نائٹ ڈیوٹی

242

مدیحہ صدیقی

دیکھو میں خون کا پیاسا ہوں
اڑنے میں تیز میں خاصا ہوں
جب رات اندھیری ہوتی ہے
تو صبح مری ہو جاتی ہے
سب بڑے، بڑے بھی ڈرتے ہیں
اور چادر تان کے سوتے ہیں
میں اپنے ٹھکانے سے اڑ کر
جب دیکھتا ہوں باہر آکر
کس کس کا خون میں چکھوں گا
کس کس کو کاٹ کے بھاگوں گا
جب میری بِین کو سنتے ہو
تو تالی خوب بجاتے ہو
تم بیٹھ کے خارش کرتے ہو
تو مجھ کو خوب ہنساتے ہو
گو چھوٹا سا میں مچھر ہوں
پر کام بڑے میں کرتا ہوں
گر تم کو مجھ سے بچنا ہے
تو پھر تو دوائی چھڑکنا ہے

حصہ