صفر المظفر

321

صدف نایاب
ٹن ٹن ٹن ٹن۔ ہاف ٹائم کی گھنٹی بجتے ہی اسد اور علی کینٹین کی طرف دوڑے۔ دونوں نے ایک ساتھ کچھ کھانے پینے کا سامان لیا اور بینچ پر بیٹھ کر کھانے لگے۔’’یار آؤ! اْدھر درخت کے نیچے بیٹھ کر کھاتے ہیں‘‘، علی نے کہا۔ ’’نہیں یار!تمھیں نہیں پتاصفر کا مہینہ چل رہا ہے‘‘۔ اسد نے حیرانگی سے علی کی طرف دیکھا۔ ’’ہاں تو صفر کے مہینے کا وہاں بیٹھنے سے کیا تعلق‘‘؟ علی نے پوچھا۔ ’’یہ ماہ نحوستوں والا ہوتا ہے۔ آزمائشیں، بلائیں،مصیبتیں وغیرہ اس ماہ میں بکثرت نازل ہوتیں ہیں۔ جنوں، بھوت پریتوں کا نزول ہوتا ہے۔اس لیے درخت سے دور رہنا ہی اچھا ہے‘‘۔ اسد نے تفصیل سے ماہ صفر کی نحوست کے بارے میں بتایا۔ ’’اچھا!میں نے تو پہلے کبھی نہیں سنا‘‘ علی تھوڑا دل میں ڈر سا گیا۔
ابھی اسد اور علی بیٹھے باتیں ہی کر رہے تھے کہ عدنان اور ماجد بھی اگے۔ ’’کیا کر رہے ہو تم دونوں؟ آؤ کرکٹ کھیلتے ہیں‘‘، ماجد نے کہا۔ ’’کچھ نہیں میں علی کو صفر کی نحوست کے بارے میں بتا رہا تھا۔اسے پتا ہی نہیں تھا‘‘، اسد نے جواب دیا۔ ’’اوہ! ہاں ٹھیک کہا تم نے اسد واقعی مجھے تو بھئی اس ماہ سے بہت ڈر لگتا ہے۔ دادی اماں کہتی ہیں۔ اس مہینہ میں کوئی نیا کام بھی نہیں شروع کرنا چاہیے برا شگون ہوتا ہے‘‘، ماجد نے بتایا۔’’ ہاں ٹھیک کہا تم نے میرے تایا جان کی نئی نوکری لگی تھی مگر وہ صفر کی وجہ سے اگلے مہینے شروع کی‘‘، عدنان نے مزید اضافہ کرتے ہوے کہا۔ ’’اور میری بہن کا رشتہ آیا تھابہت اچھا تھا مگر صفر کی وجہ سے انکار کر دیا۔ پھر دوبارہ وہ لوگ آئے ہی نہیں‘‘، اسد بولا۔ سب بچے آپس میں بھوت پریت کی باتیں کرنے لگے جس سے علی بالکل سہم ساگیا۔چھٹی کے بعد علی بوجھل قدموں کے ساتھ گھر پہنچا۔ اسے بہت تیز بخار بھی ہو رہا تھا۔
’’کیا ہوا بیٹا! تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے‘‘؟امی نے علی کو دیکھتے ہی سوال کیا۔ ’’جی امی! علی نے آہستہ سے جواب دیا اور کمرے میں چلا گیا۔ رات کو علی امی کے ساتھ ہی سونے کی ضد کرنے لگا۔ جس پر امی نے طبیعت خرابی کے باعث اپنے ساتھ ہی سلا لیا۔ اگلے دن علی اسکول بھی نہ جا سکا۔ ’’بھئی کیا بات ہے علی کل سے تم کچھ بجھے بجھے سے ہو‘‘؟ ابو نے پوچھا۔ جس پر علی نے کل سکول میں ہونے والی ساری گفتگو ابو امی کے گوش گزار کر دی۔ اچھا تو یہ بات ہے۔ ابو نے بات سمجھتے ہوئے کہا۔
تو پھر آؤ بیٹا آج میں تمھیں اس بد شگونی اور نحوست کی حقیقت بتاتا ہوں۔ اتنا کہہ کر ابو نے اخبار رکھااور علی سے گویا ہوے۔’’ دیکھو بیٹا! صفر کا مطلب ہے خالی۔ پہلے وقتوں میں چار حرمت والے مہینے یعنی ذیقعدہ، ذالحجہ، رجب اور محرم میں جنگ،لڑائی،قتال وغیرہ کی ممانعت تھی۔ پھر جیسے ہی صفر کا مہینہ آتا لوگ اپنے گھر خالی کر کے نکل پڑتے اور خونریزی شروع کر دیتے۔اس بنا پر لوگوں میں یہ بات مشہور ہونے لگی کہ یہ مہینہ بہت ہی برا ہے،یہ بد شگونی والا مہینہ ہے۔ اس میں کسی اچھے کام کی شروعات مثلا شادی بیاہ وغیرہ نہ کرو اور مصیبتیں،تکلیفیں،جن، بھوت زمین پر اترتے ہیں وغیرہ۔ اس لیے لوگوں میں ایسی لغو باتیں مشہور ہونے لگیں۔ یہ سب باطل عقائد ہیں‘‘۔
