قومی اسمبلی دینی اور سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہوگئی

647

محمد انور
ملعونہ آسیہ کے حق میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف تحریک لبیک اور دیگر دینی جماعتوں کے احتجاج کے دوسرے روز جب یہ معاملہ قومی اسمبلی میں پہنچا تو پوری قوم نے دیکھا کہ اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومت ایک پیج پر آگئی۔ بظاہر اپوزیشن کی بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی اس واقعہ کے تناظر میں قومی اسمبلی کے ایوان میں واضح طور پر حکومت کے مؤقف کے ساتھ نظر آرہی تھیں ۔ جو اس بات کی دلیل تھا کہ یہ جماعتیں مذہبی اقدار سے زیادہ سیاست کی قدردان ہیں ۔
منتخب ایوان کا منظر مسلمانوں کے ایسے ہاوس کا نمونہ نظر آرہا تھا جہاں اکثریت کو” توہین رسالت ” سے زیادہ آسیہ ملعونہ کی فکر ہو ۔ آسیہ وہ ملعونہ ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا الفاظ ادا کرنے کے بعد معافی بھی مانگ لی تھی جو اس بات کا اعتراف تھا کہ اس نے توہین رسالت کا عظیم جرم کیا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود اس کا اعلی ترین عدالت کے ججز کے فیصلے کے نتیجے میں سزا سے بچ جانا مسلمانوں کے لیے غیر متوقع ہے ۔ تمام دینی جماعتیں اور نامور علما کرام نے اس فیصلے کو انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا۔
پاکستان جو مکمل اسلامی مملکت ہے یہاں پر کوئی مسیحی عورت اللہ کے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے اور عدالت اسے بری کردے ، آپ ص پر جانیں قربان کرنے کے لیے تیار رہنے والی قوم یہ کیوں اور کس طرح برداشت کرسکتی ہے ۔
2008 میں شیخوپورہ میں ہونے والے اس واقعہ پر مقامی عدالت مجرمہ آسیہ کو توہین رسالت کے الزام میں موت کی سزا سنا دی تھی بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے بھی اس سزا کو برقرار رکھا تھا مگر سپریم کورٹ نے بدھ کو اس سزا پر فیصلہ سنایا اور مجرمہ کو بری کردیا ۔ اس کا مطلب یہ کہ دو عدالتوں کے ججوں صاحبان کا فیصلہ غلط تھا ؟ عوام اور اسلامی اہم شخصیات کی نظر میں تو یہی فیصلہ درست تھا اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق تھا ۔
مگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو قومی اسمبلی اور حکومتی ایوانوں میں بیٹھے صرف وہ لوگ درست سمجھ رہے ہیں جو اپنے مفاد میں قانون نہیں قوانین جب چاہے بدل دیا کرتے ہیں ۔ ان میں ترامیم کردیا کرتے ہیں ۔ ان دنوں بھی نیب کے قوانین کو بدل دینے کی کوشش قومی اسمبلی کے ایوان کی جانب سے خصوصا لوٹ مار کرنے والے سابق حکمرانوں کی طرف سے جاری ہے ۔
کیا ایسے مسلط رہنماؤں کی بات پر توہین رسالت کی مجرمہ کو ریلیف دینا جائز ہے ؟
بلا شبہ قومی اسمبلی کے جمعہ کے اجلاس کا منظر اسلامی مملکت اور مدینے طرز کی ریاست بنانے کی بازگشت میں دینی جماعتوں اور دیگر لبرل ، سیکولر اور سوشلسٹ جماعتوں کو دو واضح حصوں کی تقسیم نظر آرہا تھا۔جو منتخب نمائندے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ رہتے ہوئے حکومت کے سخت اقدامات کے اعلان کی حمایت کررہے تھے ۔ وہ دین کی الف بے سے بھی واقف نہیں ۔یہ لوگ تو آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک درست طریقے سے نہیں پڑھ اور بول سکتے ہیں ۔
یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ پاک وطن کی مذہبی جماعتوں کو ان کے اپنے مؤقف کے ساتھ ملک کی سیاست سے دور کرنے کی کوشش کی گئی کی جارہی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ مذہبی جماعتیں ” چند افراد ” کا ٹولہ ہے جو قانون ہاتھ میں لیکر ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوششوں کررہا ہے ۔ اگرچہ اسمبلی میں تحریک لبیک اور جماعت اسلامی کے نمائندے بھی موجود ہیں ۔ اس لیے ایسا بھی تاثر قائم ہوا کہ یہی دینی جماعتیں ملک کی اصل اپوزیشن جماعتیں ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والی آسیہ کی رہائی کے فیصلے پر سراپا احتجاج ہیں ۔ ۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس اہم مسئلےپر نہ صرف وزیراعظم عمران خان کی حمایت کرکے بلکہ اپنے ہی سینئر رہنما خورشید شاہ کی تقریر کی بھی مخالفت کردی اور یہاں تک کہہ دیا کہ ” ہماری پارٹی کے ایک رہنما کی بات سے میں اتفاق نہیں کرتا یہ ان کا ذاتی مؤقف ہے ” ۔ اسی طرح مسلم لیگ کے صدر اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما میاں شہباز شریف نے بھی ملعونہ آسیہ کی رہائی پر ہونے والے جاری احتجاج کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات کی حمایت کردی تاہم انہوں نے یہ واضح کیا کہ اگر احتجاج کرنے والوں کو ہٹانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا تو وہ اس کی مخالفت کریں گے ۔ دیکھنے میں یہ بھی آرہا ہے کہ حکومت احتجاج کرنے والوں سے بات چیت کرنے کے بجائے انہیں مسلسل دھمکیاں دے رہی ہے ۔ملک کی موجودہ صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان کا چین کے دورے پر جانا بھی اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ وہ احتجاج کرنے والوں کے موقف کو سمجھنے اور اہمیت دینے کے بجائے ان کے مؤقف کو نظر انداز کررہے ہیں ۔ حکومت کے اس طرح کے رویے سے خدشہ ہے کہ دینی جماعتوں کا احتجاج کا سلسلہ طول پکڑ سکتا ہے ۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے آسیہ ملعونہ کے حق میں توہین رسالت کے مقدمے کا فیصلے پر عدالت عظمٰی میں فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کردی گئی ہے ۔ جس میں یہ بھی درخواست کی گئی ہے کہ نظرثانی کی اپیل کا فیصلہ ہونے تک آسیہ کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا جائے ۔ آسیہ کے بارے میں عدالت کے اس فیصلے پر جاری احتجاج سے بعض سیاسی عناصر بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے رہے ہیں ۔تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی جانب سے احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کی حمایت بھی صرف فائدہ اٹھانے کے لیے کی جارہی ہے ۔ ان حالات میں اگر کرپشن کے زیر تفتیش کیسز میں کسی بھی طرح کا ملوث افراد کو ریلیف ملا تو اسے بھی قوم کبھی قبول نہیں کرے گی ۔

حصہ