شکرگزار بندہ

487

تنویر اللہ خان
امین بھٹی کی تصویر سے اُن کی عمر کا اندازہ آپ خود کرلیں، جو نظر آرہی ہے اُ س سے کم ہی ہوگی، ہرغریب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے وہ بچپن میں بڑا ہوجاتا ہے پھر بڑا ہوتے ہی بوڑھا ہوجاتا ہے، غریب پرنہ بچپن آتا ہے اور نہ ہی جوانی کی بہاریں، بچپن، لڑکپن، جوانی، ریٹائرڈ لائف یہ سب خوشحالی کے چونچلے ہیں۔
سرائے خربوزہ اسلام آباد کی چھوٹی سی ایک دکان پر بیٹھے امین بھٹی نے بتایا کہ اُن کے اُنیس بچے تھے جن میں سے چار اللہ کے پاس چلے گئے۔ امین بھٹی اپنی زندگی کےا وراق الٹتے گئے اور میں حیران اور شُکر ادا کرتا رہا کہ اتنا سب کچھ سہنے کے بعد بھی وہ زندہ ہیں اور ہر سانس کے ساتھ ’’مالک تیرا شُکر ہے‘‘ کی گردان کررہے ہیں۔
بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اس کی بساط سےزیادہ بوجھ نہیں ڈالتے، اللہ نے اپنے بندے کو کتنا سہنے کی ہمت دی ہے کوئی آج تک یہ نہیں بتا سکا ہے۔
امین بھٹی نے جب سے ماں کی گود سے اُتر کرزمین پر پیر رکھا وہ دن ہے اور آج کا دن ہے اُنھیں کوئی دن قرار نہیں آیا اُس وقت تک سے لے کر آج تک سانس اور جسم کا رشتہ جوڑے رکھنے کی جدوجہد میں جُتے ہوئے ہیں، بچپن میں جب کھیلنے کے دن تھے تو جنگل سے لکڑیاں جمع کرتے تھے تاکہ دوسروں کا چولھا جلا کر کچھ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کا انتظام کرسکیں۔
اللہ بعض لوگوں کو زمین کا گز بنا دیتا ہے لہذا وہ اپنا گز اُٹھائے زمین ہی ناپتے رہتے ہیں امین بھٹی بھی ان میں سے ایک ہیں، اپنا گاوں چھوڑ کر ایبٹ آباد جا آباد ہوئے اور آرمی میں بھرتی ہوگئے، کچھ خاص ہی لوگ آرمی جوائن کرتے ہیں امین بھٹی جیسے تو بھرتی ہی ہوتے ہیں یہاں بھی کم آمدنی کی وجہ سے زندگی دشوار تر ہوگئی لہذا دوبرس کا طویل وقت گُزار کر پھر سے زمین ناپنے کو نکل پڑے، مشکل وقت مشکل سے گُزرتا ہے اسی لیے طویل محسوس ہوتا ہے۔
امین بھٹی کو جب زمین پر قرار ملا تو آسمانوں پر اُڑنے والی فوج ائرفورس میں ایک سو تیس روپے ماہوار تنخواہ پر بھرتی ہوگئے،ایک دن کلرک بابو نے خوشخبری سُنائی کہ تمہاری تنخواہ دو روپے کے اضافے کے ساتھ ایک سو بتیس روپے ہوگئی ہے بھرتی ہونے والوں کی دو روپیہ سے زیادہ کی اوقات ہوتی بھی نہیں، اُنھوں نے ایک دن لیٹ آنے پر مہینے بھر کی سزا کا انعام بھی پایا، آج بھی ائرفورس امین بھٹی کے بیس روپیہ کا مقروض ہے، جن کے پیٹ بھرے ہیں وہ حکومت کے مقروض ہوتے ہیں اور جو پیٹ پر پتھر باندھے ہیں حکومت اُن کی مقروض ہوتی ہے ۔
زرداری صاحب کے بلاول ہاوس کوسالہا سال سے میٹھا اور صاف پانی وافر مقدار میں مفت دیا جارہا ہے جب کہ غریب جس کے پاس پیٹ بھرنے کو کچھ نہیں وہ پانی خرید رہا ہے۔
