شریک مطالعہ

798

نعیم الرحمن
نسیم درانی 1963ء سے ادبی جریدہ ’سیپ‘ نکال رہے ہیں۔ گویا سیپ نصف صدی کا قصہ ہے، دوچار برس کی بات نہیں۔ سیپ سے قدیم اور اس کے ہم عصر جریدوں میں ’نقوش‘، ’اوراق‘، ’نیرنگِ خیال‘ سمیت بیشتر جرائد مدیران کے انتقال کے بعد بند ہوگئے۔ اظہرجاوید کے صاحب زادے سونان جاوید ’تخلیق‘، احمد ندیم قاسمی مرحوم کی بیٹی ناہید قاسمی اور نواسے نیر حیات قاسمی ’فنون‘ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں فنون کا دو جلدوں پر مبنی ضخیم ’قاسمی صدی نمبر‘ شائع ہوا ہے۔ ’سویرا‘ بھی اپنی اشاعت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نسیم درانی پچپن سال سے ’سیپ‘ کو زندہ رکھنے پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ حال ہی میں سیپ کا 87 واں شمارہ شائع ہوا ہے۔ حیران کن طور پر بڑے سائز کے تین سو سے زائد صفحات کا جریدہ اب تک 200 روپے قیمت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ کرشمہ نسیم درانی کی ہمت اور عزم کا ہے۔ سیپ کا سرورق حسبِِ معمول منفرد مصور جمیل نقش نے بنایا ہے۔ جمیل نقش اور سیپ اب لازم وملزوم بن چکے ہیں۔
حسبِ روایت ابتدا حمدِ باری تعالیٰ سے ہوئی ہے۔ محمد انیس انصاری کی حمدکے دل میں اتر جانے والے دو اشعار:
دل اگر ذکر سے غافل ہو جائے
زندگی قبر میں داخل ہو جائے
میں تری یاد سے روؤں کسی شب
پھر یہ رونا مرا کامل ہو جائے
احمد رئیس، ریاض حسین چودھری، محمد انیس انصاری اور فرخندہ شمیم کی نعتوں کے بعد 9 مضامین قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔ سینئر قلم کار ڈاکٹر سلیم اختر نے’’وقت… تار حریر دو رنگ‘‘ کے عنوان سے وقت کی علمی اور ادبی حیثیت کو بہت خوب صورتی سے پیش کیا ہے، جس میں مسجدِ قرطبہ کے حوالے سے علامہ اقبال کے تصورِ وقت کو پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے اسی بارے میں عظیم سائنس دان آئن اسٹائن کی وقت اور روشنی کے بارے میں تھیوری مختصر اور عام فہم انداز میں بیان کی جس میں ہندی اساطیر اور یہودیوں کی ماضی سے پیوستگی اور دیوارِ گریہ سے لپٹ کر گریہ و زاری نے مضمون کو انتہائی معلومات افزا بنادیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالکریم خالد نے ’’ڈاکٹر سلیم اخترکی نئی تنقیدی جہات‘‘ کا بھرپور جائزہ لیا ہے اور سلیم اخترکی کتاب ’’تنقید، منطق، سائنس‘‘ کے اقتباس سے ان کے نظریے کو بہ خوبی واضح کیا ہے:
’’ہم کیوں کہ انتہا پسند ہیں اس لیے پُرامن بقائے باہمی کے قائل نہیں، بالکل اسی طرح تنقیدی تصورات اور ذوق کے پیمانوں کے معاملے میں بھی ہم پُرامن بقائے باہمی کے قائل نہیں۔ زندگی، ادب، تنقید، نظریات، تصورات، اصول و ضوابط اپنے لحاظ سے سبھی درست ہوتے ہیں۔ ان سب میں قطعی طور پر کچھ بھی قطعی نہیں، سبھی جزوی صداقت کے حامل ہوتے ہیں، اس لیے جزوکو جزو ہی سمجھنا چاہیے، جزوکو کُل تسلیم کرلینا گم راہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے قیامِ پاکستان کے بعد سعادت حسن منٹو اور حسن عسکری کی زیر ادارت شائع ہونے والے ادبی رسالے ’اردو ادب‘ کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے جس کے صرف دو ہی شمارے شائع ہوسکے تھے۔ ڈاکٹر نیر نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ نصف صدی سے نایاب، اردو ادب کے یہ دو یادگار شمارے مکتبۂ جدید کے حسن رامے دوبارہ شائع کررہے ہیں، جو بلاشبہ اکیسویں صدی کے قارئین کے لیے بھی تحفۂ خاص ہوگا۔
