“خاشقجی” ایک نیا ابلاغی اور سیاسی معرکہ

342

خرم عباسی
جمال خاشقجی سعودی عرب کے ایک معروف صحافی، تجزیہ نگار اور ایڈیٹر تھے،جمال خاشقجی 2 اکتوبر 2018ء سے غائب ہیں اور آخری مرتبہ انہیں استبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہوتے دیکھا گیا تھا۔ترک پولیس کا الزام ہے کہ سعودی قونصل خانے میں انہیں قتل کر دیا ہے ۔
جمال خاشقجی 1958ء میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔انہوں نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم سعودی عرب سے اور 1982ء میں امریکا کی انڈیانا یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کی تھی۔ تعلیم کے بعد وہ سعودی عرب لوٹ گئے اور ایک صحافی کے طور پر سنہ 1980ء کی دہائی میں ایک مقامی اخبار میں سوویت روس کے افغانستان پر حملے کی رپورٹنگ سے اپنی صحافت کا آغاز کیا۔ اس دوران انہوں نے اسامہ بن لادن پر قریب سے نظر رکھی اور 1980ء اور 90ء کی دہائیوں میں کئی بار ان سے انٹرویو کے ۔
انہوں نے خطۂ عرب میں رونما ہونے والے دوسرے کئی اہم واقعات کی رپورٹنگ بھی کی ،1999ء میں وہ انگریزی زبان کے اخبار ‘عرب نیوز کے نائب مدیر بن گئے۔ 2003ء میں وہ ‘الوطن اخبار کے مدیر بنے لیکن عہد سنبھالنے کے دو ماہ کے اندر ہی انھیں ایک کہانی جس میں سعودی عرب کی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایا گیا تھاشائع کرنے کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا۔برطرفی کے بعد واشنگٹن منتقل ہو گئے جہاں وہ سعودی عرب کے سابق انٹیلیجنس چیف شہزادہ ترکی کے میڈیا مشیر بن گئے۔ 2007ء میں پھر الوطن میں واپس آئے لیکن تین سال بعد مزید تنازعات کے بعد انہوں نے اخبار کو چھوڑ دیا۔2011ء میں پیدا ہونے والی عرب سپرنگ تحریک میں انہوں نے بظاہراسلام پسندوں کی حمایت کی ۔2012ء میں انہیں بحرین میں قائم العرب نیوز چینل کی سربراہی کے لیے منتخب کیا گیا۔ چینل 2015ء میں اپنے آغاز کے 24 گھنٹوں کے اندر ہی بند کر دیا گیا۔سعودی امور پر ماہرانہ رائے رکھنے کی حیثیت سے جمال خاشقجی بین الاقوامی سطح پر مختلف نیوز چینلز کو مستقل طور پر اپنی خدمات فراہم کرتے رہے۔ 2017ء میں وہ سعودی عرب چھوڑ کر امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ اخبار کے اپنے پہلے کالم میں لکھا کہ کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ انھوں نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی ہے کیونکہ انہیں گرفتار کیے جانے کا خوف ہے۔ انہوں نے کہا کہ درجنوں افراد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں بظاہر مخالفین پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں حراست میں لیے گئے ہیں۔ محمد بن سلمان ملک میں اقتصادی اور سماجی اصلاح کے حوصلہ مندانہ پروگرام کی سربراہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے سعودی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ اس نے عربی اخبار ‘الحیات میں ان کا کالم بند کروا دیا اور انہیں اپنے 18 لاکھ ٹوئٹر فالوورز کے لیے ٹویٹ کرنے سے اس وقت روک دیا گیا جب انہوں نے 2016ء کے آخر میں اپنے ملک کو منتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کو ‘والہانہ طور پر گلے لگانے کے جذبے کے خلاف خبردار کیا تھا۔
جمال خاشقجی 2اکتوبر 2018ء بروز منگل اس وقت لاپتہ ہوئے جب وہ طلاق کی سرکاری دستاویز لینے کے لیے استنبول میں سعودی قونصل خانے گئے تاکہ وہ ایک ترکی خاتون سے شادی کر سکیں جن سے ان کی منگنی ہوئی تھی۔ان کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے کہا کہ میں نے سعودی قونصل خانے کے باہر گھنٹوں ان کی واپسی کا انتظار کیا لیکن وہ نہیں لوٹے۔ اس نے بتایا کہ اس عمارت میں داخل ہونے سے پہلے ان کے موبائل فون کو رکھوا لیا گیا اور انہوں نے اس سے قبل اپنی منگیتر کو بتایا تھا کہ اگر وہ نہ لوٹیں تو وہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ایک مشیر سے رابطہ کریں۔
ان کا آخری کالم 11 ستمبر 2018ء کو شائع ہوا تھا اور 5 اکتوبر 2018ء بروز جمعہ کو جمال خاشقجی کا کالم چھاپنے والے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ان کی گمشدگی کو اجاگر کرنے کے لیے ان کے کالم کی جگہ ’دی مسنگ وائس‘ یعنی ’گمشدہ آواز‘ کی شہ سرخی کے ساتھ خالی چھوڑ دی تھی۔
