ کا خوبصورت وسیع صحن تھا۔ اسی دوران فجر کی اذان کی دلوں کو چھوتی آواز نے خاموشی کو توڑ دیا۔ ایک عجب سماں بندھ گیا۔ نسیم حجازی کےناولز پڑھ کر الحمراء اور اندلس کا جو تصور ذہن میں تھا, اس پر یہ مقام پورا اتر رہا تھا۔ دل ایک دفعہ پھر ہوک اٹھی ’کاش! میں اس منظر کا حصہ بن جائوں‘ مگر دوسرے ہی لمحے اس خیال کوبھی دل نے خود ہی رَد کردیا۔ کیا میں آزادی اور غلامی کے بین بین رہنے کا تجربہ کرسکتی ہوں؟ راستے کے دونوں اطراف گھنے درخت تھے۔ صحن میں آگے بڑھے تو سبز رنگ کی جالیاں دائرے کی صورت میں نظر آئیں۔ قریب جانے پر اندازہ ہوا، یہ ایک بڑے ٹینک کے گرد ٹوٹیاں لگاکر اور بیٹھنے کے لئے سیمنٹ کی سیٹیں بناکر پورا وضو خانہ بنایا گیا ہے۔ کھلی فضا میں یخ بستہ پانی سے وضو کرنے کے لئے کوئی قربانی دینے کو تیار نہ تھا لہٰذا وضو خانہ خالی پڑا تھا۔
وسیع صحن کے اختتام پر مسجد اقصیٰ نظر آرہی تھی۔ محرابوں کے ذریعہ مسجد کے دس پندرہ فٹ چوڑے برآمدے میں داخل ہوئے۔اسٹرالرپارک کیا، جوتوں کو ستونوں کے ساتھ موجود ریک میں رکھا اور لکڑی کے بڑے بڑے سبز رنگ کے دو چوبی دروازوں میں سے ایک کے ذریعے اندر داخل ہوئے۔ سیدھے ہاتھ پر شروع ہی میں رسیوں کے ذریعے عورتوں کا علاقہ مخصوص کردیا گیا تھا۔ لہٰذا میں بیٹیوں کے ساتھ وہیں ٹھہر گئی۔ مردوں کو چل کر کافی آگے جانا پڑا۔ نمازیوں کی قلیل تعداد کی وجہ سے تقریباً پورا ہال خالی پڑا تھا۔ عورتیں بھی مشکل سے پچاس ساٹھ ہی ہوں گی، ان میں بھی زیادہ تر مقامی، درمیانی اور بڑی عمر کی خواتین تھیں۔ بچے تو اکا دکا ہی تھے۔ کوئی شور ہنگامہ، دھکم پیل نہ تھی۔ خاموشی سے تین چار صفیں ترتیب دے لی گئیں۔ روح پرور ماحول میں نمازِ فجر ادا کی، امام قرآن میں ڈوب کر پڑھ رہا تھا۔ اس کے بعد دو رکعت قنوتِ نازلہ ادا کی گئی۔ یہ نمازِ فجر کے بعد یہاں معمول ہے۔
نماز ختم ہوئی تو خواتین اپنے بیگز سے کینڈیز اور کھجوریں نکال کر بچوں کی محبت میں دینے لگیں۔ ذراسی دیر میں اچھا خاصا اسٹاک جمع ہوگیا۔ بچوں کو فجر میں دیکھ کر ان کے چہرے خوشی سے کھلے ہوئے تھے۔ دروازے کے نزدیک ہونے کی وجہ سے خوب ٹھنڈک ہورہی تھی بلکہ باہر کے مقابلے میں شاید اندر سردی زیادہ ہی تھی۔ محبت کی ماری ایک خاتون نے اپنا چھوٹا سا کمبل اتار کر زبردستی ہمارے حوالے کردیا۔ اشاروں کنایوں میں سمجھانے کی کوشش کی کہ ضرورت نہیں ہے مگر وہ مصر رہیں۔ اسی دوران باتوں کی آوازیں آنے پرپیچھے مڑ کر دیکھا تو آٹھ دس خواتین مل کر قرآن سمجھ رہی تھیں۔ ان کے ساتھ ذرا دیر کو بیٹھی مگر
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
ارض فلسطین میں جتنی مساجد میں گئے ہر جگہ سرخ رنگ کے دیدہ زیب قالین سے فرش کو مزین پایا۔ مسجد اقصی میں بھی یہی تھا۔ مسجد کے وسیع ہال میں تقریباً پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش تھی۔ سفید پتھروں کے گول اور چوکور موٹے موٹے ستونوں کے ذریعے چھت کو مضبوط کیا گیا ہے اور ہر دو ستونوں کے درمیان محراب بنادی گئی ہے۔ لہٰذا محرابوں کی نہایت کثرت ہے۔ دیواریں سفید رنگ کی ہیں۔ اصل عثمانی طرز تعمیر کو برقرار رکھا گیا ہے۔ مجموعی طور پر سادگی کافی نمایاں ہے۔ یہاں بڑی آسانی سے انسان ہزار بارہ سو سال پرانے عہد میں سانس لینے لگتا ہے۔ غم و الم اس کی فضائوں میں گھلا ہوا ہے، شاید یہ میرے ذہن کی پیداوار ہوگا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہاں کی سرزمین گویائی کی صلاحیت نہ ہونے کے باوجود اپنے اوپر ہونے والے مظالم بیان کررہی ہے۔ کانوں میں اس کی گھٹی گھٹی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ اس کے آنسو اپنے دل پر گرتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔ کیسی قیمتی، انمول مسجد اور کیسی بے قدری۔ مکہ و مدینہ میں تو ایسی ریل پیل ہے کہ کھوے سے کھوا چھل رہا ہوتا ہے۔ لوگوں کا اژدھام ہوتا ہے۔ پوری دنیا سے لوگ کشاں کشاں زیارت کو چلے آتے ہیں۔ یہ بھی تو اسی پائے کی مسجد ہے۔ اہل اسلام کے لئے تیسری اہم مسجد، ایک نماز کا ثواب پانچ سو نمازوں کے برابر مگر انبیاء کی یہ سرزمین ہم مسلمانوں کی توجہ سے محروم ہے۔ ہم اس کو بھولے ہیں مگر دوسروں نے اس کو یاد رکھا ہے۔
