دوسلائس

647

فرحی نعیم
’’تم ناشتے میں کتنے سلائس لو گی؟‘‘ زرین نے اپنی چھوٹی بہن آمنہ سے پوچھا، جو کل ہی دوسرے شہر سے اُس کے پاس چند دن رہنے آئی تھی۔
’’آپی دو سلائس۔‘‘ آمنہ نے اخبار میں منہ دیے کہا۔
’’کیا! بس دو؟‘‘ زرین چونکی۔
’’جی آپی، میں سلائس صرف دو ہی لیتی ہو، زیادہ کا دل نہیں چاہتا۔‘‘
’’اتنا کم…؟‘‘ اب زرین کے شوہر نعمان نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ جواب میں آمنہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔
’’امی تمہیں کچھ کہتی نہیں ہیں؟ پہلے تو ناشتے کے معاملے میں امی بڑی سخت تھیں، کبھی جو انہوں نے ہم بہن بھائیوں کو بغیر ناشتے اسکول، کالج جانے دیا ہو، بلکہ میری اکثر سہیلیاں تو حیران ہوتی تھیں کہ صبح صبح اتنا کچھ ناشتے میں تم کیسے کھا لیتی ہو! ہم سے تو کھایا نہیں جاتا… تو میں بڑے فخر سے کہتی کہ میری امی نے تو بچپن سے ہی ہمیں عادت ڈالی ہے ناشتے کی۔ کبھی انڈا تو کبھی پراٹھا۔‘‘ زرین مسکراتے ہوئے پچھلی باتیں یاد کررہی تھی۔ نعمان نے بھی یہ سن کر بھنویں اچکائیں۔
’’مجھے تو تم بہت کمزور لگ رہی ہو۔‘‘ زرین پھر کہہ رہی تھی۔
’’کون، میں…؟‘‘ آمنہ نے اخبار کا صفحہ پلٹتے پلٹتے زرین کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’تو اور کون، میں؟ دیکھو تو رنگت کیسی پیلی پیلی لگ رہی ہے۔ مجھے تو آنکھوں کے نیچے حلقے بھی نظر آرہے ہیں۔‘‘ اب زرین ناشتا میز پر لگا رہی تھی۔
’’ارے آپی! آپ تو مجھے ڈرا رہی ہیں۔‘‘ آمنہ نے جلدی سے اخبار صوفے پر پھینکا اور اٹھ کر سامنے دیوار پر لگے آئینے میں بغور اپنی شکل دیکھنے لگی۔
’’کیا واقعی میرا چہرہ پیلا لگ رہا ہے؟‘‘ اب وہ زرین سے پوچھ رہی تھی۔
’’تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں؟‘‘ زرین نے چائے کا تھرموس میز پر رکھا اور ایک نظر بہن کو دیکھا جو آنکھ کے نیچے کی جلد کھینچ کر اب اپنے حلقے تلاش کررہی تھی۔
’’مجھے تو تم پہلے سے کمزور بھی لگ رہی ہو۔‘‘ زرین نے ایک اور شوشا چھوڑا۔
’’کمزور…؟ نہیں آپی۔ اصل میں ہماری ملاقات تقریباً ایک سال بعد ہورہی ہے ناں، جب سے نعمان بھائی کا ٹرانسفر اِس شہر میں ہوا ہے تو آپ کی ہماری ملاقات اب ہورہی ہے۔ میرے خیال میں تو میں پہلے سے کچھ موٹی ہی ہوگئی ہوں، میرے تو کپڑے بھی پہلے کے مقابلے میں ٹائٹ ہورہے ہیں۔‘‘
’’کیسی باتیں کررہی ہو، تم اور موٹی؟ اچھا چلو آئو پہلے ناشتا کرو پھر اپنا جائزہ لینا۔‘‘ زرین نے اسے ناشتے کی میز پر بلاتے ہوئے کہا، جو ابھی بھی آئینے کے سامنے گھوم پھر کر دیکھ رہی تھی۔
’’اچھا ہاتھ دھوکر آتی ہوں۔‘‘ آمنہ بولی، اور سامنے لگے واش بیسن سے ہاتھ دھونے لگی۔ زرین اور نعمان کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے اور آمنہ کے ہی منتظر تھے۔ آمنہ ہاتھ جھٹکتی ہوئی آئی اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ اس نے ایک نظر میز پر رکھے ناشتے پر ڈالی۔ ڈبل روٹی، پاپے، مکھن،جیم اور چائے کا تھرموس۔
’’چلو شروع کرو‘‘۔ زرین نے سلائس پر مکھن لگاتے ہوئے بہن کو دیکھا، جو میز پر رکھی چیزوں کو الجھی نظروں سے دیکھ رہی تھی، ایک عجیب کیفیت اُس کے چہرے سے عیاں تھی۔
’’آپی آپ ناشتا نہیں لائیں؟‘‘ آمنہ نے ایک احمقانہ سوال کیا تھا۔
’’لو بھلا بتائو، یہ ناشتا نہیں تو اور کیا ہے!‘‘ زرین نے متحیر لہجے میں کہا۔ نعمان بھی سوالیہ انداز میں آمنہ کو دیکھ رہا تھا۔
’’نہیں میرا مطلب ہے وہ ناشتا جو ہمارے گھروں میںکیا جاتا ہے۔‘‘