ترکی کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں انہیں قونصل خانے کے احاطے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے اور انھوں نے وہاں داخلے کی اجازت طلب کی ہے جبکہ سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ ترکی حکومت نے ان کے جسم کے ٹکڑے سعودی عرب کے قونصل خانے کے باہر سے ملنے کی تصدیق کی ہے .
جمال خاشقجی کے قتل کو مغربی میڈیا میں بہت زیادہ کوریج ملی. جبکہ بلغاریہ کی جرنلسٹ Viktoria Marinova کے ریپ اور بہیمانہ قتل کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا۔آخر کیوں ؟؟دنیا کی نظر میں ایک جمال خاشقجی دس لاکھ یمنی لوگوں کی زندگی سے بڑھ کر ہے. کشمیر، برما،شام اور فلسطین میں لاشوں کے ڈھیروں سے بڑھ کر ہے ؟
کچھ اخبارات کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جمال خاشقجی بین الاقوامی سطح پر مختلف نیوز چینلز کے ساتھ ساتھ عالمی دہشتگرد امریکہ کی سی آئی اے کے لئے بیس سال سے کام کر رہے تھے. سی آئی اے کو کون نہیں جانتا۔ یہ امریکی ایجنسی دنیا کی سب سے بڑی، مؤثر اور خطرناک ایجنسی ھے۔ اس ایجنسی نے امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے بڑے بڑے خفیہ آپریشن کئے ہیں جن میں بڑے بڑے بزنس ٹائیکونز کو بلیک میل کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کی لیڈرشپ کا قتل تک شامل ھے.امریکی سی آئی اے نے افغا نستان میں 13لاکھ اور عراق میں تقریبا ً 10لاکھ بے گناہ شہری مارے ہیں جس میں چھ لاکھ بے گناہ معصوم بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ امریکہ کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی نام نہاد جنگ میں 70 ہزار پاکستانی سویلین اور10 ہزار کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 120 ارب ڈالر سے زیادہ معاشی نقصان بھی ہوا۔ عراق کے تقریباً 25لاکھ لوگ گزشتہ کئی سالوں سے بے گھر ہیں۔عراق میں امریکہ کی مدا خلت کے بعد وہاں پر کوئی مُثبت تبدیلی نہیں آئی بلکہ عراق میں امریکہ کی مدا خلت کے بعد 60فی صد لوگ بے روز گاری اور 40فی صد سخت غذائی قلت کا شکار ہیں۔ عراق میں 2003 میں صدام حسین کے دور میں 35000 ڈا کٹر تھے جو امریکی ظلم کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑ گئے اور اب وہاں پر 7 ہزار ڈا کٹرز ہیں۔اسکے علاوہ امریکہ اور اتحا دیوں کے کر توتوں کو سامنے لانے پر کئی صحا فیوں کو مارا گیا۔دہشت گردی اور انتہا پسندی تو امریکہ پوری دنیا میں کر رہا ہے۔بلکہ یہی تو امریکہ ہے جس نے کو ریا پر سال 1950 میں ، گو ئٹے مالا پر 1954، انڈو نیشیاء پر 1955، کانگو پر 1964، کیوبا پر 1960، ویت نام پر 1975، لبنان پر 1984، عراق پر 1991 اور افغانستان پر 2001 میں بلا جواز حملہ کر کے لاکھوں بے گناہ انسانوں کا قتل کیا ۔ ساؤتھ افریقہ کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اپنے خفیہ اداروں میں خراب کر دار کے تقریباً 2000 لو گ بھرتی کئے ہوئے ہیں جن کا کام عراق اور افغانستان میں خواتین کی عصمت دری اورجنسی زیادتی جیسے گھنائونے جرائم کو انجام دینا ہے ۔James A. Lucas نے گلوبل ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق عالمی جنگ کے بعد سے آج تک عالمی دہشت گرد امریکہ 2کروڑ معصوم انسانوں کا قاتل ہے ،اور یہ سلسلہ جاری ہے .
1949میں مشہور امریکی ادیب جارج اورویل نے اپنے ایک مشہور زمانہ ناول “1984”میں جس عالمی آمرانہ و استبدانہ حکومت کاتصور پیش کیا تھا ،دور حاضر میں امریکی حکمران طبقہ اسے شدومد سے اپنا چکا ہے .بلکہ دن بہ دن امریکی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور خود کو ہر حالت میں درست ثابت کرنے کی کوشش مزید بڑھ رہی ہے . تاریخی لحاظ سے امریکہ نے ایک استعماری طاقت کے روپ میں بلواسطہ یا بلا واسطہ بہت سارے ممالک پر قبضہ کیا اور قتل اور دہشتگردی کو سیاسی مقصد کے حصول کے لئے استعمال کیا .بہت سارے سیاسی الفاظ دنیا میں خاص معنی و مفہوم رکھتے ہیں لیکن قتل اور دہشتگردی کے لئے کوئی بھی خاص معنی اور مفہوم نہیں ہے۔ گذشتہ سال امریکی سینٹ میں قتل اور دہشتگردی کا تصور واضح کرنے کے لئے ایک بل پیش کیا گیا تھا، یہ بل ہرگز سینٹ میں پاس نہ ہوا، کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ وہ خود دہشتگردوں کے حامی اور مدد گار ہیں۔
برطانوی شاعر‘ جیمز انتھونی فروڈ لکھتا ہے ،”جنگلی جانور کبھی لذت کی خاطر شکار نہیں کرتے۔ کرہ ارض پہ واحد انسان ہی ہے جو اپنے بھائی بندوں پر تشدد کرتا اور انہیں مار کر لُطف و تسکین پاتا ہے۔‘‘

حصہ