نعمت کا شکر

423

عشرت زاہد
’’دادی جان، دادی جان، آج آپ میری پسند کی کہانی سنائیں گی ناں‘‘ ماریہ دوڑ کر دادی جان سے لپٹ گئی… جی ہاں میری جان… آج میں آپ کی پسند کی کہانی سنائوں گی۔ کیا سنیں گی آپ؟ ’’ جی دادی جان شہزادی والی…‘‘ ’’اچھا… چلو ٹھیک ہے۔‘‘
’’دادی جان… آپ ماریہ کی بات مان کر وہی بچوں والی کہانی سنائیں گی۔ عفان بیٹا… آپ دونوں ابھی بچے ہی تو ہیں چلیے جلدی سے دانت صاف کرکے رات کے سونے والا کا لباس پہن کر آئیں۔ ’’جی دادی جان ابھی آیا…‘‘
’’ہاں تو بچوں… ایک بادشاہ کی ایک پیاری سی بیٹی تھی۔ بادشاہ کی بیٹی کو شہزادی کہتے ہیں ناں!‘‘ جی جی ہمیں پتا ہے… لیکن اب تو کہیں پر بھی بادشاہ نہیں ہوتے… ’’ہاں زیادہ نہیں مگر کہیں کہیں بادشاہ بھی ہے اور شہزادیاں بھی۔ تو اس شہزادی کا نام تھا انعم ویسے تو یہ بہت اچھی لڑکی تھی… ذہین، بہادر، حاضر دماغ… ہر چیز بہت جلد سیکھ جاتی… بادشاہ نے اس کو دینی اور دنیاوی تعلیم دینے کا بہترین انتظام کر رکھا تھا۔ بہت اچھے استاد اور استانیاں دن کے مختلف حصوں میں بہت اچھے اور مختلف انداز سے شہزادی کو مختلف علوم سکھاتے تھے… ساتھ ہی، تیر اندازی، تیراکی، دوڑ کی مشق یہ سب بھی سکھایا جاتا تھا۔ تاکہ شہزادی ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کر سکے۔
آہستہ آہستہ شہزادی ہر کام میں ماہر ہوتی جا رہی تھی۔ بس ایک بری عادت تھی جس کا علاج بادشاہ کے پاس نہیں تھا۔ اور وہ تھی… کھانوں میں عیب نکالنا… اور یہ عادت انعم کو بچپن سے تھی، بادشاہ کے محل میں تو کھانے پینے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ بہت سے لزیذ کھانے، ہر طرح کے میٹھے پکوان، طرح طرح کے پھل اور مشروب، سب کچھ موجود تھا۔ بادشاہ کو گوشت زیادہ پسند تھا اور ملکہ کو سبزیاں پسند تھیں۔ اس لیے محل کے باورچی خانے میں ہر قسم کی سبزیاں اور گوشت کے بھی الگ الگ پکوان بنتے تھے۔ بادشاہ اور ملکہ کھانے میں کبھی عیب نہیں نکالتے تھے۔ جو بھی کھانا بنا ہوا ہوتا، خاموشی سے کھاتے۔ پسند آتا تو تعریفیں کرتے اور کبھی کچھ کمی محسوس ہوتی تو کچھ نہیں کہتے۔ بس خاموشی سے کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتے۔ اور انعم اپنے امی ابو سے بالکل مختلف تھی۔ اکثر جب اس کو کھانا پسند نہیں آتا وہ برا سا منہ بنا کر دسترخوان پر بیٹھ کر ہی باورچی کو برا بھلا کہنے لگتی۔ پھر بہت سارا کھانا پلیٹ میں لینا بھی اس کی عادت تھی۔ تھوڑا سا کھا کر پلیٹ ویسی ہی چھوڑ کر چلی جاتی… صرف پھل کھا کر گزارہ کر لیتی یا کوئی شربت پی لیتی…