امین بھٹی 1969ء میں شیر شاہ کراچی آگئے چپل کی دکان ڈالی، اکتیس برس کراچی میں رہے، کیا کچھ نہیں دیکھا، دکان ہی سونے، جاگنے، کھانے رہنے کی جگہ تھی لہذا ہر رات تھکن سے چُور جسم کے لیے بسترا لگتا تھا اور ہر طلوع آفتاب کو امید کے ساتھ سمیٹ دیا جاتا تھا پھر ایک کُلی اور چہرے پر پانی کے چند چھنٹوں کے ساتھ دن کا آغاز ہوجاتا تھا، ہر صبح پڑوس کے ڈھابے سے چائے، روٹی کے شاندار ناشتے کا دستر خوان سجتا تھا، ایک صبح ڈھابے کے بنگالی مالک کو معمول کا آرڈ نہیں ملا، وہ خود ان حالات سے گزرا ہوگا لہذا سمجھ گیا اور خبر لینے دوڑا آیا، امین بھٹی نے پردہ رکھنے کے لیے بھوک نہ لگنے کا بہانہ کیا لیکن وہ کیسے مانتا کہ رات کا بھوکا پیٹ صبح کو بھی کچھ نہیں مانگ رہا وہ بہت چاہ سے بولا تمہارے کھانے کا پیسے سے کوئی تعلق نہیں ہے جب ہو دے دینا اور نہ ہوں تو بھی کوئی بات نہیں، بنگالی ڈھابے والا قناعت پسند ابھی ننانوے کے پھیر میں نہیں پڑا ہوگا۔
زندگی کی گاڑی کو کھنچنے کے لیے کیا نہیں کیا، ملوں میں مزدوری کی، سبزی بیچی، سموسے پکوڑے بیچے لیکن کولھو کے بیل کی طرح ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا پائے۔
کچی آبادیوں کھیل کے میدان تو ہوتے نہیں اور نہ ان آبادیوں کے بچے کھلونے نام کی چیز سے واقف ہوتے لہٰذا امین بھٹی کی بیٹی پلاسٹک کی خالی ریل میں دھاگا ڈال کر اچھال رہی تھی، ریل گیارہ ہزار وولٹ کے تاروں میں جا لٹکی بچی اپنا قیمتی کھلونا کیسے چھوڑتی لہٰذا گھر کی دیوار پر چڑھ کر تاورں سے اپنا کھلونا چھڑانے کے لیے ہاتھ بڑھایا بچی کا ہاتھ تاورں تک نہ پہنچ پایا لیکن رہ جانے والا فاصلہ تاروں نے بچی کو اپنی جانب کھنچ کر ختم کردیا، اللہ کو زندگی مطلوب تھی لہذا ایک زور کے جھٹکے کے ساتھ بچی زمین کی طرف آرہی راستے میں لوہے کے دروازے پر لگی ہوئی سنگینوں میں لڑکی کا جبڑا کچھ اس طرح پرو گیا کہ بڑی چوٹ بھی نہ لگی اور بچی ہوا میں معلق ہوگئی، کوئلہ بنی بچی کسی نہ کسی طرح ہسپتال پہنچ گئی، اُسوقت کے سرکاری ڈاکڑ اتنے مصروف نہ تھے لہذا مریض کو دیکھ ہی لیتے تھے طویل علاج کے بعد بچی زندہ رھ گئی لیکن اسے ہسپتال سے فارغ نہیں کیا جارہا تھا تھا باپ نے اصرار کیا تو ایک سینئر ڈاکڑ نے امین بھٹی سے کہا کہ بچی کا بازو کاٹنا پڑے گا اس کی اجازت چاہیے، باپ کس طرح اجازت دیتا بیٹی وہ بھی غریب کی بیٹی اور بازو سے محروم کس طرح زندگی گزارے گی اب نہ عمر فاروقؓ کی حکومت ہے کہ فرات کے کنارے کتا جن کا مسئلہ ہو اور نہ ہی ہمارے حکمران اسکنڈے نیون حکمران ہیں کہ جو ہر ایک کی فکر کریں لہٰذا امین بھٹی بیٹی کا ہاتھ کاٹنے پر راضی نہ ہوئے اُنھیں بتایا گیا کہ جتنے دن گُزریں گے ہاتھ کٹنے کی حد بڑھتی جائے گی اور زیادہ وقت ہوگیا تو نہ ہاتھ رہے گا اور نہ ہاتھ والی رہے گی لہذا سوچ لو باپ نے کہا اجازت دینا میرے بس میں نہیں آپ جو مناسب ہو کرلو، میں اللہ کے ہر فیصلے پر راضی ہوں لہذا بچی کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، اللہ ہر انسان کو زندگی کاٹنے کا کوئی نہ کوئی وصٖف ضرور دیتا ہے لہذا وہ اب بچوں کو پڑھا رہی ہے اور کمپوٹر پر کام کرکے زندگی کا سامان کررہی ہے۔
