خلافت جمہور، مفہوم وشرائط

500

پروفیسرڈاکٹر انیس احمد
دوسری اور آخری قسط
خلافتِ جمہور کی روح یہ ہے کہ فیصلے کی طاقت محض حزبِ اقتدار یا حزبِ اختلاف کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ تمام باشعور افراد قرآن و سنت کی روشنی میں اُمورِ سلطنت چلانے کا اہتمام کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام میں مخالفت براے مخالفت اور محض عصبیت اور سیاسی مفاد کی بنیاد پر اطاعت اور ہم نوائی کے مقابلے میں وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۝۰۠ (المائدہ ۵:۲) کو رہنما اصول قرار دیا گیا ہے۔ خلافت ِ جمہور میں کسی پیشہ ورانہ حزبِ اختلاف کا تصور نہیں پایا جاتا کہ اسے لازماً حزبِ اقتدار کی ہر بات کی مخالفت ہی کرنی ہے بلکہ کسی بھی بات کی صداقت براہِ راست قرآن و سنت کی بنیاد پر مان لینے کا نام نیابت و خلافت ہے۔ خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت بجاے خود کوئی حتمی حیثیت نہیں رکھتی، البتہ شریعت کے ذریعے اصولوں کی بنیاد پر تبدیلی لانے کی جدوجہد آئینی ذرائع سے کی جائے تو وہ خلافت ِ جمہور کے قیام کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی معاملات ہوں یا معاشی، دفاعی، ثقافتی اور قانونی مسائل، ہر معاملے میں مشاورت یا شوریٰ کو بنیاد بنایا جائے۔ شوریٰ کی روح اختلاف ِ راے ہے، جتھابندی نہیں ہے، نجویٰ نہیں ہے، غیبت نہیں ہے بلکہ کھل کر معاملات پر گفتگو و تبادلۂ خیالات کے ذریعے اجماع یا اتفاق راے کا پیدا کرنا ہے۔ اور اگر اتفاق راے نہ ہوسکے اور معاملہ حکمت اور مصلحت کا ہو اور جو معصیت سے پاک ہو تو پھر اکثریت کی راے ہی معتبر ہوگی لیکن اللہ کی نافرمانی کی صورت میں کوئی اطاعت نہیں۔ لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ(مصنف ابن ابی شیبۃ، حدیث: ۳۳۰۵۴) ’’خالق کی نافرمانی والے کام میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے‘‘۔
یہاں فیصلہ مغربی یا مشرقی قوموں کے بنائے ہوئے ضوابط پر نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کے دیے ہوئے حریت و آزادی، امانت و دیانت اور تقویٰ و احسان کے ضوابط پر ہے۔ یہاں ہرراے اور عمل کا پیمانہ ہدایت ِ الٰہی اور اسوئہ نبویؐ ہے۔
خلافت جمہور کا مطلب وہ نظام ہے جس میں احتساب پر عمل کیا جارہا ہو۔ قائد سے لے کر ایک عام کارکن تک کا احتساب اجتماعی ضوابط کی روشنی میں کیا جاسکتا ہو اور کیا جا رہا ہو۔ خلافتِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ ملک سے اس لادینی نظام کو ختم کیا جائے جس میں دین و دنیا میں تفریق کرکے خالق کائنات کو مسجد تک محدود کر دیا جاتا ہے اور مسجد سے باہر مادی قوتوں اور عوام کی خوشی اور خواہشوں کو اپنارب بنا لیا جاتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسانی فکر کے تمام خودساختہ بتوں کوپاش پاش کرنے کے بعد بے لوث اور ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار ، باصلاحیت، خدمت کرنے والوں کو مناصب کے لیے نامزد کیا جائے۔
خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ انفرادیت پسندی، قومیت اور صوبائی اور لسانی عصبیت جیسے تمام بتوں سے معاشرے کو پاک کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات اور شریعت کو زندگی کے تمام معاملات میں نافذ کردیا جائے۔
خلافت جمہور کے لوازمات
خلافت ِ جمہور کا قیام ضروری نہیں کہ چند ہفتوں، چند مہینوں یا چند برسوں میں تکمیل کو پہنچ جائے۔ قوموں اور تحریکوں کی زندگی میں ۷۰سال پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں۔ اس لیے تحریکی کارکنان کو اپنی سوچ کو درست رُخ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک حکایت ہے کہ ایک ۹۹سالہ بوڑھا اللہ کے بندوں کی بھلائی کے لیے کھجور کی گٹھلی بو رہا تھا کہ آنے والی نسلیں اس سے فائدہ حاصل کرسکیں۔ تحریک کی دعوت بھی اسی نوعیت کی ہے۔ اس کی جدوجہد براے خلافت جمہوربھی فوری نتائج سے بے پروا ہوکر اچھائی کے بیچ سنگلاخ زمین کے کچھ حصے کو نرم کر کے ڈالنا ہے کہ آہستہ آہستہ اس کی جڑیں چٹانوں میں دراڑیں ڈال کر اپنے تنے کو مستحکم کردیں اور اس کی شاخیں تمام انسانیت کے لیے سایہ، سکون اور پھل فراہم کرنے کا ذریعہ بن جائیں۔
