سید عتیق الحسن کی کتاب ’’شناخت کے قیدی‘‘ پر مضمون

939

ڈاکٹر باقر رضا
ہمارا تعارف سید عتیق الحسن صاحب سے غائبانہ ہی تھا۔ اور وہ یوں کہ سڈنی کے چاند رات فیسٹیول جہاں کھوئے سے کھوا چھلتا ہے میں ہم بھی دو ایک بار کھوا چھلوانے جاچکے ہیں۔ جو رش اس میلے میں ہوتا ہے وہ ہر چند بوہری بازار کراچی کے رش کے سامنے نہ ہونے کے برابر ہے پھر بھی ہم کراچی بدر، ہجوم کے عادی، لوگوں کے لیے دھکے کھانے اور کان پڑی آواز نا سننے کا ایک موقع اس دیارِ غیر میں تو ہے ہی۔ عتیق الحسن صاحب حلال ایکسپو کے بانیوں میں بھی ہیں۔ ہر چند ہمارا حلال ایکسپو جانے کا اتفاق تو نہ ہوا پر یقین ہے کہ وہاں سب کچھ حلال ہی ہوگا۔ یادش بخیر ہمارے وطن میں آلو کے چپس حلال تک نہ سمجھے جاتے تھے جب تک جنید جمشید مرحوم ٹی وی پر کھا کر نہ دکھادیں۔ یہ بتانے کی بات نہیں ہے کہ ہمارے دیس میں گائے، بکری، اونٹ کے علاوہ حلال گاڑی بھی میزان بینک کے توسط سے مل جاتی ہے۔ خداگواہ ہے کہ ہم نے کئی سرکاری ملازمت پیشہ افراد کو اوپر کی کمائی سے میزان بینک کی آڑھتی میں حلال گاڑی خریدتے دیکھا ہے کہ یہ بھی کمائی کا پاکیزہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
عتیق الحسن صاحب اگر ایک طرف یوں فعال ہیں تو دوسری طرف لکھنے پڑھنے سے بھی وابستہ ہیں۔ اخبارِ جہاں میں کالم لکھتے ہیں اور ایڈیٹر انچیف ٹرائیون انٹرنیشنل آسٹریلیا بھی ہیں۔ امریکا کے بانیوں میں سے ایک منجمن نرنیکلن نے کہا تھا۔کچھ ایسا لکھو جو پڑھنے کے لائق ہو یا کچھ ایسا کرو جس پر لکھا جاسکے عتیق الحسن صاحب دونوں کام مقدور بھر کررہے ہیں۔ ان کی کتاب ’’شناخت کے قیدی‘‘ ہر چند کے عنوان کے لحاظ سے کوئی جدید شعری مجموعہ یا انسانوں کی کتاب لگتی ہے۔ تاہم یہ پاکستان میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین اور ان کی اولادوں کے ٹوٹتے خوابوں، شکستہ آرزوئوں اور گم شدہ تمنائوں اور ناکام امیدوں کی ایک حسرت بھری داستان ہے۔ عتیق الحسن صاحب نے یہ داستان اپنی نظر سے لکھی ہے۔ ان کو پاکستان میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کٹھانیوں سے جڑی تلخ و ترش یادیں اس کتاب کا حصہ ہیں مشہور برزیلین ناول نگار پاولو کوھیلو نے لکھا تھا کہ ’’آنسو درحقیقت وہ الفاظ ہیں جن کو لکھا جانا چاہیے۔ یہ کتاب بھی دراصل حروف کے آنسوئوں سے لکھی گئی ہے۔ جو ہندی مسلمانوں کی آنکھوں سے جاری ہیں۔ اگر منظر نامے سے ذرا ہٹ کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ہی واقعہ کو ایک ہی گروہ سے تعلق رکھنے والے دو افراد کیسے مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔ مشہور مصنف مختار مسعود جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلق رکھتے تھے اور پاکستان کی ابتدائی تعمیر و ترقی میں شامل تھے انہوں نے کتاب ’’آوازِ دوست‘‘ تحریر کی جس کے اولین صفحے پر مولانا روم کا شعر درج ہے۔

خشک منفرد خشک تارو خشک پوست
ازکجامی آئید ایں آوازِ دوستی

’’نہ دماغ میں رطوبت، نہ رگوں میں تراوٹ اور نہ گوشت پوست میں گرماہٹ ہے پھر بھی یہ دوست کی آواز کہاں سے آرہی ہے‘‘۔
اس کتاب کے جواب میں علی گڑھ میں ایک اور فارغ التحصیل ڈاکٹر نسیم انصاری نے ’’جوابِ دوست‘‘ کتاب لکھی، انصاری صاحب نے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ ان کی کتاب کے پہلے صفحے پر عرفی کا یہ شعر درج ہے۔

