مشاعرے ہماری تہذیبی روایات کے آئینہ دار ہیں‘ عرفان سعادت

930

ڈاکٹر نثار احمد نثار
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کراچی کی ادبی کمیٹی نے اپنی روایت کو برقراررکھتے ہوئے اس سال تیسرا ’’کُل پاکستان مشاعرہ‘‘ منعقد کیا۔ ہائی کورٹ بار کی ادبی کمیٹی جس کے صدر محمد سلیم منگریو‘ کنوینر سید توقیر حسن اور سیکرٹری ریحان عزیز ملک ہیں‘ اپنے اراکین ایڈووکیٹ مسلم شمیم‘ سید شجاع عباس‘ خلیل احمد خلیل‘ جاوید احمد قاضی‘ چوہدری وسیم اختر اور ملک دشتی کے تعاون سے یہ عظیم الشان مشاعرہ منعقد کرتے ہیں اور یہ کمیٹی اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ اردو دنیا کے سینئر اور معتبر شعرا کو مدعو کیا جائے۔ لہٰذا اس سال کے مشاعرے میں جو شعرا مدعو کیے گئے ان میں صدرِ مشاعرہ ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی‘ اعجاز رحمانی‘ سحر انصاری‘ جاذب قریشی‘ پروفیسر عنایت علی خان‘ انور شعور‘ طارق سبزواری‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ عارف شفیق‘ اکرم کنجاہی‘ سلمان صدیقی، حجاب عباسی‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ ڈاکٹر عنبرین حسین عنبر‘ سعید آغا‘ قیصر وجدی‘ اشرف شاد‘ شاعر علی شاعر‘ ڈاکٹر انیس الرحمن‘ حکیم ناصف اور ارم زہرہ شامل ہیں۔ مشاعرے کے مہمانِ خصوصی جناب جسٹس عرفان سعادت خان سینئر پیونی جج ہائی کورٹ آف سندھ تھے، جب کہ مشاعرے کی نظامت کے فرائض سلمان صدیقی اور حکیم ناصف نے انجام دیے۔ مشاعرے کی ابتدا میں خیر مقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے ادبی کمیٹی کے کنوینر ایڈووکیٹ سید توقیر حسن نے اپنے اس ارادے کا اظہار کیا کہ سامع‘ وکلا اور ججوں کی اتنی بڑی تعداد ملک کے نامور شعرا کو سماعت کرنے کے لیے یہاں موجود ہے، مجھے اور میری کمیٹی کے اراکین کو اس سے مشاعرے کی اس روایت کو سال بہ سال آگے بڑھانے کے لیے بہت حوصلہ ملا ہے۔ مشاعرے کے اختتامی مرحلے پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی جسٹس جناب عرفان سعادت خان سینئر جج ہائی کورٹ آف سندھ نے کہا کہ کامیاب مشاعرے کے لیے اچھے شاعری اور اچھے سامع کا ہونا بہت ضروری ہے۔ آج کے مشاعرے میں شاعروں نے شاعری اور سامعین نے سماعت کا حق ادا کر دیا۔ صدرِ محفل ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے مشاعرے کی روایت کو ہائی کورٹ کے ایوان میں تازہ کرنے کو ایک تابندہ روایت قرار دیا اور اس کے تسلسل کے لیے خوش امیدی ظاہری کی۔ اس موقع پر مہمانِ خصوصی کے دست ِمبارک سے شعرا کو یادگاری شیلڈز اور اجرک پیش کی گئیں۔ شیلڈز اور اجرک حاصل کرنے والوں میں ہائی کورٹ کے سینئر ججز اور ادبی کمیٹی کے اراکین بھی شامل تھے۔ مشاعرے میں پڑھے جانے والے چند منتخب اشعار پیش خدمت ہیں:

اپنی قسمت میں لکھا ہے جو یہ ہارا ہوا دن
چلیے اک اور گزاریں گے گزارا ہو دن
(ڈاکٹر پیرزادہ قاسم)
فصیلِ شہر میں پیدا کیا ہے در میں نے
کسی بھی بابِ رعایت سے میں نہیں آیا
(سحر انصاری
کشتیاں تو ہوئیں غرق ہر دور میں
نا خدائوں کو بھی اب ڈوبنا چاہیے
(اعجاز رحمانی)
میری چھت پر کوئی آواز گری
پھر کوئی زخمی کبوتر آیا
(جاذب قریشی)
ہم نے بنا دیا ہے تمہیں ایک شاہکار
اب ہم تمہارے نام سے پہچانے جائیں گے
(انور شعور)
گویا کہ موت زندگیِ جاوداں نہیں
کچھ اس طرح سے موت طلب کر رہے ہیں لوگ
(جسٹس محب اللہ صدیقی)
پوری ہوں ادھوری ہوں نہ کمتر ہوں نہ برتر
انسان ہوں انسان کے معیار میں دیکھیں
(ڈاکٹر فاطمہ حسن)
نقشِ قدم پہ ان کے چلا ہوں تمام عمر
جو لوگ زندہ رہتے ہیں مرنے کے بعد بھی
(عارف شفیق)
رلا دیا ہے تو اب اشک پونچھنے کے بعد
گلے لگا کے ہمیں پیار کر کے جایئے گا
(سلمان صدیقی)
تعلق جو بھی رکھو سوچ لینا
کہ ہم رشتہ نبھانا جانتے ہیں
(عنبرین حسیب عنبر)