دعوتِ دین کا شجر طیبہ بھی ایسا ہی ہے، لیکن اس شجر طیبہ کے لگانے اور اس کی پرورش کی کچھ شرائط اور لوازمات ہیں جن کو پورا کیے بغیر یہ پودا درخت نہیں بن سکتا اور درخت پھل نہیں دے سکتا۔ ان شرائط میں سب سے اوّل دعوت حق دینے والے کا خلوصِ نیت ہے۔
دین میں خلوصِ نیت بنیاد ہے۔ نماز ہو یا روزہ یا حج یا زکوٰۃ کی ادایگی میں خلوصِ نیت نہ ہو تو یہ سب ریا بن جاتے ہیں اور اپنا ثواب یا اجر کھو بیٹھتے ہیں۔ اگر ایک درسِ قرآن اس لیے دیا جارہا ہو کہ مقرر کو عالمِ دین سمجھا جائے۔ اس کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو، اس کا چہرہ سوشل میڈیا پر بطور ایک تحریکی رہنما کے لوگوں کو نظر آئے، اس کے درس کی رپورٹ تصویر سمیت کسی رسالے یا اخبار میں طبع ہو، تو یہ عمل اللہ کی نصرت اور برکت سے محروم رہے گا اور سیکڑوں افراد کے درس کو سن لینے کے باوجود تبدیلیِ فکر، تطہیرقلب اور تعمیرکردار پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اگر درسِ قرآن دینے والے کی نیت بغیر کسی اجر اور علمیت کے اظہار کے، صرف اور صرف رضاے الٰہی کا حصول ہے، تو یہ عمل چاہے بہت چھوٹے پیمانے پر ایک مسجد یا گھر میں محض پانچ سات افراد کی مجلس میں کیا گیا ہو لیکن نتائج کے اعتبار سے زیادہ تعمیری اورثمرآور ثابت ہوگا۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ سے پہلے تمام انبیا ـؑ نے اپنی دعوت پیش کرنے کے بعد ایک ہی بات تو کہی تھی کہ: ’’میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو میرے رب کے پاس ہے‘‘۔
اگر اللہ کے بندوں کی خدمت (وہ طبی امداد ہو، تعلیم ہو، بیوائوں، یتامیٰ کی خبرگیری ہو، ضعیفوں کی نگہداشت ہو اور اس طرح کے دیگر رفاہی کام) اس غرض سے کیے جائیں کہ وہ اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں ان سے کوئی ذاتی فائدہ مطلوب نہیں تو صرف اس صورت میں ان کاموں کے اثرات، دعوت کی تو سیع کی شکل میں ظاہر ہوں گے۔ اگر رفاہی کاموں کا مقصد ووٹ کا حصول ہوگا تو آخرت تو ہاتھ سے گئی ہی، دنیا بھی یقینی نہیں کہی جاسکتی۔
گویا خلافت ِ جمہورکا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہرعمل کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضاکا حصول ہونا چاہیے۔ اگروہ ہمارے کام سے خوش ہوکر لوگوں کے دلوں میں دین کی دعوت کے لیے جگہ پیدا کردے ، اور جو کل تک مخالف تھے ان کو ولی بنا دے تو یہ اس کا کرم اور رحمت ہے۔ ہمارا کام تو اس کام کے بتائے ہوئے طریقے سے، اس کے بھیجے ہوئے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی اطاعت و بندگی کی شہادت پیش کرنا ہے۔
خلافت جمہور کا ایک لوازمہ یہ ہے کہ رضاے الٰہی کے حصول کے لیے ہردور میں ایسی حکمت عملی بنائی جائے جس کی بنیاد حقیقت پسندی اور افراد کی سیرت سازی پر ہو۔ تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ اس کے کارکن ہیں۔ اگر وہ تربیت کے مراحل سے گزر کر معاشرے میں کام کریں گے تو ان کی مالی ایمان داری، امانت اور بے لوثی و بے غرضی ، ان کی سادگی، ان کا حق کی حمایت کرنا اور ظلم کی مخالفت میں سب سے آگے ہونا، ان کی زبان سے ایک لفظ ادا کیے بغیر خود ان کا عمل اور کردار دعوت کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائے گا۔ اسلام وہ واحد نظام ہے جس کی دعوت سیرت و کردار دیتے ہیں۔ اس لیے تحریک کا سارا زور تعمیر کردارکے لیے مطالعے کے حلقے ، رفاہِ عام کے کام، مقامی افراد کے مسائل کے حل کی کوششوں کی شکل میں ہو،تو اس کے نتائج سامنے آنے یقینی ہیں۔
تنظیم اور تحریک
دعوتِ دین کا منظم کام کرنے کے لیے اگرچہ تنظیم ضروری ہے تاکہ ہرفرد کو اپنی ذمہ داری اور دائرہ کار کا احساس ہو اور وہ اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا کرسکے لیکن انسانی تاریخ گواہ ہے کہ بعض اوقات تحریکات محض تنظیم بن جاتی ہیں جن میں دستوری دفعات پر الفاظ کی حد تک تو عمل ہوتا ہے لیکن دستور کی روح نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ جن میں نظم اور امارت، اپنے اختیارات کا استعمال کرنا تو جانتے ہیں لیکن وہ دلوں میں گھر کرنے اور اپنی اخلاقی قوت سے اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ شاید اس کے قول اور عمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ایسی ’تنظیم‘ ہمیں منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا سکتی۔
