شریکِ مطالعہ

702

نعیم الرحمن
ادبی جریدے ’تسطیر‘کا تازہ شمارہ نمبر پانچ اپنی تمام تر روایات اور دل چسپیوں کے ساتھ منظرعام پرآگیا۔ 700 صفحات کے ضخیم شمارے کے لیے بہترین اور معیاری ادبی تحریروں کی فراہمی پر مدیر نصیر احمد ناصر قارئین کی بھرپور ستائش کے مستحق ہیں، جب کہ صوری و معنوی حسن سے مزین تسطیر کی بروقت اشاعت کے لیے بک کارنر جہلم کے گگن شاہد اور امر شاہد قابلِِ داد ہیں۔ عمدہ اشاعت و طباعت سے آراستہ اس شمارے کی قیمت 800 روپے انتہائی مناسب ہے۔
تسطیر نے سرورق کے اندرونی صفحے پر ٹائٹل کے مصور سے متعارف کرانے کا اچھا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اِس مرتبہ سرورق کی مصورہ ماہ نور اسد ہیں جو کہتی ہیں کہ ’’میں اردو زبان پر عبور نہ ہونے کا اعتراف کرتی ہوں۔ والدہ کے ہاتھ میں تسطیر دیکھ کر اس کا ٹائٹل پینٹ کرنے کو دل چاہا۔ مجھے نصیر احمد ناصر صاحب کی شخصیت کا دھیما پن بہت اچھا لگتا ہے۔ میں نے نیشنل کالج آف آرٹس سے گریجویشن کیا ہے، میرا اصل موضوع پینٹنگ ہے جس میں، مَیں نے ڈسٹنگشن لی ہے۔ شاید یہ میرے والد اسد ملک مرحوم کی طرف سے لاشعور یا جینز میں شامل تھا۔ اسی لیے میں نے آرٹ اور پینٹنگز کو اپنا کیریئر بنایا۔ میں اس فیلڈ میں نوآموز ہوں۔ تسطیر کا حصہ بننا میرے لیے اعزاز سے کم نہیں۔ حال ہی میں ست رنگ آرٹ گیلری سرینا میں میری پینٹنگزکی مشترکہ نمائش بھی ہوئی ہے۔‘‘
ایک نوآموز مصورکو اس طرح سے متعارف کرانا تسطیرکا بہت اچھا اقدام ہے۔ سرورق اور پسِ ورق کی تصاویر سے ماہ نور اسد کے روشن مستقبل کی جھلک نظرآتی ہے۔
حمد و نعت کے بعد اِس بار مہمان اداریہ صنوبر الطاف نے ’’ہم ادب تخلیق کیوں نہیں کرتے؟‘‘ کے عنوان سے تحریرکیا ہے جس میں انہوں نے بجا طور پر ایک اہم مسئلے کی نشان دہی کی ہے: ’’کیا ہمارے ہاں ایسی کتابیں ہیں جو نئے لکھنے والوں کے لیے بطورِ خاص فائدہ مند ہوں؟ ایسی کتابیں جو اس امر پر روشنی ڈالیں کہ لکھنے والے کو کب،کیا اور کیسے پڑھنا چاہیے جن میں اچھی نثر، اچھی تنقید لکھنے کے لیے رہنما اصول ہوں۔ کیا تخلیقی سرگرمی اور تخلیقی عمل کے حوالے سے کچھ نصابی کتابیں ترتیب دی گئی ہیں؟ ہمارے کورسز میں کتنے ایسے عملی مضامین ہیں جو طالب علموں کو تخلیق کی جانب راغب کرسکیں؟ کیا ہم ہائی اسکول اور کالج کی سطح پر کری ایٹو رائٹنگ، پوئٹری اور پروز رائٹنگ، کمیونی کیشن اسکل وغیرہ قسم کے عملی مضامین پڑھاتے ہیں؟ ان سب سوالوں کے جواب ابھی تک تو نفی میں ہیں۔ ہمیشہ سے ہم سنتے آئے ہیں کہ ’’جس کو لکھنا ہے اس کو پڑھنا چاہیے‘‘۔ لیکن اس بات کا جواب آج تک کسی نے نہیں دیا کہ کیا پڑھنا چاہیے؟ ایک نظم نگار کو کیا پڑھنا چاہیے؟ کیا اسے اپنی خداداد صلاحیت اور تخیل پر بھروسا کرنا چاہیے؟ وہ اسلوب، تکنیک اور موضوع کے حوالے سے مددکہاں سے لے؟ چلیں تکینک کو تو چھوڑیں… وہ فکری بالیدگی، جو تکنیک اور اسلوب کو پختہ بناتی ہے، وہ کہاں سے آئے گی؟ سچ تو یہ ہے کہ ہمار ے پاس نئی نسل کے لیے ایسی کوئی سہولت نہیں ہے۔ سنجیدہ لکھنے والے خود اپنی کوشش اور ہمت سے ہی سیکھتے ہیں۔‘‘