بزم رابطہ کے زیر اہتمام ظہورالاسلام جاوید کے اعزاز میں مشاعرہ

ادبی تنظیم بزم رابطہ کے زیر اہتمام ابوظہبی سے تشریف لائے ہوئے معروف شاعر و صحافی ظہورالاسلام جاوید کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی۔ کے ڈی اے آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی میں منعقدہ اس پروگرام کی صدارت انور شعور نے کی۔ عنبرین حسیب عنبر مہمانِ خصوصی تھیں، جب کہ ہدایت سائر اور فرح اظہار نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ انور شعور نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ظہورالاسلام جاوید ہمہ جہت شخصیت ہیں، وہ شاعر ہیں، صحافی ہیں اور بہترین ایڈمنسٹریٹر بھی۔ انہوں نے پاکستان آر می کے شعبہ انجینئرنگ سے ریٹائرمنٹ کے بعد دبئی میں رہائش اختیار کی، انہوں نے حصولِ معاش کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے دن رات کام کیا، اب یہ صورتِ حال ہے کہ عالمی اردو مشاعروں کے آرگنائزر ظہورالاسلام جاوید عرب امارات کی ریاستوں میں منعقد ہونے والی ادبی تقریبات کی ضرورت بن گئے ہیں، اس کے علاوہ آپ اردو بستیوں میں ہونے والے ادبی پروگراموں میں بھی نام کما رہے ہیں۔ انہوں نے 17 مئی 2002ء کو ابوظہبی میں پہلے عالمی مشاعرے کا اہتمام کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ صاحبِ صدر نے مزید کہا کہ ظہورالاسلام جاوید کی شاعری آسان فہم، دل کش اور خوب صورت استعاروں کا محور ہے، انہوں نے اپنے کلام میں بہت سے تجربوں کو نظم کیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے بھرپور زندگی گزاری ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات میں جو جدت پسندی اور صداقتیں دکھائی دیتی ہیں وہ انہیں اپنے ہم عصر شعرا سے ممتاز کرتی ہیں۔ عنبرین حسیب عنبر نے کہا کہ ظہورالاسلام جاوید علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں، ان کے والد صاحب قادرالکلام شاعر تھے، شاعری ان کے خون میں دوڑ رہی ہے، انہوں نے اپنی قابلیت اور محنت سے ادبی دنیا میں اپنی شناخت بنائی ہے، ان کی شاعری ایک دردمند، حساس اور ذہین آدمی کا اظہار ہے، ان کی کلاسیکی غزلوں میں غمِ جاناں اور غمِ دوراں موجود ہے، ان کی لفظیات اور استعارے قابلِ ستائش ہیں۔ ممتاز شاعر و ٹی وی اینکر اور ’’محبت راستے میں ہے‘‘ (مجموعہ غزل) کے خالق وجیہ ثانی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ظہورالاسلام جاوید کی غزلوں کے مجموعے کا نام ’’موسم کا اعتبار نہیں‘‘ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے، ان کے فن اور شخصیت پر ڈاکٹر کلیم قیصر اور اشفاق احمد عمر کی مرتب کردہ کتاب ’’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا‘‘ پڑھنے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ظہورالاسلام جاوید نے اردو ادب کی کس قدر خدمت کی ہے۔ انہوں نے ابوظہبی کو عالمی سطح پر اردو زبان و ادب کا مرکز بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، یہ آسمانِ ادب کے مہر تاباں ہیں۔ ایک موقع پر جب عرب امارات میں اردو ادب کا چراغ ٹمٹانے لگا تھا، ظہور بھائی نے اسے طوفانی ہوائوں سے بچاکر نئی زندگی دی، ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ صاحبِ اعزاز ظہورالاسلام جاوید نے اپنی غزلیں سنانے سے قبل کلماتِ تشکر ادا کیے، انہوں نے کہا کہ کراچی ہمارا گھر ہے، پاکستان میرا وطن ہے، میں جب بھی یہاں آتا ہوں تو مجھے بے شمار محبتیںملتی ہیں، میں ان سب لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے میرے اعزاز میں تقاریب منعقد کیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دبستانِ کراچی میں نوجوان نسل اب شاعری کی طرف راغب ہورہی ہے، اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ ادب روبہ زوال نہیں ہے بلکہ ہم اپنی ادبی اقدار کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جب سے کراچی میں امن وامان بہتر ہوا ہے تب سے ادبی پروگرام اپنے عروج پر ہیں، تاہم کراچی میں عالمی مشاعرے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمانِ خصوصی‘ مہمانِ اعزازی اور ناظمینِ مشاعرہ کے علاوہ وجیہ ثانی‘ کاشف ہاشمی‘ نوارہ مختار‘ کاشف حسین غائر اور دیگر نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ بزم رابطہ کی جانب سے مہمانوں کو گلدستے اور پُرتکلف عشائیہ پیش کیا گیا۔

