قصہ حضرت موسیٰؑ کا

465

مریم شہزاد
امی نے جیسے ہی قرآن پاک پڑھ کر بند کیا تو دیکھا کہ احمد کچھ کہنا چاہ رہا ہے مگر ہچکچا رہے ہیں کہ پوچھے یا نہیں۔
امی نے اس کو اپنے پاس بلایا اور کہا ’’کیا بات ہے؟‘‘ ہمارا بیٹا کچھ پوچھنا چاہتا ہے؟
تب احمد نے کہا ’’امی آپ ایسے آہستہ آہستہ کیوں پڑھتی ہیں، اور بار بار رک بھی جاتی ہیں‘‘۔
امی نے کہا ’’اس لیے کہ یہ قرآن ترجمعے والا ہے اور میں تلاوت کے ساتھ ترجمہ بھی پڑھتی جاتی ہوں، اس طرح یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے‘‘۔
’’اچھا! تو آپ ابھی کیا پڑھ رہی تھیں؟ احمد نے شوق سے پوچھا ابھی تو میں حضرت موسیٰ کے بارے میں پڑھ رہی تھی‘‘۔
’’مجھے بھی تو سنائیں،‘‘ احمد نے کہا۔
امی نے سنانا شروع کیا ’’اصل میں حضرت موسیٰؑ کا ذکر کافی جگہ آیا ہے میں تم کو مختصراً بتاتی ہوں، جب حضرت موسیٰؑ پیدا ہوئے تو اس وقت فرعون کی حکومت تھی، اس کے حکم کے مطابق بنی اسرائیل کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیا جاتا تھا کیونکہ اس کے دربار کے ایک نجومی نے بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو فرعون کی بادشاہت کو ختم کردے گا، اس لیے جب حضرت موسیٰؑ پیدا ہوئے تو آپ کی زندگی بچانے کے لیے اللہ کے حکم سے ایک صندوق میں بند کر کے دریائے نیل میں بہا دیا تھا اور پتا ہے وہ تیرتا تیرتا کہاں پہنچا؟‘‘
’’جی، جی جلدی سے بتائیں نا کہاں پہنچا‘‘ احمد جو شوق سے سب سن رہا تھا بیتابی سے بولا۔
’’وہ صندوق فرعون کے محل کے قریب پہنچا جہاں اس کی ملکہ اپنی خادماؤں کے ساتھ بیٹھی تھی انہوں نے اسے پانی سے نکلوایا اور کھول کر دیکھا تو اس کے اندر ایک خوبصورت اور پیارے بچے کو دیکھ کر حیران رہ گئیں انہوں نے اس بچے کو اپنا بیٹا بنالیا‘‘۔
’’واہ بھئی واہ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس بچے کی پرورش اسی کے محل میں کروانی تھی کہ جس کو فرعون مارنا چاہتا تھا‘‘ احمد بات سمجھتے ہوئے بولا۔
’’ہاں جی یہ سب اللہ کی قدرت ہے، پھر مختلف سورتوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰؑ کو کیسے کیسے معجزے ملے اور وہ اللہ تعالیٰ سے باتیں بھی کرتے تھے‘‘ امی نے مزید بتایا تو احمد حیران ہو کر بولا ’’واقعی امی کیا وہ اللہ تعالیٰ سے باتیں کرتے تھے؟‘‘
’’جی بیٹا اللہ تعالیٰ ان سے کوہ طور پر ہم کلام ہوتے تھے اس لیے ان کو کلیم اللہ بھی کہتے ہیں‘‘۔
’’اچھا ان کے معجزے کیا تھے؟‘‘ احمد نے پوچھا۔
’’ان کی لاٹھی سانپ کی طرح بن جاتی تھی، سیدھا ہاتھ چاند کی طرح چمکتا تھا ایک دفعہ جب بنی اسرائیل کو پانی کی ضرورت ہوئی تو اللہ کے حکم سے انہوں نے لاٹھی ایک پتھر پر ماری تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے، اور فرعون اور اس کی فوج سے بچانے کے لیے بھی یہی لاٹھی سمندر پر ماری تو اس میں راستہ بن گیا اور آپ اور آپ کے ساتھی بچ گئے اور فرعون غرق ہو گیا‘‘
’’امی یہ سب قرآن مجید میں لکھا ہے؟ احمد نے پوچھا‘‘۔
جی بیٹا، ’’تو ٹھیک ہے، میں بھی اب اسی ترجمہ والے قرآن میں پڑھوں گا تاکہ مجھے بھی معلوم ہو کہ اس میں کیا کیا لکھا ہے‘‘ احمد نے کہا تو امی نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

حصہ