میرا نام مریم ہے

358

فارحہ شبنم (کینیڈا )
تیسری قسط
’’تم لائبریری سے جاؤ گی یا میں اُٹھ کر چلا جاؤں؟‘‘ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ میرے بابا ہیں۔ وہ میری جانب دیکھ نہیں رہے تھے، مجھ سے بات کرنا نہیں چاہتے تھے اور میرا نام تک اپنی زبان پر نہیں لا رہے تھے۔ میرے دل میں اب غم کے ساتھ ساتھ غصے کے جذبات ابھر رہے تھے۔ میں کافی ان کی ٹیبل پر ہی چھوڑ کر تیزی سے پیر پٹختے ہوئے لائبریری سے باہر نکل گئی۔
انھی دنوں پیٹرک بھی آگیا۔ شاید اس کو مجھ سے بات چیت کے لیے ہی خصوصاً بلوایا گیا تھا۔ اس نے اپنے تئیں مجھے سمجھانے کی بھرپور کوشش کی۔ وہ کبھی مختلف دلیلیں دے کر مجھ سے بحث کرتا اور کبھی جذباتی اپیل کے ذریعے مجھے گھیرنے کی کوشش کرتا۔ مگر اتنے دن میری ریسرچ اور سوچ بچار کی وجہ سے میرے پاس اُس کی ہر دلیل اور ہر حربے کا جواب موجود تھا۔ اس کے گزشتہ ٹرپ کے برعکس اِس دفعہ ہم کہیں باہر نہیں گئے بلکہ تمام بحث میرے کمرے میں ہی ہوتی رہی۔ بالآخر ایک ہفتے بعد وہ بھی مایوس ہوکر واپس لوٹ گیا۔ ماما بابا کی ناراضی کو دیکھتے ہوئے اب میں اسکول سے آنے کے بعد کمرے میں ہی بند رہتی۔ ماما بھی مجھ سے بس ضرورتاً ہی گفتگو کرتیں۔ ان کے لہجے میں اتنی اجنبیت ہوتی کہ میرا بھی ان سے بات کرنے کو دل نہ چاہتا تھا، اور میں غصے کے جذبات سے بھری رہتی۔ ان دونوں کا یہ رویہ میرے لیے انتہائی اذیت ناک تھا۔ میں اپنی پڑھائی پر بھی توجہ نہیں دے پا رہی تھی اور کمرہ بند کرکے کئی کئی گھنٹے بستر پر پڑی رہتی۔ میرے سامنے کوئی راستہ نہ تھا۔ ہر طرف ایک اندھیرا سا چھایا محسوس ہوتا تھا، اور میں نہیں جانتی تھی کہ کب تک میں ان کا یہ رویہ برداشت کرسکوں گی۔
انھی دنوں قرآن گروپ کے اندر سعد سے میری جان پہچان اور بات چیت شروع ہوئی۔ ہوا یوں کہ میرے ٹیچر کو جب میرے حالات کا اندازہ ہوا تو انہوں نے مجھے رضامند کرکے ایک دوسرے ٹیچر سعد سے جو اُن کے دوست بھی تھے، میری بات کروائی۔ سعد سے گفتگو ہوئی تو پتا چلا کہ وہ مجھ سے عمر میں تقریباً تیرہ سال بڑے تھے۔ ہم دونوں کے قطعی مختلف پس منظر، عمروں کے تفاوت، اور ایک دوسرے سے بالکل انجان ہونے کی وجہ سے میں خاصی ہچکچاہٹ کا شکار تھی، لیکن درحقیقت اس گمبھیر صورتِ حال میں وہ مجھے اپنے لیے امید کی واحد کرن کی مانند محسوس ہورہے تھے۔ میں اس نفرت بھرے کفر کے ماحول سے نکل کر اسلام کے تحت زندگی گزارنے کے لیے بے چین تھی اور ساری کشتیاں جلا کر زندگی کا نیا باب شروع کرنا چاہتی تھی۔ اگلی دو تین ویڈیو کالز میں سعد نے بنا میرے پوچھے اپنے گھر والوں، اپنی جاب اور اپنی مصروفیات کے بارے میں مجھے بتانا شروع کیا۔ ان سے گفتگو کے دوران مجھے پتا چلا کہ وہ دس سال قبل باپ کے انتقال کے بعد سے تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ فیملی کو سپورٹ کرنے کے لیے جاب کررہے تھے، اور جاب کی وجہ سے مانٹریال کے نواحی علاقے میں رہتے تھے، جبکہ ان کی والدہ اور دیگر چھوٹے بہن بھائی مانٹریال شہر کے اندر رہائش پذیر تھے۔ وہ ایک مقامی مسجد کے بورڈ کے ممبر بھی تھے اور مسجد کے تحت ہونے والی مختلف سرگرمیوں میں شریک رہتے تھے۔ ان سے بات چیت میں مجھے یہ بھی اندازہ ہوا کہ وہ ایک نسبتاً سنجیدہ مزاج رکھنے والے شخص تھے اور کینیڈا میں رہتے ہوئے اسلام پر عمل کرنے اور کمیونٹی کی بہبود اور اصلاح میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے کوشاں تھے۔ سعد نے مجھ سے میرے اور میرے گھر والوں کے بارے میں پوچھا۔ میری مصروفیات، مشاغل اور دلچسپیوں کے بارے میں معلوم کیا۔ جب انہیں پتا چلا کہ میں جمناسٹک میں بھی حصہ لیتی رہی ہوں تو انہوں نے مجھ پر واضح کیا کہ یہ ان کے اور ان کی فیملی کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہ ہوگا کیو نکہ وہ پردے کے اہتمام کے بغیر ان کھیلوں کے قائل نہیں ہیں۔ میں یہ بات کسی حد تک سمجھ سکتی تھی کیونکہ اسلام ایک عورت کو جس حفاظت اور حصار میں دیکھنا چاہتا ہے اس کے لیے یہ احتیاطیں لازمی ہیں۔ میرے حالات و معاملات کے بارے میں تفصیلی آگاہی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے مجھے باقاعدہ شادی کی پیشکش کی۔ ساتھ ہی مجھے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے مخالفت کے ڈر سے فی الحال اپنی والدہ کے سوا کسی کو اس بات سے آگاہ نہیں کیا کہ وہ ایک غیر پاکستانی یعنی مجھ سے شادی کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ میں اس وقت بمشکل سولہ سال کی تھی، لہٰذا وہ میرے والدین سے بھی بات کرنا چاہتے تھے۔ میرے لیے یہ ایک اور انتہائی نیا اور مشکل مرحلہ تھا۔ انجان شخص، عمروں کا فرق، اور میری جذباتی شخصیت… کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرنا چاہیے اور کس سے مشورہ لینا چاہیے۔ بہرحال خاصی دعائیں کرنے کے بعد میں نے ماما کو اعتماد میں لیا اور ان کو راضی کرکے بابا سے سعد کی بات کروا دی۔ بابا تو ایسے لگا جیسے مجھ سے جان ہی چھڑانا چاہ رہے تھے۔ بنا کسی حیل و حجت فوراً راضی ہوگئے اور ان کو چیکیا آنے کی دعوت دے دی۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس پر خوش ہوں کہ افسوس کروں! میرے بابا جو کبھی مجھے جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے اب ایک انجانے شخص کے ساتھ مجھے اتنی دور بھیجنے پر کیسے راضی ہوگئے؟ کیا ان کے دل میں میرے لیے محبت بالکل دم توڑ چکی ہے؟ کیا اسلام قبول کرنا اپنے چاہنے والوں سے ایسے قطع تعلق اور نفرت کا سبب بن جاتا ہے؟ اگر میں مضبوط ارادے کی مالک نہ ہوتی اور مستقل دعاؤں سے مدد نہ لے رہی ہوتی تو شاید یہ سب مرحلے مجھے قبولِ اسلام کے فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتے۔ لیکن میں نے خوب سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا اور میں اس پر قائم رہنے کے لیے ہر آزمائش سے گزرنے کو تیار تھی۔
