ہمسایوں کو دکھ نہ دیں

1189
افروز عنایت
تھکی ہاری اریبہ سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل پر اپنے گھر کے دروازے پر پہنچی تو حسبِ معمول گندا پانی اور کچرا اس کے دروازے کے آگے پھیلا ہوا اس کا منہ چڑا رہا تھا، جبکہ دوسری منزل پر رہنے والی صوم و صلوٰۃ کی پابند خاتون کی ماسی وہ کچرا اس کے دروازے پر چھوڑ کر اوپر چڑھ رہی تھی، اوپر سے مالکن ہدایت دیتی آرہی تھی کہ بس اب اوپر آجائو۔ اریبہ بہت ٹھنڈے مزاج کی خاتون تھی لیکن انسان تھی فرشتہ نہیں کہ اپنی نیک پڑوسن کی روز کی اس عادت پر خاموشی کی مہر لبوں پر لگا کر بیٹھ جاتی۔ اس نے سوچا، آج ضرور وہ اس ماسی سے اس بات کی شکایت کرے گی۔ لہٰذا 15 منٹ کے بعد جب ماسی پڑوسیوں کا کام ختم کرکے سیڑھیاں اترنے لگی تو اس نے دروازے پر کھڑے ہوکر ماسی کو بلایا اور کہا ’’ماسی! آپ روز اس طرح اوپر سے سیڑھی دھوکر میرے دروازے پر گند پھیلا جاتی ہو، میں ملازمت پیشہ عورت ہوں، ملازمت سے آکر روز مجھے اپنے حصے کی سیڑھی دھونی پڑتی ہے، اگر نہ دھوئوں تو باہر کا کچرا گھر کے اندر آجاتا ہے، تم اگر سیڑھیاں دھو رہی ہو تو نیچے تک پانی لے جائو، یا کم از کم کچرا تو اٹھا لیا کرو‘‘۔
ماسی نے اس کی تمام بات اطمینان سے سنی اور کہنے لگی ’’آپ باجی (مالکن) سے بات کریں، اس نے ہی مجھے ایسا کرنے کے لیے کہا ہے‘‘۔
اریبہ کو ماسی کی بات پر بڑا تعجب اور حیرانی ہوئی کہ وہ پڑوسن نہ صرف صوم و صلوٰۃ کی پابند خاتون ہے بلکہ حج بھی کرکے آئی ہے، یہ کس طرح کا طرزعمل ہے اس کا!
٭…٭…٭
اس قسم کے واقعات عام طور پر چاروں طرف نظر آتے ہیں۔ دینِ اسلام نے تو غیروں اور اجنبیوں کو بھی آسانیاں دینے کی تعلیم دی ہے، حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کی ادائیگی کی اہمیت اور تاکید احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔ والدین اور رشتے داروں، ضرورت مندوں اور پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی معاشرے کو مستحکم کرتی ہے۔
والدین کے بعد ہمارے پڑوسی ہی ہیں جن سے ہمارا زیادہ واسطہ پڑتا ہے۔ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی بارہا تاکید فرمائی گئی ہے، انہیں تکلیف دینے پر آخرت میں سزا کی وعید سنائی گئی ہے۔ جیساکہ اس حدیث سے واضح ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کا پڑوسی اس کی ایذائوں سے امن میں نہ ہو۔‘‘ (مسلم شریف)
ویسے تو دینِ اسلام نے معاشرتی زندگی کو مستحکم کرنے کے لیے آس پاس رہنے والے اپنے پرائے سب کے ساتھ محبت و حسنِ سلوک کی تاکید فرمائی ہے، لیکن پڑوسیوں کے بارے میں کچھ زیادہ ہی تاکید فرمائی گئی ہے۔ اور بار بار حکم دیا گیا، جیساکہ اس حدیث سے واضح و روشن ہے: ایک انصاری صحابیؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے گھر سے نکلا، راستے میں دیکھا کہ ایک صاحب کھڑے آپؐ سے باتیں فرما رہے ہیں۔ بڑی دیر ہوگئی، یہاں تک کہ مجھے آپؐ کے تھک جانے کے خیال نے بے چین کردیا۔ بہت دیر کے بعد آپؐ لوٹے اور میرے پاس آئے۔ میں نے کہا کہ اللہ کے رسولؐ! اس شخص نے تو آپؐ کو بہت دیر کھڑا رکھا، میں تو پریشان ہوگیا۔ آپؐ نے فرمایا ’’اچھا تم نے انہیں دیکھا‘‘۔ میں نے کہا: ہاں خوب اچھی طرح دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جانتے ہو وہ کون تھے؟ وہ جبریلؑ تھے، مجھے پڑوسیوں کے حقوق کی تاکید کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کے اتنے حقوق بیان کیے کہ مجھے کھٹکا ہوا کہ آج تو پڑوسی کو وارث ٹھیرا دیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری)
جو پڑوسی گھر سے زیادہ نزدیک ہو اُس کا حق بھی زیادہ ہے۔ اور اگر پڑوسی مسلمان ہو اور رشتے دار، تو اس کے تین حق ہوں گے: اسلام کا، صلۂ رحمی کا اور ہمسائیگی کا۔
اماں عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آپؐ سے دریافت فرمایا کہ میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے ایک کو ہدیہ دینا چاہتی ہوں تو کسے بھیجوں؟ آپؐ نے فرمایا ’’جس کا دروازہ قریب ہو۔‘‘ (صحیح بخاری)
احادیث کی روشنی میں ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کیا ہم سب مسلمان اپنے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا برتائو کررہے ہیں، یا ہمارے کسی فعل اور طرزعمل سے انہیں تکلیف اور پریشانی تو نہیں ہورہی ہے۔ ہوسکتا ہے انجانے میں ہم سے کوئی ایسا عمل ہوجائے جس سے ہمارے پڑوسی کو تکلیف پہنچے جس کا ہمیں احساس بھی نہ ہو۔ مثلاً ٹی وی کی اونچی آواز جس سے آس پاس کے لوگ متاثر ہوں۔ ہوسکتا ہے کسی گھر کے بچوں کے امتحانات وغیرہ ہوں، ہوسکتا ہے پڑوس میں کوئی بیمار ہو۔ اس طرح آج کل جو ایک عام چیز دیکھی ہے وہ ہے گاڑی کا پارک کرنا۔ اکثر جب ہم کسی دعوت وغیرہ سے رات کو دیر سے گھر آتے ہیں تو ہماری گاڑی کی مخصوص جگہ پر کوئی اور لاپروا پڑوسی گاڑی پارک کردیتا ہے۔ گرچہ یہ بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے لیکن مجبوراً ہمیں گھر سے خاصی دور گاڑی پارک کرنی پڑتی ہے، اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ وہ جگہ کسی اور پڑوسی کی گاڑی کی نہ ہو۔ اس سے بھی سخت تکلیف تب ہوتی ہے جب رات کو ایک یا دو بجے کوئی دروازہ بجاکر کہتا ہے کہ آپ یہاں سے گاڑی ہٹائیں ہم گاڑی کھڑی کریں گے۔ میرے بیٹے کہتے ہیں کہ امی ہم تو اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی ہوئی گاڑی کے مالک کو رات کے دس بجے بھی ڈسٹرب نہیں کرتے جبکہ دوسرے لوگ اس بات کا خیال نہیں رکھتے۔ دینِ اسلام تو پڑوسیوں کے لیے آرام اور آسانیاں پیدا کرنے کی تعلیم دیتا ہے، یہاں تک کہ پھلوں کے چھلکے وغیرہ گھر کے باہر نہ پھینکنے کی تاکید ہے کہ مبادا پڑوسی کے بچے روئیں اور ماں باپ سے ان پھلوں کے لیے فرمائش کریں اور وہ خریدنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں۔ حدیثِ نبوی کا مفہوم ہے کہ وہ مومن نہیں جس کا پڑوسی بھوکا رہے اور وہ پیٹ بھر کر کھائے۔ اپنی حیثیت و طاقت کے مطابق جتنا ہوسکے پڑوسیوں کو سکھ و آرام پہنچانا افضل ہے۔ اگر انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے تو کبھی بھی پیچھے نہ ہٹیں، نہ ان کا طرزعمل اپنے ساتھ دیکھیں کہ فلاں موقع پر انہوں نے ہمارے ساتھ کیسا برتائو کیا تھا۔ ایک محفل میں مجھ سے ایک خاتون کہنے لگیں کہ آج کل تو لوگوں کے رویّے اور طرزِ زندگی ایسی ہوگئی ہے کہ آس پڑوس کے لوگ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہی نہیں، اگر کسی وقت کسی پڑوسی کے گھر چلے جائو تو حیران ہوجاتے ہیں کہ یہ کیوں آدھمکے، ہم سے انہیں کیا مطلب ہے! ایک وقت تھا کہ نہ صرف پڑوسیوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا رہتا تھا بلکہ بوقتِ ضرورت ایک دوسرے سے کوئی چیز لے بھی لیتے تھے۔ یہ زیادہ دور کی بات نہیں۔ اب یہ چیز بہت کم نظر آتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک وقت ایسا تھا، مثلاً ہماری پڑوسن کی نند کا انتقال ہوگیا تھا، وہ ایک ہفتے تک نند کے گھر رہیں، اس دوران ان کا ایک بیٹا اپنی پڑھائی کی وجہ سے گھر میں تھا، اس 15/14 سالہ بچے کو روز ہم تین وقت کا کھانا بھیجتے تھے اور اس کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتے تھے۔ اس طرح سب محلے والے ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔ وقت پڑنے پر ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے رہتے تھے۔ بعض اوقات اپنے آپ کو تکلیف میں رکھ کر بھی دوسرے کے سکھ و آرام کا خیال رکھتے۔ میری آج بھی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی پڑوسی کو میری فیملی کی وجہ سے تکلیف نہ پہنچے۔ اگر ہم کسی کو آرام اور سہولت فراہم کرنے سے قاصر بھی ہوں تو کم از کم کسی کو تکلیف دینے سے بچیں، یہی تعلیماتِ اسلامی ہیں۔
محلے میں آس پاس رہنے والوں کے علاوہ آپ کے اسکول، کالج یعنی تعلیمی اداروں میں ساتھ بیٹھنے والوں اور سفر کے دوران ساتھ بیٹھنے والوں کا بھی آپ پر حق ہے۔ ان کا خیال رکھنا یا انہیں تکلیف پہنچانے سے بچنا بھی ضروری ہے۔ حج کے دوران ایک بات نے مجھے بہت متاثر کیا کہ ہمارے گروپ کے تمام حجاج کرام اپنے ساتھیوں کا خیال رکھتے تھے۔ بوقتِ ضرورت ان کی مدد کے لیے آگے بڑھتے تھے۔ مناسک کی ادائیگی کے لیے منیٰ سے عرفات جاتے وقت ہماری ایک ساتھی بس پر سوار ہوتے ہوئے گر گئیں، انہوں نے بڑی مشکل سے مناسک کی ادائیگی کے فرائض انجام دیے۔ عزیزیہ میں ہماری رہائش تھی، 10 خواتین ایک ہال نما کمرے میں ساتھ ساتھ تھیں۔ ہم سب نے ان حجن کا بے حد خیال رکھا۔ میری مرحومہ چھوٹی بہن انہیں دن میں تین مرتبہ درد رفع کرنے والی کریم سے مساج کرتیں، ان کو کھانا پینا ہم بستر پر لاکر دیتے، صرف عبادت کے لیے وہ بستر سے اٹھتیں۔ وہ خاتون ہم سب کے طرزعمل کی وجہ سے بے حد مطمئن اور خوش تھیں، کہتی تھیں کہ اتنا خیال تو میرے گھر والے بھی میرا نہیں رکھتے۔ غرض کہ اس مبارک سفر کے دوران ایسے کئی واقعات دیکھنے کو ملے۔ شاید یہ اس مبارک سفر کے بھی اثرات تھے۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو عام زندگی میں بھی اپنے آس پڑوس رہنے والوں کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حصہ