تفریح یا ٹینشن

436

صائمہ عبدالواحد

برائی کا اشتہار بنانے سے برائی پھیلتی ہے، نہ کہ کم ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا سستی تفریح کا ذریعہ ہیں۔ لیکن یہ سستی تفریح ہے کیا…! مارننگ شوز، ڈانس کامپٹیشن، کیٹ واک، فحش اور نازیبا عشقیہ داستانوں پر مبنی ڈرامے، اور اس پر مزید ہم جنس پرستی اور بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی پر بننے والے ڈرامے، اور ان کو ملنے والی عوامی پذیرائی، جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عوام یہی کچھ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
یہی حال سوشل میڈیا کا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران Me too# کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بہت سارے افراد نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے واقعات کو شیئر کیا اور اس کو سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے پذیرائی بھی ملی۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس کے ذریعے سے کتنے بچوں کے اندر منفی رجحان پیدا ہوا، برائی کا جذبہ پروان چڑھا۔ جن کے اپنے بچپن کسی نہ کسی زیادتی کی نذر ہوئے انھیں موقع دیا گیا کہ وہ اپنا بدلہ پورے معاشرے سے لے لیں۔
برائی کو اشتہار بنانا، بلکہ یوں کہا جائے کہ گناہ کا سکھایا جانا دراصل گناہ کی طرف بلانے کے مترادف ہے۔
یہی کچھ آج کل ٹی وی چینلز پر ہورہا ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو ٹی وی ڈراموں کے ذریعے پروموٹ کیا جارہا ہے، نئی نسل کو زنا و زیادتی جیسے جرائم سے آشنا کیا جارہا ہے، انھیں ان کا عادی بنایا جا رہا ہے۔
’’اڈاری‘‘، ’’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘‘، اور ابھی کچھ روز قبل ختم ہونے والا ڈراما ’’میری گڑیا‘‘۔
ڈراما ’’میری گڑیا‘‘ میں اگرچہ دنیاوی و معاشرتی حقائق واضح کیے گئے کہ معاشرہ کس کس طرح مجرم کو سپورٹ کرتا ہے، اور والدین کہاں کہاں کوتاہیاں کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ جرم کرنے کے طریقے بھی سکھائے گئے۔ ڈراما ہٹ بھی ہوگیا اور اس کی ریٹنگ بھی بڑھ گئی، لیکن ساتھ ہی بہت سے ننھے ذہنوں کی منفی رہنمائی بھی کر گیا۔
اگرچہ ڈرامے کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں جیسے انصاف کا بروقت ملنا، پولیس افسران کی کارکردگی اور مجرم کو سرِ عام پھانسی کی سزا دی گئی، جو کہ سراہے جانے کے قابل ہے۔ لیکن یہ ساری کارکردگی ڈرامے کی حد تک ہے، حقیقت اس سے کوسوں دور ہے۔
ہمارے معاشرے میں نہ ہی انصاف ہے اور نہ ہی بروقت سزا۔ سیکڑوں بچیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہوئے لیکن نہ ہی ان مجرموں کے لیے کوئی قانون بنا اور نہ ہی سزا ملی۔
اس ڈرامے کے دکھانے کا صحیح مصرف تو جب ہوتا کہ مجرم کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہوتا اور ساتھ ہی رب کے حضور جواب دہی کا احساس۔ لیکن ہمارے ڈرامے تو اس احساس سے خالی ہیں۔ ایسے ڈرامے معاشرے میں جرائم کو مزید بڑھانے میں مددگار ہوسکتے ہیں، ٹینشن زدہ معاشرے میں مزید ٹینشن تو بڑھا سکتے ہیں لیکن اس سے اور کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ سستی تفریح کے نام پر عوام کو تفریح ہی فراہم کی جائے تو بہتر ہوگا۔

پیمرا کا غیر ذمے دارانہ رویہ

ارم مسلم
گزشتہ چند دنوں سے ٹی وی چینلز پر ہم ٹی وی ایوارڈ شو کی جھلکیاں دکھائی جارہی تھیں جو کہ 7 اکتوبر کو نشر ہونا تھا۔ یقین جانیں اس پروگرام کی جھلکیاں بھی اس قابل نہیں تھیں کہ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھی جاسکیں۔ پورے شو میں جس بے ہودگی اور کم لباسی کا مظاہرہ ہوگا اس کا اندازہ ان کے پچھلے ایوارڈ شوز سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ ایسے پروگراموں کے ذریعے تمام اداکار اور اداکارائیں ساری اخلاقی حدود پار کرتے ہوئے مختصر ترین لباس میں اسٹیج پر ناچتے تھرکتے نجانے کون سے ملک اور کون سے گھٹیا کلچر کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں!
اس غیر ذمے دارانہ رویّے کی وجہ سے ہی ٹی وی چینلز بدمعاشی اور من مانی کی روش اپناتے ہوئے ڈراموں اور اشتہارات میں بھی ساری اخلاقی اور معاشرتی حدود سے نکل کر پیمرا کے اپنے ضابطۂ اخلاق کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور کوئی ان کو کنٹرول کرنے والا نہیں۔
آپ سے گزارش ہے کہ اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے عوام کو صاف ستھری تفریح فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایسے بے ہودہ قسم کے ایوارڈ شوز، مارننگ شوز اور ڈراموں کو کنٹرول کرنے اور فحش اشتہارات کی روک تھام جلد از جلد کرنے کے اقدامات اٹھائیں۔ یقین جانیں کہ عام افراد آپ کے اقدامات پر آپ کی حوصلہ افزائی ضرور کریں گے، کیونکہ معاشرے میں میڈیا کے ذریعے پھیلتی فحاشی و عریانی سے پورے پاکستانی عوام پریشان ہیں۔

حصہ