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کا مذاکرہ و مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام مسلمانوں کے عظیم رہنما اور مصنف، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان کی یاد میں خصوصی لیکچر اور محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت کینیڈا سے آئے ہوئے معروف دانش ور، شاعر اشفاق حسین نے کی۔ مہمانِ خصوصی حیات النبی رضوی امروہوی تھے۔ اعزازی مہمان زینت کوثر لاکھانی تھیں۔ اس موقع پر صدرِ محفل اشفاق حسین نے کہا کہ سرسید احمد خان ساری عمر اپنوں اور غیروں کی تنقید کا ہدف رہے‘ مخالفین نے انہیں ایک لمحہ بھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیا، لیکن امتِ مسلمہ کی بہتری اور نشاۃ ثانیہ کی بحالی کے لیے انہوں نے جو کچھ اپنے دل میں ٹھان رکھا تھا اسے پورا کرکے ہی دم لیا۔ آج اطرافِ عالم میں ان کی جو پذیرائی اور قدر و منزلت ہے وہ اس عزم صمیم اور ثابت قدمی کے سبب ہے جس کا دامن ناگفتہ بہ اور ہمت شکن حالات کے باوجود انہوں نے مضبوطی سے اپنے ہاتھوں کی گرفت میں رکھا، اور پھر وقت نے ثابت کردیا کہ اگر نیت میں خلوص شامل ہو تو انسان کو اجر مل کر ہی رہتا ہے۔ مہمانِ خاص ح

یات النبی رضوی امروہوی نے کہا کہ سرسید احمد خان کی شخصیت کے کئی رخ ہیں، سید ہونے کے ناتے ان کا شجرۂ نسبت حضرت علیؓ سے جا ملتا ہے۔ 1817ء سے 1898ء کا دورِ حیات انہوں نے مسلمانوں کی علمی‘ فکری اور تہذیبی اقدار کو مرتب کرنے اور انہیں سر اٹھا کر جینے کے لائق بنانے میں گزارا، اس طرح آپ نے ایک جہانِ نو تعمیر کیا۔ مہمانِ اعزازی زینت کوثر لاکھانی نے کہا کہ آپ نے تعلیمی اداروں اور تعلیمی انجمنوں کی داغ بیل ڈالی، فنون کے ساتھ ساتھ علوم جدیدہ کی طرف راغب کیا، لیکن ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے خدمتِ خلق کرتے رہے، علی گڑھ یونیورسٹی، سائنٹفک سوسائٹی، مدرسۃ العلوم سرسید کے یادگار کارنامے ہیں، آج بھی نظریۂ پاکستان ان کی دین ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ مسلم قوم کے معمارِ اعظم، دو قومی نظریے کے خالق سرسید احمد خان کا شمار ایسی انقلاب آفرین شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے فکر و عمل کے ذریعے اپنی قوم کے فرسودہ خیالات اور جمود میں طغیانی پیدا کردی۔ آپ کایہ کارنامہ صدیوں یاد کیا جائے گا، آپ کی دور رس نگاہوں نے شاہراہ زندگی پر مشعل کا کام انجام دیا۔ ہندوستان کی نشاۃ ثانیہ میں ان کی شخصیت گوہر شب تاب ثابت ہوئی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برطانوی حکومت کے مظالم کے شکار ہزاروں معصوم اور بے گناہ انسانوں کی بے کسی اور مظلومیت کے عینی شاہد سرسید کا دل اس خونیں منظر کو دیکھ کر رو اٹھا اور وہ اپنی زندگی کے تمام منصوبوں اور ارادوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک تحریک کے ساتھ سامنے آئے۔ اس تحریک نے سرسید کی زندگی کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔ 1857ء کے تاریخی اور معاشرتی حالات نے سرسید کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا اور ان کے خیالات کا دھارا ہی بدل دیا۔
مشاعرے میں اشفاق حسین‘ حیات امروہوی‘ ڈاکٹر جاوید منظر‘ زینت کوثر لاکھانی‘ اوسط علی جعفری‘ عارف شیخ عارف‘ آصف علی آصف‘ رفیق مغل‘ تاج علی رعنا‘ شگفتہ شفیق‘ دل شاد احمد دہلوی‘ عاشق حسین شوق‘ علی کوثر‘ فہمیدہ مقبول‘ محمد اسلم بھٹی‘ آزاد حسین آزاد‘ الطاف احمد‘ اقبال رضوی نے اپنا کلام سنا کر سرسید احمد خان کی عظمت کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ قادر بخش سومرو نے اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے شکریہ ادا کیا۔

حصہ