عرفی دل آباد یہ یک جو نہ خرد عشق
من ہم دل وِیراں بہ دو عالم نہ فروشم

عرفی وہ لوگ جن کی دنیا آباد ہے عشق کا سودا مفت بھی نہیں کرتے ہیں اور ہم اپنا ویران دل دنیا کی تمام دولت کے بدلے بھی نہ بیچیں۔ نسیم انصاری کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ وہ ویرانہ چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے جو ویران ہی ان کے جانے سے ہوا تھا جو آوازِ دوست پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ بقول فیضؔ جو داغ داغ اجالے اور شب گزیدہ سحر کو دیکھ کر حیران تھے کہ یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر نکلے تھے۔جب تاریخ مطالعہ پاکستان کے سینسر کی نذر ہوجائے تو پھر ادب سچ کی تلاش میں مدد فراہم کرتا ہے۔ قرۃ العین حیدر نے درست لکھا ہے کہ ہندی مسلمانوں کے دل کی ابتدا ہی سے یہ آرزو رہی ہے کہ ’’میرے مولا بلالے مدینے مجھے‘‘۔ اسی خواہش میں جنگِ آزادی کے اختتام پر جب مولویوں نے فتویٰ دیا کہ انگریز کے راج میں رہنا حرام ہے اور بہتر ہے کہ دارلامن یعنی افغانستان کوچ کرلیا جائے۔ تو ہزاروں لوگ گھر بار چھوڑ ڈھور ڈنگر لے کر کابل پہنچ گئے۔ کابل کے لوگ شاید مہاجر و انصار کی محبت کی روایت سے واقف نہیں تھے۔ لہٰذا ان مہاجرین کو لٹ پٹ کے واپس ہندوستان آنا پڑا اور اپنی ہی سابقہ زمینوں پر بطور مزدور کام کرنے پر مجبور ہوئے۔اسلام، پاکستانیت اور اردو زبان۔ یہ تین وہ نعرے ہیں جن کے زور پر ہندی مسلمانوں کو باآسانی بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ گویا یہ انگریزی محاورے میں RED HERRINGS ہیں۔ سب سے پہلے بات اردو زبان کی کرتے ہیں۔ داغ وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے لفظ اردو اس زبان کے لیے استعمال کیا ورنہ اس سے پہلے میر و غالب ریختہ، ہندی، ہندوی کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ یہ زبان جو دراصل زوال پذیر معاشرے اور تہذیب کی تندرست و تنومند تخلیق ہے۔ اس کو شدید نقصان متحدہ ہندوستان کی تقسیم سے پہنچا۔ وہ مرثیہ جو محترم رئیس امروہوی نے 70 کی دہائی میں لکھا ہے ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ اس کو دراصل 1947ء میں لکھا جانا چاہیے تھا۔نئے ملک میں جب یہ زبان ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئی اور 1948ء میں جب اردو کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا تو 21 فروری 1952ء کو بنگلہ زبان کے حق میں احتجاج کا آغاز ہوا۔ 1956ء میں بنگلہ زبان کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا گیا تاہم اس دوران لوگ مارے جاچکے تھے اور نفرتیں بڑھ گئی تھیں۔ 1999ء میں یونیسکو نے 21 فروری کو مادری زبان کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔جہاں تک سندھ کا تعلق ہے تو یہ واضح کرتا چلوں کہ سندھ میں اردو تقسیم سے پہلے موجود تھی۔ شاعر ہفت زباں حضرت سچل سرمست نے اردو میں شاعری کی ہے۔ خود شیخ ایاز جو شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعد سندھی زبان کے دوسرے بڑے شاعر ہیں ان کی اردو شاعری ’’بوئے گل نالۂ دل‘‘ اور ’’نیل کنٹھ اور نیم کے پتے‘‘ کے نام سے یاد گار ہے۔ سندھ اپنے جداگانہ تشخص پر ہمیشہ فخر کرتا رہا ہے اور اس کی تاریخی قدیمی وجوہات ہیں۔ جنرل ہوش محمد شیدی قمبرانی نے شیر محمد خان تالپور کی فوج کی سپہ سالاری کرتے ہوئے سرچارلس نیپیئر کی فوج کے خلاف لڑکر جان جانِ آفرین کے سپرد کی، شہید سندھ ہوش شیدی کا مزار ڈوبی نامی قصبہ میں جو حیدر آباد سے 10 کلو میٹر دور واقع ہے اب بھی موجود ہے۔ مردیسوں پر سندھ نہ ڈیسوں۔ یعنی مرجائوں گا مگر سندھ نہ دوں گا۔ ہوش کا نعرئہ جنگ تھا۔جب ملک دوپارہ ہوا تو نظریاتی سرحدوں کی بات کی گئی۔ کیونکہ زمینی سرحدیں تو گم کر ہی چکے تھے۔ پاکستانیت میں اسلامیت کی آمیزش کی گئی اور ہم نے اپنی شناخت عربوں سے جوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ہر چند کہ وہ عرب ہم کو ’’رفیق‘‘ یعنی مددگار ہی کہتے اور سمجھتے رہے۔ یوں تو مذہب اسلام کو سیاسی قوت حاصل کرنے کے لیے ابتدا ہی سے استعمال کیا گیا۔ پاکستان کا مطلب کیا ’’لاالہ الاللہ‘‘ سے جو قصہ شروع ہوا وہ افغان جہاد سے ہوتا ہوا مولوی خادم حسین کے دھرنوں تک آیا ہے۔ پرویز مشرف نے اپنے دورِ حکومت میں ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ اسی مذہبی منہ زور جذباتیت کو لگام دینے کے لیے لگایا تھا۔ پر صاحب یہ طوفانِ بلا کہیں ایسے ٹلتا ہے۔ آج جنرل قمر باجوہ کو محفلِ میلاد منعقد کرنا پڑتی ہے تا کہ ان کے احمدی ہونے کی افواہ کا سدباب کیا جاسکے اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی حفاظت کے لیے غیر مسلم اہل کار مقرر ہوتے ہیں۔

جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے

ہماری مختصر سی ملکی تاریخ میں بیچ بیچ میں مختلف قسم کی قومی، لسانی اور مذہبی قوتوں کے فروغ میں قوتِ مقتدرہ، خفیہ ادارے، اسٹیبلشمنٹ، خفیہ ہاتھ، نامعلوم افراد اور مشہور محکمہ زراعت کے نامعلوم افراد فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پشتون پنجابی اتحاد۔ مہاجر رابطہ کمیٹی، سندھی مہاجر پشتون فرنٹ، مہاجر قومی موومنٹ، اور نجانے کون کون سی تنظیمیں ڈوبتی اُبھرتی رہی ہیں۔ اس کتاب میں صفحہ 15 پر سید عتیق الحسن رقم طراز ہیں۔
’’پاکستان بننے سے پہلے یہ وڈیرے، جاگیردار اور سردار انگریزی سرکار کے ساتھ مل کر لوگوں پر حکومت کرتے تھے اور پاکستان بننے کے بعد یہ سامراجی طاقتیں پاکستانی فوج اور بیورو کریٹس کے ساتھ مل کر پاکستان کو لوٹ رہی ہیں‘‘۔آگے چل کر صفحہ 31 پر لکھتے ہیں۔ ’’پاکستان کے قیام نے جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کو تحفظ فراہم کیا‘‘۔ یاد رہے کہ یہ بات وہ شخص لکھ رہا ہے جو خود ہجرت کرکے آنے والوں کی اولاد ہے۔
کوٹہ سسٹم پر صفحہ 77 پر یوں اظہارِ خیال فرماتے ہیں ’’1988ء میں الطاف حسین اور بے نظیر نے ایک ساتھ چلنے اور ایک 58 نکاتی ایجنڈے پر دستخط کیے اور پھر اس معاہدے پر عمل درآمد سے انکار کیا گیا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ ان نکات میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی کوئی بات نہیں تھی‘‘۔
کوٹہ سسٹم کا سیاق و سباق مختصراً یوں ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے چودہ نکاتی پروگرام میں حکومتی آسامیوں میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کی بنیاد پر حصہ تجویز کیا گیا تھا۔ 1926ء میں تاج برطانیہ نے 25 فیصد حصہ سول سروسز میں مسلمانوں کے لیے مختص کیا۔ پاکستان کے کوٹہ سسٹم کے تخلیق کار خان لیاقت علی خان تھے جن کے یکم ستمبر 1948ء کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں ڈومیسائل کی بنیاد پر کوٹہ مقرر کیا گیا تھا۔ سندھ میں شہری اور دیہی کی بنیاد پر کوٹہ سسٹم 1970ء میں سندھ کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رحمان گل نے جاری کیا جو 40 فیصد شہری اور 60 فیصد دیہی علاقوں کی تقسیم کی بنیاد پر تھا۔ 1973ء کے آئین میں جس پر تمام سیاسی پارٹیوں نے دستخط کیے تھے اسی کوٹہ سسٹم کی توثیق کی تھی۔ الطاف حسین نے کوٹہ سسٹم ختم کرنے کا مطالبہ سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے کیا تھا۔سیاسی مفادات کے اس کھیل کو سید عتیق الحسن اپنی کتاب میں صفحہ 75 پر یوں پیش کرتے ہیں۔ ’’حیران کن بات یہ تھی کہ ضیاء الحق کے فوجی دور حکومت میں جبکہ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی تھی، مہاجر قومی موومنٹ کے جلسے بڑی کامیابی سے ہورہے تھے، جن میں لوگوں کا جم غفیر ہوتا تھا۔ بچے، بوڑھے، عورتیں الطاف حسین پر اپنا تن من دھن وارنے کو تیار تھے۔ نوجوانوں میں اسلحے کی ریل پیل نظر آرہی تھی۔ الطاف حسین کی مہاجر قومی موومنٹ اب کراچی سے نکل کر حیدر آباد، سکھر غرض کہ اندرونِ سندھ پھیلتی جارہی تھی‘‘۔