بادشاہ اور ملکہ دونوں اکثر سمجھایا کرتے کہ ’’آپ تو اتنی پیاری بیٹی ہیں۔ ذہین اور سمجھدار ہیں… پھر یہ بات کیوں نہیں سمجھتی کہ رزق کی ناقدری نہیں کرتے ہیں۔ اس طرح کھانے میں عیب نکالنا اور رزق کو ضائع کرنے سے گناہ ملتا ہے۔ پھر اللہ نہ کرے نعمت کی ناشکری کرنے سے اللہ میاں ناراض ہو جائے اور آپ کو اللہ نہ کرے کوئی سزا دے دے۔ اس لیے جب کھانا کھانے بیٹھو تو سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا ہے۔ پھر اپنی ضرورت کے مطابق تھوڑا سا کھانا پلیٹ میں نکالنا ہے۔ اور پلیٹ بالکل صاف کرنی ہے۔ اور آخر میں اللہ کا شکر ادا کرنا ہے۔ ’’انعم سب کچھ سنتی، مگر مانتی کم ہی تھیں۔ اسی طرح سے وہ بڑی ہوتی گئی۔ اس کی تعلیم اور تربیت مکمل ہوگئی تھی۔ اب بادشاہ کو انعم کی شادی کی فکر ہوئی۔ اس کو کسی اچھے لڑکے کی تلاش تھی… بہت سے شہزادوں کے رشتے آچکے تھے مگر بادشاہ نے بہت سوچ سمجھ کر ایک تاجر کے بیٹے سے شہزادی کی بات پکی کر دی… اور کچھ دنوں بعد بہت دھوم دھام سے شادی بھی کر دی۔ کئی دن تک جشن منایا گیا۔ شہزادی اپنے دولہا کے ساتھ رخصت ہو کر اس کے گھر چلی گئی۔ اس کے امی ابو یعنی بادشاہ اور ملکہ بہت اداس ہو گئے تھے مگر کیا کرتے… چاہے بادشاہ ہو یا کوئی غریب فقیر ہر ایک کو اپنی بیٹی رخصت کرنا پڑتی ہے۔
شروع میں انعم اپنے گھر میں بہت خوش رہی… یہ بھی بہت بڑا محل نما مکان تھا۔ بہت سے نوکر چاکر تھے… میاں کی تجارت بہت اچھی چل رہی تھی۔ وہ تجارت کا سامان جہازوں پر لاد کر دوسرے ملکوں میں بھیجا کرتا تھا۔ پھر وہاں سے دوسرا سامان لے کر سمندر کے ذریعے واپس آتا۔ جو اپنے ملک میں مہنگے داموں سے بیچ دیا جاتا… اس طرح منافع زیادہ ہوتا تھا۔
لیکن آہستہ آہستہ کاروبار مندا ہوتا گیا یعنی منافع کم ہو رہا تھا۔ وہ پریشان ہو جاتا کہ آخر کیا بات ہے! پہلے جیسی برکت کیوں نہیں ہے۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ کچھ قرضہ لینا پڑ گیا… اور ایک دن خبر آئی کہ اس کا تجارت کا سامان جس جہاز پر لدا ہوا تھا وہ طوفان کی نظر ہو گیا… یعنی سمندر میں خوب زور دار طوفان آیا اور جہاز ڈوب گیا۔ اس کے ساتھ ہی سارا مال اسباب بھی ڈوب گیا۔ بڑا نقصان ہو گیا تھا…
اب ان کے پاس کوئی مال و دولت نہیں بچی، کوئی سرمایہ نہیں تھا۔ حالات بہت ہی خراب ہو گئے تھے۔ آہستہ آہستہ عالیشان گھر کا سارا سامان بکتا گیا۔ اور آخر میں گھر بھی بیچنا پڑا… کیوں کہ قرضہ بھی چکانا تھا۔ یوں شہزادی بڑے سے محل سے ایک چھوٹے سے گھر میں منتقل ہو چکی تھی… جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ سارے نوکر چاکر بھی چلے گئے… کیوں ان کی تنخواہ کیسے ادا ہوتی؟
دوسری طرف بادشاہ نے اپنی بیٹی کے حالات پر مکمل نظر رکھی ہوئی تھی۔ اس کو پل پل کی خبر تھی کہ بیٹی پر کیا مشکل آئی ہے۔ وہ اور ملکہ دکھی تو بہت ہوتے تھے مگر ابھی انہوں نے دخل دینا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ شہزادی کو اچھی طرح جانتے تھے کہ… بہت خود دار ہے۔ وہ کبھی بھی مدد لینے اپنے والد کے پاس نہیں آئے گی… اس لیے مناسب وقت کا انتظار کررہے تھے… اور بہت جلد وہ وقت آگیا…
