حسن قدیم کی ایک پوشیدہ جھلک

339

عائشہ صدف… ہیوسٹن
تمام مراحل سے گزر کر جب مصلہ تک پہنچے اس وقت نماز ظہر کی جماعت ہوچکی تھی لہُٰذا اپنی جماعت کی۔ نماز کے دوران ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ریاض الجنة میں کھڑے ہیں جب نبی پاک تک فرشتے ہمارا درود وسلام لے کر جاتے ہیں تو قوی امید ہے کہ ان انبیاء تک بھی ہمارا درود وسلام پہنچایا جا رہا ہوگا ۔اس خیال سے ہی دقّت طاری ہو رہی تھی کہ ایک مقام پر تین انبیاء اور ان کی زوجات کے اجسام مقدسہ اور ہم گناہ گار بندے۔ اپنی کم مائیگی کا احساس اپنی جگہ مگر اس اعزاز کے لئے اپنے چنے جانے کا خیال ہی دل و دماغ کو فرحت بخش رہا تھا۔ کیسی مہربانی کی میرے رب نے مجھے اس قابل جانا۔
یہاں سلطان صلاح الدین ایوبی کا منبر بھی ایک کونے میں ایستادہ ہے۔یہ ان قدیم ترین اشیا میں شمار ہوتا ہے جو اب تک اپنا مقصد وجود پورا کر رہی ہیں۔اس کو دیکھ کر بارہویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کا اس فن میں عروج نمایاں ہوت ہے یہ لکڑی کو بہت خوبصورتی سے تراش خراش کر بنایا گیا ہے۔ اس۔ یوں کہیں کوئی کیل استعمال نہیں کی گئی۔اس کی دلکشی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔منبر کے بالکل مخالف سمت میں ایک پرتکلف خوبصورت چبوترے میں تقریباً ایک فٹ کا سوراخ ہے جسکے ذریعہ زیر زمین علاقہ کا ہلکا پھلکا جائزہ لیا جا سکتا ہے اس کو “الغار شریف” کا نام دیا گیا ہے۔ ہمارے گا ئیڈ کے پاس معلومات کا وسیع ذخیرہ تھا جو وہ ہمارے اوپر بڑی دریا دلی سے لٹا رہا تھا۔ ہمارے اکثر سوالات کے اس کے پا س شافی جوابات تھے اگر کہیں پھنس جاتا تو کسی مقامی فرد کو پکڑ کر ہماری تشفی کرواتا۔گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ یہودی دو دفعہ زیر زمین علاقہ میں جانے کی کوشش کر چکے ہیں ۱۹۶۷میں یہاں سیکوریٹی کے بہانے مسلمانوں کو نکال کر اس سوراخ کے ذریعہ بارہ تیرہ سالہ دبلی پتلی لڑکی کو ریلوں کے ذریعہ باندھ کرنیچے اتارا گیا جو انبیا کے اجسام تک تو نہ پہنچ سکی مگر اس نے سیڑھیوں کا بتایا جو اوپر موجود منبر کے نیچے ختم ہوتی ہیں۔ اس کے تیس پنتیس سال بعد چھ یہودی نوجوانوں نے یوم کپور پر جب مسجد یہودیوں کے لئے کھولی جاتی باقاعدہ پلاننگ کے ذریعہ منبر کے نیچے موجود پتھر کی سل جو لوہے کی سلاخوں کے ساتھ مضبوط کی گئی تھی کو توڑ کر نیچے گئے اور دعوی کیاکہ وہ انبیا کے اجسام تک پہنچے ہیں اور وہاں سے کچھ پتھروں کے نمونے بھی ساتھ لائے ہی تاکہ اس مسجد کی بندر بانٹ ختم ہو اور یہ یہودیوں کا ورثہ قرار پائے۔ پوری گفتگو کے دوران میرا دماغ گھوم گھوم کر نور الدین زنگی کی طرف جا رہا تھا اس نے ہمارے نبی پاک کے جسم کو توغیبی مدد کے ذریعہاس فتنہ انگیزی سے محفوظ کردیا مگر اب کون ہے جس سے توقع کی جائے کہ وہ یہاں موجود انبیا کے اجسام کی حرمت کو محفوظ کرے۔تجسس، کھوج لگانا اور پھر اس کو اپنے وسیع تر مقاصد کے لئے اسے استعمال کرنا یہودیوں کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے وہ اس میں انبیا کا حترام بھی ملحوظ نہیں رکھتے۔