سید عتیق الحسن کی کتاب دراصل ایک دکھے دل کا بیانیہ ہے۔ تاہم کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس کتاب میں اشارے، حوالے اور تاریخی اقتباسات بھی شامل کرکے اس کی علمی و تاریخی اہمیت میں اضافہ کردیا جاتا۔
پبلشر نے کتاب کو زیورِ طبع سے خوب آراستہ کیا ہے۔ سرورق قابل دید ہے جو کتاب کے موضوع کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ اس کے لیے سرورق کے مصور شاہد ملک داد کے مستحق ہیں۔
امریکن شاعر اور ڈرامہ نگار ایڈناسینٹ ونسنٹ ملے نے کہا تھا۔
کتاب چھاپنے والا مجمع عام میں اپنا آپ دکھاتا ہے۔ اگر کتاب ٹھیک چھپی ہے تو کوئی خطرہ نہیں ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو کوئی بھی اس کو بچا نہیں سکتا ہے۔
طباعت میں مسودے کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ فلیپ پرہی پروف کی غلطی ہے۔ غالبؔ صاحب کے شعر میں اگر تصرف کرنا تھا تو پھر نشاندہی کردی جاتی تو بہتر تھا۔ لفظ تشبیہہ کو بجائے ہائے ہوزی یعنی ڈوئی یا ہوا والی ہد کے، ہائے حطی یعنی حلوے والی ح سے چھاپا گیا ہے۔ جو املا کی غلطی ہے۔ یادش بخیر جب محترم دوست سلیم کوثر کی کتاب چھپ کر آئی تھی تو اس میں ایک دو جگہ کچھ الفاظ غلط چھپ گئے تھے اور سلیم کوثر صاحب نے ہر ایک کتاب پر اپنے ہاتھ سے تصحیح کی تھی۔ کیونکہ غلط چھپ جانا پتھر پر لکیر کی طرح ہوتا ہے۔ امید ہے کہ املا۔ انشاء۔ صرف ونحو اور تذکیر و تانیث کی غلطیوں کو دوسری اشاعت میں درست کردیا جائے گا۔
بات شناخت کی ہے تو اس مضمون کو حضرت سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی کی مشہور عالم کتاب ’’تذکرہ غوثیہ‘‘ کی اس حکایت پر ختم کرتا ہوں۔ یاد رہے کہ تذکرہ غوثیہ کو ڈاکٹر دائود رہبر نے ہندوستان کی تین اہم کتابوں میں شمار کیا ہے۔ حکایت یہ ہے کہ ’’ایک وہمی آدمی نے پہچان کے لیے اپنے گلے میں سرخ دھجی ڈالی تا کہ لوگوں میں گم نہ ہوجائوں۔ ایک شخص کو اس کا یہ خبط معلوم ہوگیا۔ اس نے بوقتِ خواب وہ دھجی اس کے گلے سے نکال کر اپنے گلے میں ڈال لی اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ جب وہ نیند سے چونکا اور آنکھ کھلی تو دیکھا کہ علامتِ شناخت دوسرے کے گلے میں ہے۔ اس سے کہا کہ میاں ’’تو‘‘ ’’میں‘‘ ہے پھر میں کون ہوں۔ یا میں ’’تو‘‘ ہوں اور ’’تو‘‘۔ ’’تو‘‘ ہے یا ’’تو‘‘۔ ’’تو‘‘ ہے اور ’’میں‘‘ ’’میں‘‘ ہوں۔ ’’بتا میں کون ہوں؟‘‘۔ سو یہی حال عارف کا ہے کہ جب منزل عرفان پر پہنچتا ہے تو متحیر ہو کر کہتا ہے کہ ’’میں کون ہوں‘‘۔
عرض کروں کہ ہمارے آبائو اجداد دنیا بھر کی خاک چھانتے کہاں سے کہاں پہنچے اور ہم اس کہاں سے یہاں پہنچے ہیں اور ہمارے بعد آنے والے کہاں جائیں گے کس کو خبر ہے۔
’’مجھ کو خبر نہیں میری مٹی کہاں کی ہے‘‘

حصہ