صنوبر الطاف نے بہت کارآمد نکتے کی نشاندہی کی ہے، اس پر غور اور ایسی کتب اور مضامین کی اشاعت کا اہتمام بھی ہونا چاہیے جو نئے منصفین اور شعرا کی رہنمائی کرسکیں۔ تسطیر چار میں مدیر نصیر احمد ناصرکے اداریے ’’اردو نظم اور تیسری لہر‘‘ پر ڈاکٹر رشید امجد اور ڈاکٹر غافر شہزاد کا ردعمل بھی اس شمارے میں شامل ہے، جس میں موضوع کو مزید واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر غافر شہزاد کہتے ہیں کہ ’’جدید اردو نظم موضوعی نہیں رہی، جدید نظم پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گلوبل ولیج بن جانے والی دنیا کو ایک بڑے اجتماعی فنامنا کے طور پر سمجھے اور پیش کرے۔ آنے والے برسوں میں پانی اور ایندھن کی حسب ِ ضرورت دستیابی انسان کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ جغرافیائی حد بندیاں بظاہر قائم ہیں مگر اُن کے مفہوم بدل گئے ہیں۔ اس سبب سے وطنیت کا بیسویں صدی کا تصور تبدیل ہوگیا ہے۔ جنگیں، ہتھیار اور جنگ کی وجوہات بدل گئی ہیں۔ انسان کی انفرادی زندگی اور اس کی پرائیویسی کا تصور تبدیل ہوگیا ہے۔ اب اپنے کمرے میں تنہا رہ کر بھی وہ ساری دنیا سے رابطے میں ہے۔ ذرائع ابلاغ کی بے شمارصورتوں نے اسے پل پل خبر دینے کا سامان کررکھا ہے۔ عالمی سطح پر جمالیات اور جیومیٹری کے مشترکہ معیارات نے اس کو انتخاب کا وسیع میدان دیا ہے۔ ذاتی صلاحیتوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال نے خودی اور انسانی عظمت کے تصورکو تہس نہس کردیا ہے۔ تخلیقی کام انفرادی ہوتا ہے۔ اس انفراد پر اجتماع کا کیا اثر پڑتا ہے اور اس تخلیقی اظہار کی کیا نئی حسیات تشکیل پاتی ہے؟ آج کی نظم کا اہم سوال ہے۔ اس نئی نظم کے لیے ایک نئی زبان کی تشکیل کی ضرورت ہے جس کا محاورہ تمام زبانوں میں ایک جیسے معنی رکھتا ہو۔ عالمی سطح پر ہونے والے بڑے بڑے مظاہرکو الگ سے سمجھنے لگیں گے تو کنفیوژن اور بڑھے گا۔ اسی لیے نئی نظم کا تناظر بہت وسیع کرنا پڑے گا۔ ہمارے خطے کے ادب اور اردو نظمیہ شاعری کی یہی تیسری لہر ہے، جس کا مطالبہ نصیر احمد ناصر نے اداریے میں کیا ہے۔‘‘