’’ایک بات اور بیٹا! اب کی بار امی علی سے گویا ہوئیں۔ یہ سب بدعات توہم پرستی ہوتی ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اور نہ ہی اسلام میں اس طرح کی باتوں کی گنجائش ہے‘‘۔ ’’مگر امی! یہ سب اب کیسے ختم ہوگا؟ اسکول میں تو سب یہ ہی سمجھتے ہیں‘‘۔ ’’ہاں بیٹا! یہ سب ایسے ختم ہو گا جب ہم زیادہ سے زیادہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کو عام کریں گے‘‘۔حدیث شریف میں آتا ہے۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’مرض کا متعدی ہونا نہیں (یعنی اللہ کے حکم کے بغیرکوئی مرض کسی دوسرے کو نہیں لگتا )اور نہ بدفالی لینا درست ہے ، اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے‘‘۔ (صحیح البخاری:5707) ’’بیٹا ہر مصیبت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اس لیے کبھی گھبرانا بھی نہیں چاہیے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں، ’’اور تمہیں جو مصیبت لاحق ہوتی ہے وہ اپنی ہی کرتوت کا نتیجہ ہے‘‘۔ (الشوری:30)
ابھی یہ باتیں جاری تھیں کہ پڑوس کی رضیہ صفر کی نحوست زائل کرنے کے لیے چاول اور حلوہ لے کر آئی۔ علی اسے دیکھتے ہی بولا ، ’’رضیہ باجی صفر کے مہینے میں کچھ برا نہیں ہوتا‘‘، امی ابو دونوں اس کی بات سن کر ہنسنے لگے۔ امی نے رضیہ کے پاس آکر کہا بیٹا یہ سب بدعات ہیں۔ ہمارے نبیﷺ نے فرمایا:’’ ہرنئی ایجاد چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے‘‘۔(صحیح النسائی :1577) ، امی نے رضیہ کو پلیٹیں واپس کرتے ہوئے کہا۔
اب علی صفر کی حقیقت سمجھ چکا تو اور اس کا بخار بھی اتر چکا تھا۔ مگر ایک کام ابھی باقی تھا اور وہ تھا اسے اپنے دوستو ںکو سیدھی راہ دکھانا۔ اگلے دن علی جب اسکول گیا تو کافی سارے بچے صفر کے جنوں بھوتوں کو لے کر ڈرے ہوئے تھے۔اس لیے علی نے اٹھ کر ٹیچر سے اجازت چاہی کہ وہ ساری کلاس کو کچھ بتانا چاہتا ہے۔ علی نے صفر سے جڑی ساری باتوں کی اصل اپنے کلاس فیلوز کو بتائی۔ جس پر میڈم فرزانہ نے اسے بہت سراہا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ٓاپ ﷺنے اس ماہ میں نیک اور اچھے کام بھی کر کے دکھائے مثلا، اسی ماہ کو چوتھی ہجری میں آپ ؐ نے ستر ماہر قراء کو اہل نجد کی تعلیم کے لیے روانہ کیا تھا، اسی ماہ میں خیبر فتخ ہوا۔
اسی ماہ کی نو ہجری میں قبیلہ خثعم کی جانب نبی ﷺنے سریہ بھیجا، اس سریہ میں غیبی طور پر اللہ کی طرف سے سیلاب کے ذریعہ مسلمانوں کو مدد ملی اور مال غنیمت حاصل کیے۔ سب بچوں نے ٹیچر کی بات کو غور سے سنا اور آئندہ کے لیے ان فضول باتوں سے بچنے کا پختہ عہد کیا۔
nn

حصہ