’’میں سمجھی نہیں آمنہ تم کیا کہنا چاہتی ہو، تم نے خود ہی کہا کہ تم صرف دو سلائس لیتی ہو، آج اتفاق سے انڈے بھی ختم ہوگئے، صرف ایک ہی انڈا فریج میں پڑا ہے، ورنہ ہم لوگ ہفتے میں دو دفعہ تو انڈا ضرور کھاتے ہیں، تمہارے لیے انڈا بنا دوں؟‘‘ زرین وضاحت کررہی تھی۔
’’صرف دو دفعہ! تو باقی پورا ہفتہ آپ اسی روکھے سوکھے ناشتے پر اکتفا کرتی ہیں؟‘‘ آمنہ نے ایک اور حیرت انگیز سوال کیا۔
’’تو پھر… کیا مطلب؟‘‘ زرین ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’کمال ہے، آپ کی میز پر نہ پراٹھے ہیں نہ آملیٹ، نہ حلوہ پوری، نہ ہی لسی یا ملک شیک… یہ سوکھے توس اور کالی چائے۔ ہم تو جیم کی جگہ خالص شہد کھاتے ہیں، بھلا ایسا ناشتا کبھی آپ نے امی کے گھر کیا ہے؟ میں نے تو زندگی میں یہ ناشتا نہیں کیا‘‘۔ اب وہ ناک چڑھاکر کہہ رہی تھی۔
’’تم نے خود ہی تو دو سلائس…‘‘ زرین اٹکی۔
’’سلائس تو میں شہد لگاکر پراٹھے کھانے کے بعد لیتی ہوں، یا پھر فرنچ ٹوسٹ کی صورت میں۔ بھلا دو خالی خولی سلائس بھی کوئی ناشتا ہوتا ہے!‘‘ وہ بے نیازی سے منہ بنا کر بولی۔
’’اچھا تو میں تمہیں پراٹھا بنا دیتی ہوں۔‘‘ زرین بے چارگی سے کہہ رہی تھی۔
’’ہاں ذرا جلدی سے بنادیں، صبح سے خالی پیٹ ہوں، ورنہ امی تو پہلے صبح اٹھتے ہی سب کو فریش جوس کا ایک ایک گلاس ہاتھ میں تھما دیتی ہیں۔‘‘
آمنہ نے بہن کو جتایا، اور زرین پہلو بدل کر رہ گئی۔ ’’دو پراٹھے بنایئے گا بل والے، گھی اندر لگایئے گا، ساتھ دو انڈوں کا آملیٹ پیاز، ہرا دھنیا اور پنیر والا‘‘۔ آمنہ کا فرمائشی پروگرام جاری تھا اور زرین کے ماتھے پر بَل والے پراٹھوں کا سن کر بَل پڑتے جارہے تھے۔ اسے میاں کے سامنے سبکی سی محسوس ہورہی تھی، ادھر نعمان بھی منہ کھولے حیرت سے آمنہ کا بھرپور ناشتے کا مینو سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اتنا ناشتا جاتا کہاں ہے؟ دوسری طرف آمنہ اب اطمینان سے دوبارہ اخبار کھول چکی تھی۔
’’میرے خیال سے میں تو ناشتا کرلوں کیونکہ میں تو صرف یہ بٹر اور جیم کے ساتھ سلائس ہی لوں گا۔‘‘ نعمان نے بیوی اور سالی کو دیکھتے ہوئے گویا اجازت لی۔
’’تم تو اب شاید یہ سلائس نہ لو؟‘‘ نعمان نے آمنہ سے پوچھا۔
’’نہیں آپ کا دل رکھنے کے لیے دو تو لے ہی لوں گی‘‘۔ اس نے گویا احسان کیا۔
’’ہوں…‘‘ اس نے سر ہلایا، اور باورچی خانے میں آمنہ کے لیے پراٹھے پکاتی زرین مسلسل بڑبڑا رہی تھی’’انڈے، پراٹھے، حلوہ پوری، فرنچ ٹوسٹ… حد ہوگئی، پیٹ ہے یا کنواں! اتنا کھاتی ہے جبھی تو موٹی ہورہی ہے، کپڑے بھی ٹائٹ ہورہے ہیں، رنگت دیکھو کیسی سرخ و سپید ہورہی ہو، امی کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ کیسے منہ پھاڑ کر کہہ دیا کہ میں تو پراٹھے کھاتی ہوں وہ بھی ایک نہیں دو، دو۔ حد ہوگئی، اور آخر میں سلائس بھی، دودھ کے گلاس کے ساتھ‘‘۔ زرین نے پراٹھا توے پر پٹختے ہوئے گویا اپنا سارا غصہ اسی پر نکالا۔ لیکن جواب میں اس کی انگلی ہی گرم توے سے لگ گئی ’’اُف…‘‘
…٭…
یہ تم اتنا ناشتا کرتی ہو! کچھ تو کنٹرول کرو‘‘۔ زرین آمنہ کو دانت پیستے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
’’آپ ہی تو کہہ رہی تھیں کہ کمزور ہوگئی ہو اور…‘‘
’’میں تو بس ویسے ہی، غلطی ہوگئی‘‘۔
’’نہیں آپ سے غلطی نہیں ہوئی بلکہ میں ہی کچھ کم کھانے لگی ہوں، اب اپنی خوراک بہتر کرنے کا سوچ رہی ہوں‘‘۔ آمنہ کہہ رہی تھی اور زرین دل ہی دل میں اُس وقت کو کوس رہی تھی جب اس نے آمنہ کو اُس کی کمزوری پر رائے دی تھی۔

حصہ