پرچے میں ’’لمسِ رفتہ‘‘ کے زیرِ عنوان حال ہی میں عالمِِ جاودانی کو کوچ کرنے والے مصنفین کا ذکرِ خیر ہے۔ بھارتی ادیب اور دانش ور شمس الرحمن فاروقی نے’’عرفان صدیقی کی غزل‘‘ کا مختصر اور جامع تعارف کرایا ہے۔ نیر مسعود نے جن کے بارے میں کہا تھا کہ ’’آپ سے جو لوگ بھی واقف ہیں وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ آپ سے بہتر شاعر اس وقت ہندوستان، پاکستان میں موجود نہیں ہے، لیکن آپ کا نام اتنا مشہور نہیں ہے، جیسا کہ آپ نے خود کہا تھا:
تم بتاتے تو سمجھتی اسے دنیا عرفان
فائدہ عرضِ ہنر میں تھا ہنر میں کیا تھا‘‘
محمد حمید شاہد نے مشہور مترجم محمد عمر میمن کی یادوں کو ’’محبت اور مراسلت کے دس سال‘‘ میں تازہ کیا ہے۔ اردو اور عالمی ادب میں خطوط کا بڑا اہم مقام ہے، کیوں کہ کوئی ادیب جو بات اپنی تحریر میں نہیں کہہ پاتا وہ ذاتی خطوط میں کھل کر بیان کردیتا ہے۔ 45 صفحات کی اس طویل مراسلت میں دل چسپی کے بہت سامان موجود ہیں۔ نوجوان افسانہ نگار اور ناول نگار رفاقت حیات نے ’’کامریڈ ادیب یوسف حسن مرحوم کی چند یادیں‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’یوسف صاحب کو اپنے ہم عصروں پر ایک سبقت حاصل رہی کہ وہ جس سماجی اور معاشی نظام پر یقین رکھتے تھے، اس کے نفاذ کی خاطر انہوں نے عملی جدوجہد بھی کی۔ وہ ہمیشہ ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ بہت سے ادیبوں، شاعروں کے لیے ترقی پسندی اور مارکسی فکر محض ایک ذہنی اور تخلیقی سرگرمی رہی، لیکن یوسف صاحب کے لیے یہ فکر ایک مکمل نظریۂ حیات تھی، اسی لیے انہوں نے اپنی پوری عمر اس نظریے کے لیے وقف کردی۔ ہمارے معاشرے میں ایسے صاحبانِِ فکر و عمل کم یاب نہیں، نایاب ہوچکے ہیں۔‘‘
مدیر تسطیر نصیر احمد ناصر نے بھی یوسف حسن صاحب کو مختصر مضمون ’’منافع کی معیشت میں خسارے کا آدمی‘‘ میں یاد کیا ہے۔ یاسمین رشیدی نے بھارتی مصنف، شاعر اور مدیر زبیر رضوی کی نظم ’’بارش اورکینوس‘‘ کا تجزیہ کیا ہے۔ لمس ِ رفتہ کا آخری مضمون ’’زبانِ یارِمن یوسفی‘‘ میں امر شاہد نے مشتاق احمد یوسفی کا ذکر ِ خیر خوب صورتی سے کیا ہے۔
سلمیٰ اعوان کا ’’تین چوہیاں گھر سے نکلیں‘‘ کے عنوان سے دل چسپ سفرنامہ مصنفہ کے منفرد انداز کی اچھی تحریر ہے۔ جب کہ عرفان شہود اپنے نئے طرز کے سفر نامچوں میں اس بار ’’سسی کا شہر بھنبھور اور دیبل کا قلعہ‘‘، ’’بحیرہ عرب کا جمالِ رندانہ‘‘، ’’جسر ریلوے اسٹیشن، گرداس پور کا آخری موڑ‘‘، ’’حویلی سردار جوالا سنگھ اِن پڈھانہ‘‘ اور ’’کوٹ ڈیجی۔ صحرائی رسم الخط‘‘ لے کر آئے ہیں اور حسب ِ سابق ان کے سفرنامچے دل چسپ اور ریڈ ایبل ہیں۔ عرفان شہود کے سفرنامچے ’’سیپ‘‘ کے تازہ شمارے میں بھی شائع ہوئے ہیں۔