شاہد زبیرکا ’’قدیم اقوام کی اساطیر‘‘ کی تحقیق اور ترجمہ اس شمارے کا خاص مضمون ہے جس میں اساطیری داستانوں، ان کے کرداروں کی رنگا رنگی اور مذہبی عقائد میں ان کی شمولیت پر دل چسپ بحث کی گئی ہے۔ اساطیر سے دل چسپی رکھنے والے قارئین کے لیے اس مضمون میں بہت کچھ موجود ہے۔
ڈاکٹر سید طلحہ احسن نے خطباتِ اقبال کی آسان اردو تلخیص کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ ابتدا میں انہوں نے علامہ کے سات خطبات کے موضوعات کا تعین کیا ہے جس کے بعد خطبہ نمبر ایک علم اور مذہبی تجربہ کی تلخیص ہے۔ یہ ایک بہت عمدہ کاوش ہے۔ علامہ اقبال کے خطبات خاصے متنازع ہیں۔ کئی علمائے کرام کا دعویٰ ہے کہ علامہ نے خطبات کے بارے میں اپنے خیالات سے رجوع کرلیا تھا۔ ڈاکٹر سید طلحہ احسن کی اس کاوش سے یہ بحث ازسر نوشروع ہوسکتی ہے۔
آخری مضمون سعدیہ فرحت قدوسی کا آمنہ عالم کے شعری مجموعے ’’شعور کی دستک‘‘ کا طویل اورخوب صورت جائزہ ہے۔ آمنہ کی شاعری کے نمونوں سے ان کی بے پناہ تخلیقی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں جیسے یہ شعر:
لحن مطلوب ہے نہ یہ سوزِ گلو مانگتی ہے
شاعری اپنے سخنور سے لہو مانگتی ہے
ماں کے موضوع پراردو شعرا نے بہت خوب صورت اشعارکہے ہیں۔ آمنہ کایہ شعر دیکھیں:
شہر میں چھت ہے نہ ہی کٹیا کوئی گاؤں میں
پل جاتے ہیں وہ بچے بھی ممتا تیری چھاؤں میں
’’شعور کی دستک‘‘ یقینا ہر صاحبِ دل کے زیر مطالعہ آنی چاہیے۔ کتاب کی ترویج ہی ایسے مضامین کی کامیابی ہے۔
افسانے، قصے،کہانیاں کا حصہ اس شمارے میں 90 صفحات پر مبنی ہے، جن میں 13 نئے اور پرانے قلم کاروں کی 14 تخلیقات شامل ہیں۔ محترمہ بشریٰ رحمن دو افسانے لے کرآئی ہیں۔ ان کے دونوں افسانے ’’عشق آتش‘‘ اور’’قمارخانے‘‘ اپنی مثال آپ ہیں۔ ادب ہی بشریٰ رحمن کا اصل میدان ہے۔ اخلاق احمدکا ’’جب شہر غائب ہوا‘‘، سینئر افسانہ نگار رشید امجدکا ’’سنا ہے کبھی یہ شہر تھا‘‘ اور سلمیٰ اعوان کا ’’وہ شاخِ شجر‘‘ اس شمارے کے بہترین افسانے ہیں۔ اِس مرتبہ سیپ کی روایت کے مطابق کوئی طویل افسانہ یا ناولٹ شامل نہیں۔ اس کی جگہ پہلی بار مدیر سیپ نسیم درانی کی شخصیت اور زندگی میں ان کی کاوشوں کو ’’خود نمائی‘‘ کے عنوان سے خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے جو یقینا خود نمائی نہیں حق بہ حق دار رسید کے مترادف نسیم درانی کا حق ہے جس سے انہوں نے اپنے پرچے میں ہمیشہ گریز کیا۔ انہوں نے سیپ کے 87 شماروں میں اپنے صرف دو افسانے شائع کیے۔ سلطان جمیل نسیم کی نسیم درانی سے طویل رفاقت نصف صدی سے قائم ہے۔ انہوں نے ہی سب سے طویل مضمون میں ان یادوں کو قارئین سے شیئرکیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’میرا اور نسیم درانی کا حال یہ ہے کہ اگر حساب لگانے بیٹھیں تو نوعمری اور نوجوانی دونوں ہی یاد آنے لگیں گی۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس عمر میں نوجوانی کی باتیں ہی مرغوب ہوتی ہیں۔ مگر ایک الجھن اور ہے، نسیم درانی کے دَم کے ساتھ ’سیپ‘ وابستہ ہے اور سیپ کے ساتھ ادب… اور ان تینوں کو الگ الگ خانوں میں بانٹنا میرے لیے ایک دشوار مرحلہ ہے، کیوں کہ ایک دوسرے کے بغیر بات ادھوری سی لگے گی۔ جب رفاقت کی عمر طویل ہو تو یادداشت کے البم میں اتنی تصویریں لگ جاتی ہیں کہ کسی خاص تصویر کو چن کر احباب کو دکھانا دشوار ہوجاتاہے۔‘‘
لیکن سلطان جمیل نسیم نے بڑی خوبی سے یہ جھلکیاں دکھائی ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے ’’سیپ کا موتی‘‘ کے عنوان سے نسیم درانی کی مختلف ادبی کاوشوںکا بہ خوبی جائزہ لیا ہے۔ اظہر جاوید مرحوم کا مضمون قندِ مکرر کا لطف دیتا ہے جس کے عنوان ’’زنانہ نام والا پٹھان‘‘ ہی سے اس کی دل چسپی عیاں ہوتی ہے۔ نوجوان افسانہ نگار اور مدیر ’اجرا‘ اقبال خورشید کا ایکسپریس کے لیے لیا گیا انٹرویو ’’سیپ نصف صدی کا قصہ‘‘ بھی بہت عمدہ ہے۔ مدیر’کولاژ‘ اقبال نظر نے ’’نسیم درانی ایک پتنگ باز سجنا‘‘ کے نام سے مدیر ’سیپ‘ کو خراج تحسین پیش کیا ہے جس کے آخر میں وہ لکھتے ہیں: ’’اسے دیکھ کر اس کی نہیں، اپنی بھی درازیٔ عمرکی دعا مانگنے کو دل چاہتا ہے۔ اللہ کرے وہ اپنی صحت مند گداز اور چمکیلی مسکراہٹ کے ساتھ ہمیشہ ہمارے درمیان رہے، آمین‘‘۔ اقبال نظرکی اس دُعا میں سیپ کے تمام قارئین بھی شریک ہیں۔
’سیپ‘ کا شاعری کا حصہ اس شمارے میں بھی بہت عمدہ اور بھرپور ہے۔ غزلوں کے حصہ اوّل میں 30 شعرا کی77 غزلیں شامل کی گئی ہیں، جب کہ حصہ دوم میں شبی فاروقی کی 8 اور جان کشمیری کی 6 غزلیں ہیں۔ اس کے علاوہ 17 شعرا کی 27 نظمیں اور شبی فاروقی کے 3 گیت بھی شمارے کا حصہ ہیں۔ آخر میں تازہ کتابوں پر تبصرے ہیں۔ غرض ’سیپ‘ کا یہ شمارہ بھی حسب ِ روایت بے مثال اور قارئین کی بھرپور داد کا حق دار ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ سیپ اسی طرح اپنی سینچری مکمل کرنے کے بعد بھی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھ سکے۔
٭
معروف افسانہ نگار اور ڈراما نگار حجاب عباسی کے ادبی پرچے ’ادبِ عالیہ‘ کا چوتھا شمارہ بھی حال ہی میں شائع ہوا ہے جس کی اشاعت کے ساتھ اس کی باقاعدگی بھی ثابت ہوگئی ہے۔ ادبی جریدے کو بروقت شائع کرنا کارِدارد ہے۔ حجاب عباسی صاحبہ اس کاوش کے لیے داد کی حق دار ہیں۔ 300 صفحات کے شمارے کی قیمت 500 روپے ہے۔
پرچے کی ابتدا ریاض ندیم نیازی کی خوب صورت حمد سے ہوئی ہے جس کے دو اشعار بطور نمونہ پیش ہیں:
مل جائے اگر حمد کی اک بار سعادت
ہو جائیں سبھی زیست کے ادوار سعادت
خالق سے تعلق ہو کہ مخلوق سے اُن کا
دراصل ہیں انسان کے وہ افکار سعادت
خورشید بیگ میلسوی کی نعت کے بھی دواشعار:
ہو دل کے شبستاں میں اُجالا شہ والا
ہو نعت تری میرا حوالہ شہ والا
ہے باعثِ تسکین ترا اسمِ گرامی
