یہ دور ترقی کیسا ہے؟۔

280

جویریہ ندیم
سورج کی پہلی کرن جب آسمان پر پڑتی ہے تو چرند پرند آغازِ صبح کی نغمہ گوئی شروع کردیتے ہیں۔ ہر شے نکھری نکھری اور ترو تازہ نظر آتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے ہر ذی روح ربِّ کائنات کی حمد میں مصروف ہے۔ دن کا اجالا ہوتے ہی گھروں میں ٹی وی کا ریموٹ ہاتھ میں لیا جاتا ہے اور صبح کی نشریات، ’’مارننگ شوز‘‘ وغیرہ دیکھے جاتے ہیں۔ ایک طرف ٹی وی کی آواز پورے گھر میں گونج رہی ہوتی ہے تو دوسری طرف پراٹھوں کی خوشبو ماحول میں مہک رہی ہوتی ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ اب ہمارے یہاں روز صبح جو مارننگ شوز نشر کیے جارہے ہیں ان کا معیار پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔ ان پروگراموں میں نازک مسائل پر بحث کی جاتی ہے، گھریلو جھگڑوں کو ابھارا جاتا ہے…کوئی گانے بجانے کے مقابلے کروا رہا ہوتا ہے، تو کوئی اداکاروں کی ذاتی زندگی پر تبصرہ دکھا رہا ہوتا ہے… اور اس ترقی پر ماشا اللہ اور الحمدللہ کے الفاظ کا استعمال کیا جارہا ہوتا ہے۔ گویا گناہ کو گناہ سمجھنے کی تمیز بھی ختم کردی! کسی چینل پر شادی کی رسومات ہیں، تو کوئی مہنگے ملبوسات اور میک اپ کے کمال دکھانے میں مصروف ہے۔ اور اس دوران عوام کو نہ صرف اسراف اور ہوس جیسی بیماریوں میں مبتلا کیا جارہا ہوتا ہے بلکہ ذومعنی باتوں اور فحش گفتگو پر کھلکھلا کر ہنسا جارہا ہوتا ہے۔
نجانے ہمارے پروگرام کس کی عکاسی کرنے کے لیے اسلامی اقدار کا پلّو چھوڑ دیتے ہیں! ہر ملک میں اس کی اپنی ثقافت، کلچر اور مذہب کے مطابق میڈیا پر نشریات پیش کی جاتی ہیں… مگر ہم اس اصول سے بہرہ مند نہیں، اور اس ماحول میں رہنے والا ہر ذی شعور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ دورِ ترقی کیسا ہے، آثار بہاراں کیا ہیں؟
ہم نے انٹرٹینمنٹ اور تفریحات کو فحاشی سے جوڑدیا ہے، جبکہ عوام کے لیے تفریح فراہم کرنی ہے تو وہ اسلامی قاعدوں میں رہ کر بھی مہیا کی جاسکتی ہے۔ مثلاً مقابلہ کروانا ہے تو تقریر کے، بیت بازی کے، تلاوت ونعت کے، ترانوں اور نظموں کے مقابلے کرائے جائیں… کھیل کھیلنا ہے تو کوئز یا ذہنی آزمائش پر مبنی، مثلاً پہیلیاں بجھوائی جائیں۔ اداکاروں کو آئیڈیل بنانے کے بجائے عظیم ہستیوں، قوم کے رہنماؤں، خدمت گاروں کو دعوت دے کر ان سے گفتگو کی جائے۔ قصے کہانیوں کے پروگرام رکھے جائیں۔ منظر کشی یا فلم بندی جیسے ہنر کو سامنے لایا جائے۔ غرض طریقے بہت ہیں، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نقطہ نظر پر سوچا جائے کہ میڈیا کا کام عوام کو وہ تفریح و مشاغل فراہم کرنا ہے جو معاشرے کو منفی سوچ کے بجائے مثبت سوچ کی طرف راغب کریں۔

ہونٹوں کی سیاہی دور کریں

ہونٹوں کی سیاہی مائل رنگت وراثتی بھی ہوسکتی ہے، جب کہ کچھ خواتین میں لپ اسٹک بھی ہونٹوں کی رنگت گہری کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ سگریٹ، چائے، کافی، حتیٰ کہ تیز دھوپ بھی ہونٹوں کا رنگ گہرا کرسکتی ہے، لہٰذا جس حد تک ہو سکے ان سے بچیں۔ تھوڑے سے پانی میں چینی مکس کرکے ہونٹوں کی جلد کے مُردہ خلیات صاف کرنے کے لیے اس سے ہونٹوں کی ہلکی سی مالش کریں، اس کے بعد لیموں کا رس، شہد اور گلیسرین ہم وزن مقدار میں لے کر مکسچر بنا لیں اور یہ مکسچر ہونٹوں پر لگائیں۔ ایک گھنٹے بعد صاف کرلیں۔ چند ہفتوں تک روزانہ اس ٹریٹمنٹ کو جاری رکھیں۔ آپ اپنے ہونٹوں کی رنگت میں واضح فرق محسوس کریں گی۔ روزانہ رات کو ہونٹوں پر لیموں کا رس لگائیں، اس میں موجود قدرتی بلیچ ہونٹوں کی گہری رنگت کو ہلکا کرنے میں معاونت کرے گی۔ کچھ لوگ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے انار یا چقدر کا جوس اور کھیرے کا رس بھی استعمال کرتے ہیں۔

حصہ