ہوا یہ کہ شہزادی کا شوہر جس کا نام فرخ تھا وہ اچانک بہت بیمار پڑ گیا… اور اس پر بیماری کی وجہ سے غشی طاری ہو گئی یعنی وہ بے ہوش ہو گیا… کافی دیر تک انعم نے کوشش کی، چہرے پر پانی کے چھینٹیں مارے۔ دوائی منہ میں ڈالی مگر وہ ہوش میں نہیں آیا۔ اسی وقت دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی بادشاہ سلامت اور ملکہ کو دیکھا… تو بے ساختہ لپٹ کر رونے لگی… پہلی بات تو یہ کہ بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی تھی اور پھر یہ کہ شہزادی کی حالت دیکھ کر ماں باپ کا دل کٹ کر رہ گیا… شہزادی نے کپڑے بھی معمولی پہنے ہوئے تھے۔ بادشاہ نے فوراً داماد کو حکیم صاحب کے پاس بھیجنے کا انتظام کر لیا۔ اور بیٹی کو لے کر اپنے محل میں واپس آگئے۔
جب بادشاہ نے بیٹی سے حالات پوچھے تو وہ زارو قطار رونے لگی۔ اور رو رو کر اپنے حالات بتائے۔ آخر میں کہنے لگی… بابا جان… جب میں اس چھوٹے سے گھر میں رہنے لگی… اور سارے کام مجھے خود کرنا پڑے اور بالکل سادہ کھانا دیکھتی تو میرے آنکھوں میں آنسو آجاتے کہ کس طرح میں نا شکری کرتی تھی۔ محل میں کتنے اچھے اچھے کھانے پکتے تھے اور میں ہر کھانے میں عیب نکالا کرتی تھی۔ اور کھانا پلیٹ میں بچا کر ضائع کرتی تھی… مجھے اچھی طرح سے سمجھ میں آگیا تھا کہ اللہ میاں نے مجھے سزا دی ہے آپ کی نصیحت اس وقت سمجھ میں آئی۔ پھر میں نے اللہ تعالیٰ سے بہت معافی مانگی۔ اور اب میں ہر طرح کا کھانا اللہ کا شکر ادا کرکے کھاتی ہوں۔ ہر نعمت کا شکر کرتی ہوں۔ بادشاہ اور ملکہ بہت خوش ہوئے کہ ان کی بیٹی کی بری عادت اب دور ہو گئی ہے۔ اتنے میں ایک ملازم نے آکر خبر دی کہ داماد فرخ کی طبیعت کافی بہتر ہے اور ان کو ہوش آگیا ہے۔ پھر سب لوگ مل کر بیٹھے تو بادشاہ نے اعلان کیا کہ فرخ کو وزیر تجارت بنایا جاتا ہے۔ اور اب یہ لوگ ہمارے ساتھ محل میں ہی رہیں گے۔ اس اعلان کو سن کر سب لوگ بہت خوش ہو ئے… اور… اور…
دادی جان نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا… عفان اور ماریہ دونوں ایک ساتھ بول پڑے… ’’اور سب ایک ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگے‘‘
دادی جان ہنستی ہوئی کہنے لگیں۔ ’’جی ہاں بالکل ٹھیک… شاباش… چلو اب جلدی سے جا کر سو جائو…‘‘ ’’جزاک اللہ دادی جان آپ نے اتنی اچھی کہائی سنائی۔ اس سے ماریہ کے سمجھ میں بھی بات آگئی ہو گی۔ اب کبھی بھی یہ اپنا کھانا پلیٹ میں نہیں بچائے گی۔ روزانہ بچا دیتی ہے پھر امی کو اس کی پلیٹ صاف کرنا پڑتی ہے۔‘‘
’’افنان بھائی اب میں کبھی بھی کھانا نہیں بچائوں گی۔ ہمیشہ پلیٹ صاف کروں گی۔ کیوں کہ نعمت کی قدر کرنی چاہیے اور اللہ کا شکر کرنا چاہیے۔ اچھا دادی جان… السلام علیکم… شب بخیر وعلیکم السلام… خوش رہو آباد رہو۔

حصہ