دیتا ہے مریضوں کو سنبھالا شہ والا
حمد و نعت کے بعد چھ مضامین ہیں جن میں علی تنہا کا اردو کے بہت ہی اچھے اور منفرد مزاح نگار ’’محمد خالد اختر کے ساتھ گزرے سات سال‘‘ کا خوب صورت احوال ہے۔ علی تنہالکھتے ہیں: ’’میں جنوری 2002ء میں ملتان سے ٹرانسفر ہوکر بہاول پور ریڈیو اسٹیشن گیا۔ وہاں جاتے ہی مجھے محمد خالد اختر یاد آگئے جو واپڈا سے بحیثیت ایس ای ریٹائر ہوکر اپنے آبائی شہر آئے تھے۔ میری خالد اختر سے دفتر ’فنون‘ میں ملاقاتیں ہوتی رہی تھیں۔ وہ محمد کاظم کے ہمراہ ہر اتوار کو احمد ندیم قاسمی سے ملنے آتے۔ دونوں بہاول پوری تھے اور دونوں ہی واپڈا ہاؤس میں سینئر افسر۔ دفتر ’فنون‘ میں محمد کاظم کی نوک جھونک علی عباس جلال پوری سے رہتی۔ دونوں مذاہبِ عالم اور انگریزی ادبیات کے عالم تھے۔ ان کی گفتگو میں محمد خالد اختر زیادہ تر لب بستہ رہتے۔ وہ مزاجاً بھی بے حد کم گو، کم آمیزآدمی تھے۔ محمد خالد اختر اپنے دوستوں پر جان چھڑکتے تھے۔ ظہور نظرکی موت نے انہیں زندہ مار دیا تھا، اور جب شفیق الرحمن 2000ء میں انتقال کرگئے تو ان کی زندگی ویران ہوگئی اور ڈیڑھ برس بعد خود بھی پیوندِ خاک ہوگئے۔‘‘ ایک بہترین انسان سے علی تنہا نے بہت عمدگی سے قارئین کو متعارف کرایا ہے۔
مسلم شمیم نے ’’ڈاکٹر مبارک علی، جہانِ فکر و دانش‘‘ پر قلم اٹھایا ہے اور بالکل درست کہا کہ تاریخ ڈاکٹر مبارک کا سب سے بڑا حوالہ ہے۔ بہت اچھا، طویل اور معلومات سے بھرپور مضمون ہے۔ اس شمارے کا سب سے بہترین مضمون ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کا ’’یوں نہیں یوں!‘‘ ہے۔ اس طویل اوردلچسپ تحریر میں ڈاکٹرصاحب نے کئی ضرب المثل اشعارکے اصل خالقوں اور درست اشعار کو قارئین کے سامنے پیش کیا ہے، جیسے یہ مشہور شعر جو علامہ اقبال سے منسوب کیا جاتا ہے:
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اڑانے کے لیے
ڈاکٹر قریشی نے بتایاکہ یہ شعر شکرگڑھ کے ایک وکیل شاعر سید صادق حسین کی تخلیق ہے۔ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں مرحوم کی لوحِ مزار پر بھی کندہ ہے۔ تقریباً تیس صفحات کا یہ بہت دلچسپ اور چشم کشا مضمون ہے۔ اور قارئین کی کئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتا ہے اور بہت سے غلط العام اشعار کے تصحیح اور خالق کا علم ہوجاتا ہے۔
محمد فیصل لیاقت نے نثار عزیزبٹ کی آپ بیتی ’’گئے دنوں کا سراغ‘‘ کا جائزہ پیش کیا ہے۔ نثارعزیز بٹ معروف سیاستدان سرتاج عزیز کی بہن ہیں۔ انہوں نے اردو کو چار انتہائی خوبصورت ناول دیے۔ ان کی آپ بیتی ’گئے دنوں کا سراغ‘ اردو ادب کی اہم خودنوشتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ انہوں نے قرۃ العین حیدر کی یادوں پر مبنی بھی ایک بہت عمدہ کتاب لکھی ہے۔ ان کے شوہر اصغربٹ بھی ایک اچھے مصنف تھے جن کا طویل ناول کمال کا ہے۔ فیصل لیاقت نے تجزیے کے لیے بہت اچھی کتاب کا انتخاب کیا ہے۔
