ہم جنگی قیدی نہیں

665

زاہد عباس
’’اقبال بھائی بھاگو بھاگو، جلدی سے نکلو، اس گلی سے نہیں، اْس گلی سے نکلو، وہاں پولیس کھڑی ہے۔ خواتین کو گھر کے اندر کردو، وہ گھر کا دروازہ بند کرلیں، انتہا کی شیلنگ ہورہی ہے، دیکھو کسی بچے کو نہ لگ جائے۔ انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے ان میں، کسی مفتوح علاقے کی طرح حملہ کردیا گیا ہے، یہ لوگ فائرنگ بھی کررہے ہیں۔ دیکھو بچوں کا خیال رکھو۔ کوئی بچہ باہر نہ نکلے۔ خدارا اپنی جان بچائو، گھر میں بیٹھو، اب باہر نہ نکلنا۔
پھوپھی اماں نظر نہیں آرہیں، وہ کہاں ہیں؟
وہ تو مدن بھائی کے دروازے پر کھڑی تھیں!
اف میرے خدایا، وہاں تو زیادہ فائرنگ ہورہی ہے۔ مدن بھائی پر تو خاصی لاٹھیاں برسائی گئی ہیں، انہیں تو شدید زخمی حالت میں ایمبولینس میں ڈال کر اسپتال لے جایا گیا ہے۔ جلدی جائو اور پھوپھی اماں کو لے کر آئو۔
نذیر بھائی آپ بھی اندر آجائیں، باہر حالات بہت خراب ہیں، خدا جانے کیا بنے گا! ہر طرف دھواں ہی دھواں ہونے کی وجہ سے میری تو سانسیں ہی رکی جارہی ہیں، اللہ اپنا رحم کرے۔ یہ ظالم لوگ ہیں، ان ظالموں کو خواتین اور بچوں تک کا خیال نہیں۔ ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ ہمارا جرم کیا ہے! بس اتنا کہ ہم اپنے لیے چھت کا تحفظ چاہتے ہیں، حکومت ہمیں بے سروسامان کرنا چاہتی ہے۔ مانا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا ہے، لیکن ہم جنگی قیدی تو نہیں جن سے اس طرح کا برتائو کیا جا رہا ہے۔ بیٹھ کر بات کرنے اور سننے سے تمام مسائل حل ہوجاتے ہیں، لیکن یہ تو بات بھی سننے کو تیار نہیں۔‘‘
ارشاد بھائی نے یوں ہانپتے کانپتے سب کو گھر کے اندر کرتے ہی دروازے کی کنڈی لگا لی۔
یہ کسی مقبوضہ علاقے کی صورت حال نہیں بلکہ کراچی میں برسوں سے قائم اُن وفاقی کالونیوں کی داستان ہے جہاں حکومتِ سندھ کی جانب سے پولیس گردی کا وہ مظاہرہ کیا گیا جس نے واقعہ ماڈل ٹائون لاہورکی یاد تازہ کردی۔
یہ بات تو طے ہے کہ پولیس پولیس ہوتی ہے، وہ کراچی کی ہو یا اندرون سندھ کی… پنجاب کی ہو یا خیبرپختون خوا کی… لباس بدل دینے سے ان کے بگڑے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آیا کرتی۔ ان کی تربیت ہی ایسی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ دوسروں کو اپنا مخالف اور دشمن سمجھ بیٹھتے ہیں، یا پھر حکم کے غلام ہوا کرتے ہیں… بس حکم ملتے ہی چڑھ دوڑو۔ شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری کا فن ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹرز سمیت تمام وفاقی کالونیوں سے متعلق سپریم کورٹ کی جانب سے آنے والے احکامات اپنی جگہ، لیکن یہاں کے مکینوں کے خلاف پولیس کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس ایکشن کے پیچھے سپریم کورٹ کے احکامات سے زیادہ کسی اور کی تائید نظر آتی ہے۔
پاکستان کوارٹرز سمیت کراچی میں قائم وفاقی ملازمین کی رہائش کے لیے بنائے جانے والے مکانات کو خالی کروانے کی تاریخ نئی نہیں، یہ سلسلہ 1984ء سے جاری ہے۔ یہ مسئلہ ہے کیا، اور یہاں رہائش پذیر خاندانوں کی قانونی حیثیت کیا ہے اور کن وجوحات کے باعث آج یہ مسئلہ انتہائی خطرناک صورت حال اختیار کر گیا ہے، ان ساری باتوں کی حقیقت جاننے کے لیے ہمیں ماضی کی حکومتوں کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ماضی کی وفاقی حکومتوں نے ان قدیم آبادیوں کے فلیٹوں اور مکانات میں رہائش پذیر مکینوں کی دستاویزات کی تصدیق کا کام سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہائوسنگ اینڈ ورکس کی سفارشات کی روشنی میں شروع کیا تھا۔ اُس وقت رہائشی کالونیوں کے اچانک سروے کی وجہ سے یہاں کے رہائشیوں میں خوف وہراس پھیل گیا تھا۔ اُس وقت یہ طے کیا گیا تھا کہ رہائشی آبادیوں کو خالی کرنے کے لیے وفاقی حکومت، سندھ حکومت، ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون رہے گا۔ اُس وقت کی حکومت کے زیرانتظام کام کرنے والی قائمہ کمیٹی برائے وزارت ہائوسنگ کی منظوری سے ایک آفس آرڈر جاری کیاگیا جس کے تحت پانچ ٹیمیں تشکیل دی گئی، ان کا کام کراچی میں جن وفاقی رہائشی کالونیوں کے مکانات اور فلیٹوں کا سروے کرنا تھا ان میں مارٹن کوارٹرز جیل روڈ ، جہانگیر روڈ، ایسٹ اینڈ ویسٹ، پٹیل پاڑہ، اولڈ لالوکھیت، پاکستان کوارٹر،گارڈن، آفیسر کالونی، فیڈرل کالونی شامل تھے۔ وفاقی رہائشی کالونیوں میں سی، ٹی، ایف، جی اور ایچ ٹائپ کے تقریباً آٹھ ہزار مکانات اور فلیٹ موجود ہیں۔ واضح رہے کہ سینیٹ کمیٹی برائے ہائوسنگ کے مطابق ایف سی ایریا، مارٹن کوارٹرز، کلیٹن کوارٹرز اور پٹیل پاڑہ میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور مختلف مافیا نے مبینہ طور پر سرکاری کوارٹرز اور مختلف اراضی پر قبضہ کر رکھا تھا جس کی بنیاد پر یہ مافیا سرکاری مکانات اور فلیٹ فروخت کرتا رہا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہائوسنگ کے مطابق سروے کا مقصد ان مکانات میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر خاندانوں کا تعین کرنا تھا، اس کا مطلب قطعی طور پر یہ نہیں تھا کہ ان آبادیوں سے قانونی طور پر مقیم خاندانوں کو بھی بے دخل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا جائے۔ چونکہ ان رہائشی کالونیوں میں قبضہ مافیا کی جانب سے مکانات اور فلیٹوں کی خریدوفروخت کا کام گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے، اس لیے غیر قانونی قابضین کے خلاف کارروائی کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ یوں سینیٹ کی کمیٹی برائے ہائوسنگ کی رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے کراچی کی سرکاری رہائشی کالونیوں میں قبضہ مافیا کے خلاف گرینڈ آپریشن کی تیاری کرلی اور اس کا باضابطہ آغاز کردیا گیا۔ ذرائع کے مطابق سرکاری ملازمین سے واجبات کی وصولی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور اس حوالے سے بھی فہرست مرتب کی جارہی ہے۔ جو ریٹائرڈ ملازمین بقایا جات ادا نہیں کریں گے اُن سے بھی فلیٹ اور مکانات خالی کرا لیے جائیں گے۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ مکانات خالی کروانے کے لیے کیے جانے والے گرینڈ آپریشن سے قبل وفاقی حکومت کراچی کی اہم شخصیات اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے گی اور اس آپریشن کا دائرۂ کار صرف قبضہ مافیا تک ہی محدود رہے گا، اور قبضہ کیے گئے تمام فلیٹ اور مکان خالی کرانے کے ساتھ ساتھ کمرشل بنیادوں پر جو تعمیرات کی گئی ہیں انہیں بھی منہدم کیا جائے گا۔
دوسری جانب وہاں رہائش پذیر خاندانوں کا مؤقف ہے کہ وہ ان مکانات کے قانونی طور پر مالک ہیں۔ ان مکانات میں رہنے والوں کی اکثریت کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے پاس اسٹیٹ آفس کی جانب سے جاری کردہ لیز کے کاغذات موجود ہیں ۔ بعض رہائشیوں کے بقول ان سے مکانات کی قیمت وصول کی جاچکی ہے۔ کئی خاندانوں کے بقول وہ حکومت کو واجبات ادا کرچکے ہیں اسی لیے تو اپنی عمر بھر کی کمائی ان مکانات پر لگاچکے ہیں، یہ حکومت کی چال ہے، ایک طرف سارے واجبات وصول کرچکی ہے اور دوسری طرف ہمارے گھروں پر پولیس کی چڑھائی کرواتی ہے۔
