آسیہ ملعونہ کی رہائی

953

انیلہ افضال
’’آپ سے توہینِ عدالت برداشت نہیں ہوتی، ہم توہینِ رسالت کیسے برداشت کرلیں!‘‘ یہ ہیں وہ تاریخی الفاظ جو ایک کافر کی عدالت میں ایک سچے عاشقِ رسولؐ نے کہے تھے۔ ایک فاضل عدالت کا جج اور حاکم ہونے کے باوجود اس کی زبان تالو سے چپک گئی تھی، مگر قلم حرکت میں تھا اور اس قلم نے اس سچے عاشقِ رسولؐ کے لیے موت کی سزا لکھ دی تھی، مگر نہیں جانتا تھا کہ ’’شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے‘‘۔ اس جنبشِ قلم کے نتیجے میں 31 اکتوبر کو یہ فرزندِ اسلام پھانسی پر لٹک گیا، پھندے کو چوم کر وہ شہادت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوگیا، اور ہر سال شمعِ رسالت کے پروانے اس کی برسی انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہیں۔
آنے والے وقتوں میں مؤرخ لکھے گا کہ اس خطۂ ارض پر جدید دور میں، جب کہ دنیا سمٹ کر گلوبل ولیج بن گئی تھی، ایک بار پھر 31 اکتوبر آئی تھی۔ ایک بار پھر ایک عدالت لگی تھی۔ لیکن اِس دن کی عدالت اُس وقت کی عدالت سے مختلف تھی۔ اِس عدالت میں جج مسلمان تھا۔ وہ عدالت ملکِ خداداد پاکستان کی تھی کہ جس کا وجود ہی اسلام کے نام پر تھا۔ اس دن اس عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوا کوئی عاشقِ رسول نہیں تھا، کوئی مسلمان نہیں تھا، نہ ہی کوئی کلمہ گو تھا۔ بلکہ ایک عورت آسیہ ملعونہ تھی، جس نے مقصودِ کائنات، محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کی تھی۔
مگر جب فیصلہ ہونے لگتا ہے تو قلم بک جاتا ہے، قانون ٹوٹ جاتا ہے، انصاف کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں، ایمان کی بولی لگ جاتی ہے، ضمیر کو چند ٹکوں کے عوض بیچ دیا جاتا ہے۔ ہاں آج کے دن ایک ملعونہ آسیہ کو ہماری عدالت بری قرار دیتی ہے۔ آج کے دن گستاخوں کو آزادی دے دی جاتی ہے۔ کفر کے لیے رول ماڈل بناکر پیش کردیا جاتا ہے۔ اپنے ایمان کی حقیقت دکھا دی جاتی ہے کہ ہم آج وہ لوگ نہیں جو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر تن، من، دھن قربان کردیں، بلکہ ہم تو چند ٹکوں میں بک جاتے ہیں۔
آہ! آج قبر میں پڑی اس بڑھئی کے بیٹے کی روح تڑپ اٹھی ہوگی۔ وہ کہہ رہا ہوگا کہ اے مسلمانو! میں نے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا تحفظ اپنی جان دے کر کیا تھا۔ تمہارا قلم بھی آقاؐ کی ناموس کے لیے نہ چل سکا! یقیناً آج سے تقریباً 80 سال پہلے 31 اکتوبر کو مسلمان یہی سوچتے ہوں گے کہ ہماری اپنی حکومت نہیں اس لیے ہمارے غازی کو پھانسی ہوئی۔ افسوس! آج ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہماری اپنی حکومت نہیں، اس لیے ملعونہ بری ہوئی ۔
سید کفایت اللہ کافی علیہ الرحمہ کو انگریز حکومت جب گستاخِ رسول کو قتل کرنے کی پاداش میں تختۂ دار پہ لٹکانے لگی تو آپ نے پھانسی کے پھندے کو تھام کر ایک پیغام دیا کہ

کوئی گل باقی رہے گا، نہ چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہؐ کا دین حسن رہ جائے گا
اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو
اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا
نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا
جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ، لیکن حشر تک
نعتِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا

حصہ