رضاے الٰہی کے حصول کے لیے ہمارے بے لوث کارکن جو کام کرتے ہیں، اس کی اطلاع جمہور تک پہنچنی چاہیے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہماری تحریک کو ابلاغ عامہ کا صحیح استعمال نہیں آتا۔ ہمیں لازمی طور پر ابلاغِ عامہ، ٹی وی اور تقریبات کا صحیح استعمال کرنا چاہیے۔ لیکن انھیں شخصیت پرستی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ ہماری نگاہ اور توجہ ہماری دعوت کی توسیع پر، اپنی کردار سازی پر، علمی قیادت پر اور ملک کے سیکولر ذہن کے افراد کو اسلام کے قریب لانے پر ہونی چاہیے۔ملک کے مختلف طبقات تک ان کی ذہنی صلاحیت اور طلب کے پیش نظر اپنی دعوت ان تک پہنچانے پر ہونی چاہیے۔ دعوت کے طویل المیعاد منصوبے کو ترجیح دی جانی چاہیے اور اس منصوبے کو قرآن و سنت کے حدود میں رہتے ہوئے بہتر سے بہتر انداز میں پیش کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔
موجودہ نظام کو لادینیت سے، لادینی جمہوریت سے، انفرادیت پسندی سے، عصبیت سے، جہالت، ظلم اور تفریق سے، غرض ان تمام منفی صفات کو جو قومی وحدت کو نقصان پہنچانے والی ہیں، ان سے نجات دلانے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان کی جگہ اجتماعیت، دین کی جامعیت اور للہیت کو توجہ کا مرکز بنانا خلافت ِ جمہور کی شرط ہے۔ ہم جتنا اپنی تربیت اور فکری اصلاح پر توجہ دیں گے اور ہر فرد اپنے ذاتی نصاب کے مطالعے کے ذریعے علم میں اضافہ اور مصادر سے براہِ راست استفادے کی کوشش میں لگ جائے گا تو نتائج خود بولیں گے۔ ایک اصولی جماعت ہونے کی بنا پر ہمارا فکری محاذ پر متحرک ہونا کامیابی کی ایک بنیادی شرط ہے۔مظلوم طبقات کی حمایت، معاشی طور پر ضرورت مند لوگوں کی حاجت روائی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اللہ کے بندوں کی خدمت کو ہماری ترجیحات میں اوّلیت حاصل ہونی چاہیے۔ اگر ہم آیندہ پانچ سے دس سال کا منصوبہ دعوت، تربیت اور تنظیم کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر اور خود اپنے تجربات کی روشنی میں مرتب کریں اور اس پر سختی سے عمل کا اہتمام کرتے ہوئے اپنی دعوتی اور اصلاحی ترجیحات کی پابندی کرتے ہوئے اپنے کام کی نئی منصوبہ بندی کریں، تو ان شاء اللہ خلافت ِ جمہور کا راستہ بہت آسان اور مختصر ہوسکتا ہے۔
اصل چیز عزمِ مصمم، استقامت، صبر اور توکل علی اللہ کے ساتھ اپنی تمام قوتیں اور صلاحیتوں کو مجتمع کردینا اور دعوت و اصلاح کی جدوجہد میں جھونک دینا ہے۔ جو لوگ اللہ کو اپنا رب مان لیتے ہیں اور اس پر قائم ہوجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکم سے کائنات کی تمام قوتیں ان کے لیے حمایت اور تعاون کے دروازے کھول دیتی ہیں اور آخرت اور دنیا میں کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ کیا ہم اپنا حق ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰ نَحْنُ اَوْلِيٰۗــؤُكُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَشْتَہِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَدَّعُوْنَ۝۳۱ۭ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ۝۳۲ۧ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۳ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۝۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۝۳۴ وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا۝۰ۚ وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ۝۳۵ وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۳۶ (حٰمٓ السجدۃ ۴۱:۳۰-۳۶) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اِس پر ثابت قدم رہے، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اِس دُنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی۔ یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔ اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

حصہ