ہم بنے لکھاری

809

صدف نایاب
جی تو دوستو! یہ بات ہے… ناں ناں، بڑی پرانی نہیں، صرف دو سال پہلے کی، جب ہم پر مضمون نگاری کے ایک مقابلے میں شرکت کا بھوت سوار ہوا۔ اصل میں تو یوں کہہ لیجیے کہ لکھنے لکھانے کا شوق تو بچپن سے ہی تھا، مگر کبھی اس کو باقاعدہ صلاحیت کے روپ میںنہ جانا تھا۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اپنی اس خداداد صلاحیت کو ہم پہچانتے ہی نہ تھے۔ بہرحال اس مقابلے میں حصہ لیا بڑے، چاؤ سے مضمون لکھ کر بھیجا، مگر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ ہم نے اپنے دلِ ناداں کو یہ کہہ کر سمجھایا کہ تم ابھی نومولود ہو اس میدان میں، یہ تو وہ لوگ ہی بازی مارتے ہیں جو لکھنے کا فن جانتے ہیں۔ خیر وقت گزرتا گیا۔ کراچی سے ہماری خالہ ساس آئیں، انھیں جب ہمارے اس شوق کا پتا چلا تو مضمون نویسی کے ایک اور مقابلے سے روشناس کروایا۔ ہم نے اس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس بار اللہ نے ہمیں کامیابی عطا کی۔
زندگی کی گاڑی یوں ہی گھر اور بچوں کے ساتھ چلتی گئی، پھر ایک وقت آیا جب ہماری تحریریں چھپنے لگیں۔ ہم بڑے خوش ہوتے، اور خوش ہونے والی بات بھی تھی کہ ہم بھی کسی قابل ٹھیرے۔ ہر وقت اسی سوچ میں غرق رہتے کہ کس کی کہانی شایع ہورہی ہے؟ ہماری کب شایع ہوگی؟ ہماری کیوں نہیں شایع ہوئی؟ لکھنے میں اتنا وقت لگانا کہ نماز تک کا ہوش نہ رہنا، پھر بعد میں اس بات پر بھی کڑھنا کہ نماز رہ گئی۔ پھر تحریروں کا معیار بھی گرنے لگا۔ غرض یہ کہ ایک وقت آیا جب ہم خود ہی الجھنے لگے کہ گھر، بچے اور لکھنا سب ساتھ ساتھ کیسے کریں؟
شروع شروع میں تو یہ ایک شوق تھا، مگر آہستہ آہستہ لکھنے کے مقاصد سمجھ میں آنا شروع ہوئے۔ سب سے پہلی بات جو اس زمرے میں آتی ہے وہ یہ کہ لکھنے سے انسان کی اپنی ہی تربیت ہوتی ہے۔ پھر جو اصلاح وہ دوسروں کی کرنا چاہتا ہے جب وہی سبق وہ بار بار دہراتا ہے تو اسے خود بھی یاد ہوجاتا ہے۔ دوسری بات، صرف اللہ کی رضا کے لیے لکھو، یعنی ہمارے لکھے ہوئے سے اور ہماری تحریروں کے پڑھنے سے جو لوگ بھی کچھ سیکھیں گے، اللہ انھیں ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنادے۔ ہماری نیت خالص اللہ کے لیے ہونی چاہیے اور یہی اصل مقصد ہے لکھنے کا۔
لکھنا ایک ایسی سرگرمی ہے جو انسان کے جذبات اور احساسات کو بھی تقویت بخشتی ہے۔ بعض اوقات ہم پریشان ہوتے ہیں، یا اپنے اردگرد اور معاشرے میں پھیلی کسی برائی پر کڑھ رہے ہوتے ہیں، ایسے میں جہاد بالقلم ہی وہ واحد ذریعہ ہوتا ہے جس کے ذریعے حق بات آگے پہنچائی جا سکتی ہے۔ اس میدان میں ہمیں مشکل کا بھی سامنا رہا۔ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر لکھنا، اور جیسے ہی کوئی موبائل یا لیپ ٹاپ کھولا بچے آدھمکے۔ اس طرح کی چھوٹی موٹی پریشانیاں بہت آئیں۔ مگر ایک پریشانی جس کے بعد ہم نے لکھنے کے لیے صحیح سمت کا تعین کیا… تو ہوا کچھ یوں کہ ہم نے ایک مقابلہ مضمون نویسی میں حصہ لیا، جس کا عنوان بالکل ہمارے مزاج کے متضاد تھا۔ دن رات ایک کرکے تحقیقی مضمون لکھا، مگر سردرد کے باعث اس کے بعد بہت عرصے تک کچھ نہ لکھ سکے، کیوں کہ مضمون کا مواد ڈھونڈنا، ایسے لوگوں سے رابطہ کرنا سب کچھ خاصا مشکل تھا۔
اس سوچ کے بعد ہم باقاعدہ پلاننگ کر کے اپنے مقصد امر بالمعروف ونہی عن المنکر جیسے فریضہ کو سوچ کر لکھنے لگے اور ہمارے اندر کا سارا کِبر و غرور بھی خاک میں ملتا گیا۔ ہم ندامت کے آنسو لیے بار گاہِ الٰہی میں شکربجالائے۔ ایک جھٹکے میں وہ سارا خمار آسمان سے زمین پر پٹخ دیا اور اپنی اس قابلیت پر جو کہ ہماری نہیں اللہ کی دی ہوئی ہے، شکر بھی ادا کیا اور توبہ استغفار کو بھی لازم پکڑ لیا۔لکھنے جیسی مہارت اللہ کی دین ہے۔ اس پر اترانے کے بجائے شکر کرنا چاہیے۔ ہمارے اللہ کا ہم پر سب سے زیادہ حق ہے۔ اس لیے اسے قدم قدم پر ادا کرنے کی فکر کیجیے۔ آپ کا حق خودبخود آپ کے پاس چل کر آئے گا۔

حصہ