امین بھٹی نمازِ جمعہ کے بعد گھر آئے تو معلوم ہوا کہ ان کا شیر خوار بیٹا اللہ کے پاس چلا گیا ہے، ماں اپنے دو دھ پیتے بچے کو ساتھ لے کر کسی عزیز دار سے ملنے کو گئی وہاں بچے کو بھوک لگی تو وہ رونے لگا ماں نے کشتی نما بوتل میں بھر کر دودھ دیا بھوکا بچہ بے تابی سے غٹاغٹ جلدی سے سارا دودھ پی گیا میزبان خاتون نے حیرت سے کہا کہ ’’بڑی جلدی پی گیا‘‘ ماں بچے کو لے کر گھر پہنچی تو بچے کی حالت بگڑ گئی ماں باپ نے اپنے بیٹے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن موت کا فرشتہ نہ مانا، امین بھٹی نے بتا یاکہ قبرستان گھر سے فاصلے پر تھا میں نے اپنے بچے کو گود میں اُٹھایا اپنے سینے سے لگایا اور قبرستان کی جانب چلنا شروع کردیا راستے میں لوگوں نے کہا کہ بچہ ہمیں دے دیں امین بھٹی نے جواب دیا جتنی دیر اللہ نے اسے ساتھ رکھنے کی اجازت دی ہے اسے میرے ساتھ رہنے دو۔
تیسرا بیٹا گھر کا مین ہول لوہے کی سلاخ سے صاف کررہا تھا لمبی سلاخ اوپر گُزرنے والے بجلی کے تاروں جا ٹکرائی جس سے وہ دور جاگرا اور اس نے دُنیا سے ہی منہ موڑ لیا۔
چوتھے بچے کے دُنیا سے جانے کی بات شروع ہوئی تو میں نے امین بھٹی سے کہا بس کافی ہے۔
ہماری اکثریت خود ترسی یعنی خود پر رحم کھانے کے عارضے میں مبتلا ہے، ہماری تو قسمت ہی خراب ہے، ہمیں تو موقع ہی نہیں ملا ، مصیبت نے ہمارا ہی گھر دیکھ لیا ہے، الحمد للہ امین بھٹی اس مریض کا شکار نہیں ہوئے اور آج بھی اپنی چھوٹی سی دکان پر بیٹھے اپنی ہر سانس کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کررہے ہیں۔
آج صورتحال یہ ہے کہ کوئی اربوں روپیہ لے کر پاکستان سے بھاگ گیا، کوئی ماڈل گرل ڈالر اسمگل کررہی ہے، کسی کے واٹرٹینک سے کروڑوں روپیہ برآمد ہورہا ہے، کسی کے گھر سے اتنا روپیہ نکل رہا ہے کہ گننے کے لیے مشین لگائی جارہی ہے، کوئی لاکھوں کی تنخواہ لے رہا ہے، حکومت اربوں ڈالر قرض لینے کا ارادہ کررہی ہے ہر طرف بڑی بڑی رقموں کے لین دین کا ذکر ہے۔
اس ساری ہلچل میں غریب کے لیے کیا ہے ؟ وہ اگر یہ سوچتا ہے کہ کوئی آئے یا جائے مجھے تو بیل کے طرح اپنا ہل ہی جوتنا ہے تو کیا غلط ہے؟۔
امین بھٹی کی بائیو گرافی بیان کرنے کی غرض یہ ہے کہ جو لوگ حکومت میں آکر یا جو حکومت سے باہر رہ کر ریاست مدینہ کا خواب دیکھ اور دکھا رہے ہیں اُن کے پاس امین بھٹی اور ان جیسے دوسرں کے لیے بھی کوئی منصوبہ ہے؟۔ کسی تیر، ترازو، شیر، بلے کے پاس ایک غریب آدمی کے لیے بھی کوئی پروگرآم ہے ؟۔ یا محض نعرے، وعدے اور دعووں کا لولی پاپ ہی غریب کا مقدر ہے۔

حصہ