تسطیرکے تازہ شمارے میں افسانوی حصہ ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ہے جس میں نئے پرانے 33 افسانہ نگاروں کی تخلیقات کو جگہ دی گئی ہے۔ سینئر لکھاریوں میں رشید امجد کا ’’سمٹنے کی تمنا‘‘، ناصر بغدادی کا ’’ایک ہی منزل‘‘، سمیع آہوجا کا ’’اکویریم‘‘، مشرف عالم ذوقی کا ’’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘‘، محمد الیاس کا ’’وصال ِ سرمدی‘‘ اس شمارے کے بہترین افسانے ہیں۔ ناصر بغدادی منفرد افسانہ نگار ہیں۔ ان کا بہت عمدہ ادبی جریدہ ’’بادبان‘‘ ادب کے قارئین کو اب تک یاد ہے۔ کاش ناصر بغدادی ’’بادبان‘‘ کی اشاعت ِنو شروع کردیں۔ ان کے ساتھ بشریٰ اعجاز، منزہ احتشام گوندل، شاہین کاظمی، طارق بلوچ صحرائی کے افسانے بھی یاد رکھے جانے کے قابل ہیں۔ مجموعی طور پر تسطیرکا افسانوی حصہ بہت بھرپور اور جاندار ہے۔
افسانہ نما کے زیر عنوان عائشہ اسلم ملک ’’گوتم سے مکالمہ‘‘ اور ثمینہ اشرف ’’ایک طوائف کی خودکلامی‘‘ لے کرآئی ہیں، جب کہ مائیکرو فکشن کے محرک سید تحسین گیلانی کی ’’بندۂ خدا‘‘ اور ’’تہی دست‘‘ دو تحریریں حمید راجا کی ’’لڑکی اور بوڑھا کتب فروش‘‘ کے ساتھ شامل ہیں۔ سید تحسین گیلانی نے حالیہ چند برسوں میں مائیکرو فکشن پر بہت کام کیا ہے اوران کا ادبی کتابی سلسلہ ’’انہماک‘‘ بھی دورِ جدید میں تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے والے اسی فکشن کے فروغ کا عَلم بردار ہے۔
افسانوں کی مانند شعری مواد بھی بہت بھرپور ہے۔ دورِحاضر میں اردو نظم کے صفِ اوّل کے شاعر نصیر احمد ناصر کی زیر ِادارت حسبِِ معمول تسطیرکا حصۂ نظم منفرد اور شان دار ہے۔ طویل نظموں میں حارث خلیق کی ’’سلاطین‘‘، فرخ یار کی ’’پہلی پوہڑی‘‘، بشریٰ اعجاز کی ’’گوندل بار کی بیٹی‘‘، سلطان ناصر کی ’’اپنے فراق میں‘‘، عمار اقبال کی ’’ایڈگر ایلن پو کا کوا‘‘ اور سدرہ افضل کی نظم ’’صادقین‘‘ اپنی اپنی جگہ خوب سے خوب تر کی ترجمانی کرتی ہیں، جب کہ حصہ نظم 70 صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس میں 51 شعرا کی 130 تخلیقات موجود ہیں۔
’’خود ہی اپنے رستوں کے سنگِ میل ہوتے ہیں‘‘
فکر و فلسفہ میں دو مضامین شامل ہیں۔ ظفر سپل کا تو نام ہی فلسفہ کے بارے میں اچھی تحریر کی ضمانت ہے۔ انہوں نے فرانسیسی فلسفی روسوکے بارے میں معلومات سے بھرپور مضمون پیش کیا ہے۔ روسوکے اعترافات دو صدیاں گزرنے کے باوجود اب بھی دنیا کی کسی نہ کسی زبان میں ترجمہ ہوتے رہتے ہیں۔ آپ بیتی میں اپنے بارے میں تلخ سچائی بیان کرنے کا آغاز روسو سے ہی ہوا ہے۔ مضمون کے آخر میں روسو کی زندگی کا مختصرگوشوارہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ فرحت ظفر نے چینی فلسفی ’’کنفیوشس‘‘ کے بارے میں عمدہ مضمون پیش کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’کنفیوشس ازم ایک مثالی مذہب تھا، لیکن وہ بین الاقوامی حیثیت حاصل نہ کرسکا۔ اس میں کچھ تصورات مبہم تھے جیسا کہ آخرت کے بارے میں اس نے کوئی وضاحت نہیں دی۔ کہتا تھا کہ جو بھی ہے بس یہی زندگی ہے۔ سزا اور جزا اسی دنیا میں ہے۔ کنفیوشس خدا کو مانتا تھا، اس کی وحدانیت کا دیوانہ تھا، لیکن مذہب کے کئی پہلوئوں کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے چینی باشندے کنفیوشس ازم کے ساتھ تاؤ مت اور بدھ مت بھی اپنانے لگے۔ لیکن اب بھی کنفیوشس ازم کے پیروکار چین، کوریا اور جاپان میں پائے جاتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا میں کنفیوشس ازم چھٹے نمبر پر ہے۔‘‘
نقد و نظرکے تحت تبسم کاشمیری نے ’’نیرودا، شاعروں کا شاعر‘‘، ناصر بغدادی نے ’’گوئٹے کی خودنوشت، تجزیاتی مطالعہ‘‘ اور ڈاکٹر سعادت سعید نے ’’سرسید احمد خان کی علمی نہج‘‘ پر عمدہ مضامین پیش کیے ہیں۔ ڈاکٹر اقبال آفاقی نے مرزا اطہر بیگ کے منفرد اور بے مثال ناول ’’غلام باغ‘‘ کا بھرپور تجزیہ کیا ہے۔ طویل مضمون میں ناول کے اسلوب، کرداروں اور موضوع کا بہت عمدگی سے جائزہ لیا ہے جسے پڑھ کر ناول کے مطالعے کی تحریک ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالرحمن فیصل نے اسد محمد خان کے ترجمہ کردہ افسانوں کا تقابلی جائزہ لیا ہے اور ڈاکٹر قیصر زمان نے ’’سلطان اخترکی شاعری‘‘ پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ ایک اور عمدہ مضمون محمد عباس کا ’’ماڈل ٹاؤن کے افسانے‘‘ ہے جس میں عابد حسن منٹو اور تسنیم منٹوکے صاحبزادے بلال حسن منٹو کے اوّلین افسانوں سے قارئین کا اچھا تعارف کرایا گیا ہے۔
اختر شمار نے منفرد شاعر بیدل حیدری کا خوب صورت خاکہ ’’بیدل حیدری استاد شاعر‘‘ لکھا ہے جس میں اُن کی یادوں کو تازہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’بیدل حیدری فنی اعتبار سے واقعتاً استاد کے درجے پرفائزتھے۔ وہ خود خیام الہند سید جلال الدین حیدر دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے ایک تھے۔‘‘
تراجم کے حصے میں ہندی کے آنجہانی افسانہ نگار نرمل ورما کے افسانے ’’پرندے‘‘ کا بہت اچھا ترجمہ عامر صدیقی نے کیا ہے۔ کئی اور اچھے تراجم بھی اس حصے میں موجود ہیں۔ تسطیر کے حصۂ غزل میں نئے پرانے 41 شعرا کی 61 تخلیقات شامل ہیں جن میں جہاں اساتذہ ظفر اقبال اور جلیل عالی کا عمدہ کلام ہے، وہیںکئی ابھرتے ہوئے نوجوانوں نے بھی اپنے کلام سے اپنے بہتر مستقبل کی جھلک دکھائی ہے۔ پرچے میں حسب ِ معمول سندھی ادب اور بچوں کے ادب کو بھی جگہ دی گئی ہے، جب کہ دیرآید کے تحت بھی چند عمدہ تحریروں کو شامل کیا گیا ہے۔
غرض مجموعی طور پر ’’تسطیر‘‘ پانچ بہترین ادبی تحریروں کا ایک ایسا گل دستہ ہے جسے شائقینِ ادب اپنی لائبریری کی زینت بنانا پسند کریں گے۔ ایک مکمل ادبی گل دستہ تیارکرنے پر نصیر احمد ناصر کو بھرپور مبارک باد۔

حصہ