عامر رضوی نے اپنے مضمون ’’اشفاق احمد، شفو سے بابا جی تک‘‘ میں مشہور ادیب، افسانہ نگار، ڈراما رائٹر اور دانش ور اشفاق احمد کی یادوں کو بڑی خوبی سے تازہ کیا ہے اور ان کی کتاب ’’سفر در سفر‘‘کے اقتباسات سے اپنے نقطۂ نظرکو واضح کیا ہے۔ ’’عبدالعزیز خالد کی نعتیہ شاعری پر عربی زبان کے اثرات‘‘ پر مضمون ڈاکٹر جہاں آرا لطفی نے لکھا ہے۔ یہ بھی طویل مضمون ہے جس میں وفا راشدی کی خالدکے بارے میں رائے توجہ طلب ہے: ’’خالد نے اپنی شاعری کو بہت سی فرسودہ رسوم و قیود سے آزاد کرا لیا ہے۔ انہوں نے شاعری میں اتنے انوکھے اور دل موہ لینے والے تجربے کیے ہیں کہ اردو ادب کا قاری انہیں نظرانداز نہیں کرسکتا۔‘‘ وفا راشدی کی اس رائے پر مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔
غزلوں کے پہلے حصے میں پچیس شعرا کی اتنی ہی غزلیں شامل کی گئی ہیں جن کی ابتدا مرحوم صبا اکبر آبادی کی غزل سے ہوئی ہے، جس کے چند اشعار دیکھیں:
آؤ گے سامنے مرے تم کس لباس میں
رخنے ہیں لاکھ دامنِ وہم و قیاس میں
کیا شکر ہو نوازشِ ساقی کا پیاس میں
لکنت ہے تشنگی سے زبانِ سپاس میں
کیوں چاک پیرہن پہ پریشان ہو صباؔ
سجتا ہے حسنِ اہلِ جُنوں ہر لباس میں
مرتضٰی برلاس،نثارترابی،جان کشمیری،صبااکرام اورعرفان ستارکی غزلوں کے بھی کئی اشعاربہت خوبصورت ہیں۔غزل کے دوسرے حصے میں چھبیس شعراء کی اتنی ہی غزلوں کوجگہ دی گئی ہے۔جن میں پیرزادہ قاسم رضاصدیقی کی غزل ان کے مخصوص رنگ کی عکاس ہے:
یہ میرے لوگ ہیں میری فضا ہے میں نہیں ہوں
اگر یہ سب ہیں تو کس نے کہا ہے میں نہیں ہوں
زمانہ مجھ سے بچھڑ کر کسی بھی سمت چلے
ہر ایک سمت مرا نقشِ پا ہے میں نہیں ہوں
جہاں جہاں مرے بے حد قریب تھی دُنیا
وہاں وہاں پہ مجھے کہنا پڑا ہے میں نہیں ہوں
اس حصے میں انورشعور، عبداللہ جاوید، صابروسیم، جاوید صبا، سلمان صدیقی اور خالد معین کی غزلیں بھی دامنِ دل کو کھینچتی ہیں۔ حصۂ شعر میں عشرت آفرین کے ہائیکو اور سید زاہد حیدر کے گیت دلکش ہیں۔
حجاب عباسی نے سید عبدالقادرجیلانی کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے پیر نظام شاہ نظام کی شخصیت پر عمدہ مضمون پیش کیا ہے۔ جبکہ مستنصر حسین تارڑ کا رپورتاژ ’’پہلے پیر کا میلہ اورلاہورکی دیوالی‘‘ ان کی کتاب ’’لاہورآوارگی ‘‘ سے لیا گیا ہے۔ اور اس کی دلچسپی کے لیے یہی کہنا کافی ہے کہ یہ مستنصرحسین تارڑ کی تحریر ہے۔
تقریباً سو صفحات پر مشتمل افسانوی حصے میں صرف 9 افسانے شامل ہیں جس کی وجہ بیشتر افسانوں کی طوالت ہے، لیکن اچھے افسانے میں طوالت گراں نہیںگزرتی۔ محمد حامد سراج کا ’’خناس‘‘، مشرف عالم ذوقی کا ’’گلیشیئرٹوٹ رہے تھے‘‘ اور اخلاق احمدکا ’’ریٹائرڈ بخاری کی نئی زندگی‘‘ اپنے موضوعات اور برتاؤ کے اعتبار سے اس شمارے کے اہم افسانے ہیں۔ پرچے میں ’’ایک خط ایک افسانہ‘‘ کے الگ عنوان سے نیلم احمد بشیر کے والد ’’احمد بشیرکے نام ایک خط …ایک افسانہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ یہی خط تازہ ’سیپ‘ میں بھی شامل ہے۔ ایک معروف مصنف کا ایک ہی تحریر دو پرچوں میں بھیجنا کچھ مناسب نہیں۔ مجموعی طور پرحجاب عباسی کا ’ادب عالیہ‘ کا یہ شمارہ قارئین کی توقعات پر پورا اترتا ہے جس میں مضامین کا حصہ زیادہ وقیع ہے۔

حصہ