سعد نے مجھے تاکید کی کہ میں اپنی پڑھائی پر پوری توجہ دوں اور ہائی اسکول ختم کروں، جب تک وہ میری کینیڈین امیگریشن کے لیے اپلائی کرکے پیپر ورک مکمل کرنے کا کام کریں گے۔ مگر جلد ہی معلوم ہوا کہ کینیڈا کی طرف سے دیگر یورپی ممالک کی طرح چیک ری پبلک پر بھی ویزا کی شرط اٹھائی جاچکی ہے۔ لہٰذا وہ دو مہینے بعد چیکیہ آرہے تھے۔ میری زندگی کا ایک اور اہم موڑ سامنے تھا مگر مجھے ایسا لگتا تھا کہ گویا میرے جذبات و احساسات میں زندگی باقی ہی نہ رہی۔ میں خود کو کسی تنکے کی مانند محسوس کررہی تھی جو ہر طرف سے سمندر کی تند وتیز لہروں کی زد میں تھا، اور لہروں کے اس مدوجزر میں مجھے خود اپنی انفرادیت اور انا ریزہ ریزہ ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔
جس دن سعد کی آمد تھی اسی دن بابا نے شام کی چائے پر انہیں گھر بلالیا تھا۔ مختصر سی ملاقات ہوئی۔ میں بھی وہیں تھی۔ ان کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ محض عمر میں ہی مجھ سے بڑ ے نہیں بلکہ میری نازک اور چھوٹی سے جسامت کے برعکس خاصے لمبے قد کاٹھ کے مالک تھے۔ مجھے ایک لمحے کو خیال آیا کہ شاید مجھے ویڈیو کال کے ساتھ ساتھ ان کا قد اور وزن بھی معلوم کرنا چاہیے تھا، مگر میں نے فوراً یہ سوچ کر اس خیال کو رد کردیا کہ جب یہ چیزیں سعد کے نزدیک اہم نہیں تو میں کیوں فکر کروں! ماما نے چائے کے لوازمات کے ساتھ ٹیبل پر خاصا اہتمام کیا تھا۔ پیٹرک اپنے امتحانات کی وجہ سے نہیں آسکا تھا۔ رسمی سی گفتگو ہوئی۔ سعد نے میرے والد کی اجازت لے کر مجھے ایک نیا چارج شدہ موبائل، سم کے ساتھ گفٹ میں دیا تاکہ مجھ سے رابطے میں رہ سکیں۔ جاتے ہوئے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ سب سے پہلے مسجد ڈھونڈیں گے جس کا پتا وہ معلوم کرکے آئے تھے، اور امام سے نکاح کی بات کرکے اگلے روز مجھے لینے آئیں گے اور تب تک میں اپنا سامان تیار رکھوں۔ میرا سامان تھا ہی کیا؟ چند کپڑے، کچھ یادگار تصویریں اور اس گھر اور اس کے باسیوں سے وابستہ اَن گنت یادیں۔ پاسپورٹ اور دیگر ضروری کاغذات میں نے پہلے ہی الگ فولڈر میں تیار کرلیے تھے۔ وہ رات میری اپنے ماما باپ کے گھر میں آخری رات تھی۔ نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی مگر کرنے کو کچھ نہ تھا۔ میں بستر پر لیٹی تھی اور کمرے کی کھلی کھڑکی سے باہر آسمان کے تاروں کو خالی ذہن سے تک رہی تھی۔ یہ تارے میرے پرانے دوست تھے۔ میں اکثر ان سے اپنے دل کا حال کہہ لیا کرتی تھی، مگر آج میرے پاس ان سے کہنے کو بھی کچھ نہ بچا تھا۔ بظاہر سعد ایک اچھے اور مخلص انسان دکھائی دیتے تھے مگر میں جانتی تھی کہ میں نے ایک بہت بڑا جوا کھیلا ہے اور آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ میرا فیصلہ درست تھا کہ نہیں۔
(جاری ہے)

حصہ