ضحی کی دو رکعت ادا کرکے مسجد سے باہر نکلے تو سورج کی ہلکی ہلکی روشنی چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ قبۃ الصخریٰ Dome of the Rock بھی سامنے ہی دکھائی دے رہا تھا۔ اس کا سنہرا گنبد سورج کی کرنوں سے دمک رہا تھا۔ نہ جانے آتے ہوئے کیوں نہ دکھائی دیا تھا۔ یہ مسجد اقصیٰ کے صحن کی زینت ہے لیکن تھوڑی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کی طرف ہے۔ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ نہایت ہی حسین نقش و نگار ہیں جو عثمانی خلیفہ مروان بن عبدالملک کے دور کی نشانی ہے۔ اس کے متعلق مشہور ہے کہ سیدنا عمرؓ بن الخطاب جب یہاں آئے تھے تو یہ کوڑے کرکٹ سے اٹا پڑا تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ مل کر انہوں نے یہاں کی بھی صفائی کی تھی۔ دو رکعت نماز ادا کی اور مسجد تعمیر کی۔ روایت کے مطابق یہی وہ مقام ہے جہاں زمین معراج کے موقع پر نبیﷺ کے قدم مبارک سے چمٹ گئی تھی۔ بعض کہتے ہیں نبیﷺ اور بعض کے بقول جبریل امین نے زمین کو تھپک کر قدم مبارک سے جدا کیا تھا۔ یہودیوں کے یہاں بھی یہ نہایت محترم ہے۔ ان کی مقدس کتابوں میں یہ وہ جگہ ہے جہاں سیدنا سلیمانؑ کے محل کا وہ کمرہ تھا جس میں تابوت سکینہ محفوظ تھا اور یہی وہ مقدس پتھر ہے جہاں سیدنا ابراہیمؑ نے سیدنا اسماعیلؐ کی قربانی دی تھی۔ یہ جگہ Holy of the holliest کہلاتی ہے لہٰذا اکثر یہودی فرقوں کے نزدیک اس جگہ قدم نہیں رکھے جاسکتے۔
مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخریٰ کا موازنہ کیا تو خوبصورتی میں مسجد اقصیٰ کا اس سے کوئی مقابلہ نہیں۔ مگر اس کی سادگی کا حسن دل میں گھر کرلیتا ہے۔ اس میں انبیا کرامؑ کی خوشبو ہے جو آپ کو جکڑ لیتی ہے۔ خود نکل آئو مگر دل وہیں رہ جاتا ہے۔ یہاں سےنکلنے کے بعد ویسا ہی احساس ہورہا تھا جیسا خانہ کعبہ یا مسجد نبوی سے نکلتے ہوئے ہوتا ہے۔ دل مچل رہا تھا کہ اس کی دیواروں سے لپٹ کر روئوں۔ اس کو دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی درد ناک داستان سنائوں۔ مسلمانوں کے اس جسد واحد کی داستان سنائوں جس کے ہر عضو سے خون ٹپک رہا ہے یا اس کی محرومی و بے کسی کی داستان سنوں۔ اس کو اپنے غم میں شریک کروں یا اس کے غم میں اس کو تسلی دوں۔ غم تو ہم دونوں کا سانجھا ہے۔ مسلم امہ اور مسجد اقصیٰ یکساں کرب سے گزر رہے ہیں۔ بے بسی کا احساس دل میں کچوکے لگا رہا تھا۔ محرومیوں کا ازالہ کیسے ہوگا؟ کون کرے گا؟ مسجد اقصیٰ کی حزن و ملال میں ڈوبی تصویر دل پر نقش ہوگئی۔
سورج کی آمد سے جہاں اندھیرے چھٹنے شروع ہوئے، وہیں سردی کے احساس میں بھی کمی واقع ہوگئی۔ صحن میں لگے ہوئے پرانے درختوں میں زیتون کے درخت نمایاں تھے۔ ایک زیتون توڑ کر چکھا۔ اللہ کی پناہ! اتنا کڑوا کسیلا کہ اسی وقت تھوکنا پڑا۔ بات کرنے سے اندازہ ہوا کہ بازار میں جو زیتون دستیاب ہوتے ہیں، وہ خاص طرح سے processکئے جاتے ہیں ورنہ ان کا اصل ذائقہ تو یہی ہے۔
قبۃ الصخریٰ میں جانے کا ارادہ ابھی ملتوی کیا۔ بچے تھک گئے تھے اور میرے پیٹ میں اب چوہے دوڑ رہے تھے لہٰذا طے پایا کہ نہا دھوکر اور ناشتہ کرکے یہ علاقہ پورا گھومیں گے۔ واپسی میں اندازہ ہوا کہ بازار میں صبح سات بجے ہی کاروبار شروع ہوگیا تھا تاکہ اندھیرا پھیلنے پر لوگ اپنے اپنے گھروں کو جاسکیں (جاری ہے)

حصہ