نصیر نامی شخص نے عدالت سے آئے فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہم اس جگہ کو چھوڑنے کے پابند ہیں۔ بے شک یہ فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق کیا گیا ہے، ہمیں اس سے کوئی اختلاف نہیں، ہمارا احتجاج تو اُس محکمے کے خلاف ہے جس نے ہم سے ان مکانات کی الاٹمنٹ کے نام پر زندگی بھر کی جمع پونجی لوٹ لی، ہم کس کے در پر جاکر اپنی فریاد سنائیں! کوئی سننے والا نہیں۔ دھوکادہی کرنے کے بعد یہ لوگ اب عدالتی فیصلے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہے ہیں، ہمیں چیف جسٹس سے کوئی گلہ نہیں، ہم کو تو اسٹیٹ آفس نے ڈسا ہے، ہماری تو چیف جسٹس صاحب سے بس اتنی سی فریاد ہے کہ خدارا ان ظالموں کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے ہم سے ہماری عمر بھر کی کمائی چھین لی۔ ان کے خلاف بھی جے آئی ٹی بنا کر تحقیقات کی جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔
ذرا سا دھیان دینے سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ پاکستان کوارٹرز سمیت کراچی میں قائم تمام ہی وفاقی کالونیوں کے مکینوں کے ساتھ کس قدر زیادتی کی گئی ہے۔ بے شک یہ بھی حقیقت ہے کہ ان لوگوں کے پاس کوئی ایسے ٹھوس ثبوت نہیں جن کی بنیاد پر ان غریبوں کی کہیں شنوائی ہوسکے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسٹیٹ آفس کے چالاک افسران نے ان کے ساتھ ہاتھ کیا۔ اب جبکہ عدالتی فیصلہ آچکا ہے اور انتظامیہ بھی کارروائی کے لیے سرگرم ہے، ایسی صورت میں ان غریبوں کے ساتھ ہوئی ناانصافی کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔ گورنر سندھ جناب عمران اسماعیل کی جانب سے اٹھایا جانے والا قدم قابلِ تعریف ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں تمام سیاسی جماعتوں کا متاثرین کے ساتھ کھڑا ہونا بھی خوش آئند ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ بجائے سیاسی پوائنٹس اسکورنگ کے، اس مسئلے کو خالصتاً انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حل کیا جائے اور گورنر سندھ کی جانب سے لیے جانے والے تین ماہ کے دوران ہی ایسا حل تلاش کیا جائے جس سے متاثرینِ پاکستان کوارٹرز سمیت تمام کالونیوں کے مکینوں کی پریشانیوں کا سدباب کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے، اور سب سے بڑھ کر تو یہ کہ وفاقی حکومت کا بے گھروں کے لیے 50لاکھ مکان ، جبکہ سندھ حکومت کا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ ہے۔ اس طرح دونوں کے انتخابی منشور میں غریبوں کے لیے مکانات بنانے کے منصوبے شامل ہیں۔
لہٰذا وفاقی حکومت پہل کرتے ہوئے ان مکانات کو اپنے 50 لاکھ گھروں کے منصوبے میں ڈال کر غریبوں کو مکانات کی الاٹمنٹ جاری کرے۔ اس طرح نہ صرف وزیراعظم پاکستان عمران خان کے اعلان کردہ 50 لاکھ مکانات بنانے کے منصوبے کا افتتاح ہوجائے گا بلکہ اس منصوبے سے تقریباً 8 سے10ہزار مکانات بھی اصل حق داروں کو مل جائیں گے۔ دوسری طرف سندھ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر ملک ریاض جیسے بزنس ٹائیکون کو کوڑیوں کے مول زمین دی جاسکتی ہے تو ان غریبوں کے لیے چند مرلے کے پلاٹوں کا بندوبست کرنا کوئی بڑی بات نہیں، اور ویسے بھی جس شہر میں جگہ جگہ چائنا کٹنگ کے نام پر ناجائز تعمیرات کی گئی ہوں، سرکاری زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہو اورحکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی ہو، جہاں کھیلوں کے میدان اور پارکوں میں پلازہ بنا دیے گئے ہوں، اور حکومت خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے میں مصروف ہو وہاں غریبوں کے لیے جائز طور پر چند پلاٹوں کا بندوست کرنے سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ یہ تو نیتوں کا معاملہ ہے، اگر حکومت اس مسئلے کو حل کرنا چاہے تو چند منٹوں میں کرسکتی ہے، اور نہ کرنا چاہے تو صدیوں میں بھی حل نہیں ہوسکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت سمیت تمام ہی اربابِ اختیار کب تک اس خالصتاً انسانی مسئلے کو حل کرکے پریشان حال مکینوں کو نوید مسرت سناتے ہیں۔

حصہ