الخلیل شہر کی مشہور سڑک” شہداء اسٹریٹ” کہلاتی ہے۔ ماضی میں یہی مسجد میں داخل ہونے کا راستہ تھا ۔۲۵ فروری ۱۹۹۴ کو ایک امریکی نژاد یہودی نے مسجد ابراہیم مین داخل ہوکر اچانک فائرنگ شروع کردی تھی جس کے نتیجہ میں انتیس مسلمان شہید ہوگئے تھے اس خونریز حملہ کے بعد سے الخلیل شہر اور مسجد کو دو حصوں میں منقسم کر دیا گیا ہے۔ اب مسجد کے لئے پچھلا راستہ استعمال کیا جاتا ہے۔ شہداء سٹریٹ پرسے مسلمانوں کو گزرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں پورا بازار ہوتاتھالیکن اس خونریز واقعہ کے بعد آہستہ آہستہ سب ختم ہوگیا ۔ اب مسجد ابراہیم میں پیچھے سے داخل ہونے کے پورے راستہ پر دونوں طرف بازار ہے اور اس کے اوپر یہودیوں کے اپارٹمنٹس ہیں ۔ اس راستہ کے اوپر نیٹ لگا کر گزرنے والوں کو اس کوڑے کچرے سے ممحفوظ کیا گیا ہے جو ان اپارٹمنٹس مین مقیم یہودی عزت افزائی کی خاطر گزرنے والوں پر اوپر سے پھینکتے ہیں ۔ گائیڈ کا کہنا تھاکہ ہم اس کوڑے کو وہ کوڑا سمجھتے ہوئے جو ایک بوڑھی عورت نبی پاک پر ڈالا کرتی تھی بخوشی صبر کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ بے بسی دیکھ کر دل نہایت رنجیدہ ہورہا تھا۔ مثبت رہنا اچھا طرزعمل ہےمگر حالات جس نہج پر جا رہے ہیں مسلمانوں کے لئے یہاں مقیم رہنا مصیبت سے کم نہیں۔ ہر وقت ذلت کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اگر جذبات ذرا بے قابو ہوئے یا غیرت نے سر اٹھایا تو موت کی نیند سلا دیا جائے گا۔ کرہ ارض پر تو خون مسلماں بہت ارزاں ہے مگر عرب دنیا مین تو یہ مفت میں دستیاب ہے۔
الخلیل شہر میں ہمارا آخری اسٹاپ ایک glass blowing factory تھی۔ یہاں پر شیشہ کے نازک برتن اور گلدان وغیرہ تیار کئے جاتے ہیں۔الخلیل شہر مسجد ابراہیم کے علاوہ اپنی شیشہ کی مصنوعات کے لئے کافی مشہور ہے۔ یہاں نہایت تیز درجہ حرارت پر نیم ٹھوس (semisolid) شیشہ ایک لوہے کی پتلی پائپ نما سلاخ (hollow rod)کے کونے پر لگایا جارہا تھا جبکہ سلاخ کے دوسری طرف بیٹھا کاریگر اس سلاخ میں مخصوص انداز میں پھونک کر اس کو حرکت دیتا جارہا تھا۔ اس طرح نیم ٹھوس شیشہ پھول کر نازک سے شفاف غبارہ کی شکل اختیار کر لیتا پھر اس کو مختلف صورتیں دی جاتی ہیں ۔ کافی دقّت طلب کام تھا اور تجربہ کا کڑا امتحان تھا۔ ہمارے سامنے بیٹھے کاریگر نے آٹھ دس کوششیں کیں مگر تمام ناکام ٹابت ہوئیں۔ممکن ہے کاریگر نو آموز ہو مگر کام بھی کافی نازک تھا بہرحال ہر فن مین کامیابی کے لئے تجربہ شرط ہے۔ اس فیکٹری کے ساتھ ہی فیکٹری آؤٹ لیٹ (factory outlet) تھا جہاں سے تھوڑی بہت شاپنگ کی لیکن آگے لمبے سفر کی وجہ سے میں شیشہ سے بنی نازک اشیاء خریدنے سے ہچکچا رہی تھی مگر ہمارے میزبان (برادر حسن) نے میری اس ہچکچاہٹ کو نہ جانے کیا سمجھا اور اپنی طرف سے کئی ایک چیز یں خرید کر یادگار کے طور پر بطور تحفہ ہمارے حوالہ کر دیں۔ اس فیکٹری میں ٹھہرنا بچوں کے لئےکافی دلچسپ ثابت ہوا وہ تازہ دم ہوگئے ورنہ اس قدیم شہر کی دردناک تاریخ نے ان کو depress کردیا تھا۔یہ ہمارا الخلیل شہر میں دوسرا اور آخری اسٹاپ تھا۔ یہاں سے واپسی کا سفر شروع کرنا تھا مڑ کر آخری نگاہ اس شہر پر ڈالی اور بجھے دل کے ساتھ درود وسلام پڑھتے ہوئے اپنے اگلے پڑاؤ کی طرف چل پڑے ۔
ابھی گاڑی الخلیل شہر سے باہر نکلی تھی کہ گائیڈ نے بتایا کہ یہاں سے پانچ کلومیٹر کے فاصلہ پر حلحلول شہر ہے جہاں مقام نبی یونس ہے اگر ہم اس کی زیرت سے مستفید ہونا چاہیں ۔ سن کر ہی دل بیتاب ہوگیا کہ انبیا کی سرزمیں جتنے نبیوں کو درود وسلام پہنچا سکتے ہیں پہنچا دیں۔ ہمارے حامی بھرنے کہ کچھ دیر بعد ہی گاڑی ٹھہر گئی۔ اب سردی کے ساتھ ساتھ بارش بھی شروع ہوگئی تھی جس نے سردی کی شدت میں مزید اضافہ کردیا تھا۔ویسے تو فلسطین میں برف باری کا تصور نہیں ہے لیکن حلحول وہ شہر ہے جہاں کوئی سال ایسا نہیں گزرتا کہ برف باری نہ ہو۔ ابھی پچھلا تجربہ ہم بھولے نہ تھے لہٰذا اس دفعہ سردی کی تیاری سے نکلے۔ گاڑی سے باہر نکلتے ہی سردی کے زوردار تھپیڑے لگے۔مگر وائے ناکامی اس دفعہ گاڑی لب سڑک کھڑی تھی دو چار قدموں کے فاصلہ پر مسجد کا دروازہ تھا۔مسجد اندر سے گرم تھی دو رکعت تحیۃالمسجد ادا کی۔یہ دو اسٹوری چھوٹی سی مسجد تو ایوبی دور کی بنائی ہوئ ہے۔ دو چار سیڑھیاں اتر کر ایک مقبرہ موجود ہے جس کے اوپر ہرے رنگ کا کپڑا چڑھا تھا اور اس کے اوپر حضرت یونس کی دعا تحریر تھی۔اس کے نیچے بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بڑا غار ہے جہاں حضرت یونس کی قبر ہے لیکن وہاں جانے ک کوئی راستہ نہیں ہے۔ا ۔ حضرت یونس نینویٰ شہر کی طرف بھیجے گئے تھے جہاں اب عراق کا شہر موصل آباد ہے۔ جب زرا زیادہ گفتگو کی تو اندازہ ہوا کہ مچھلی نے جب ان کو اگلا تھا تو وہ یہ مقام تھاسی لئے اس شہر کا نام حلحول پڑگیا” حلا”کے معنی “رہنا “اور حول” معنی “ایک سال “کے ہیں۔ روایات کے مطابق یہاں وہ ایک سال تک مقیم رہے تھے ان کی قبر میرا زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ موصل میں ہے۔یہ صرف ایک مقام ہے ۔
کچھ وقت فلسطین میں گزارنے کے بعد احساس ہوا کہ عثمانیوں نے دراصل ہر چیز کی یادگار بنا چھوڑی ہے۔ جس کو اب مسلمان سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ اس میں اس قدر افراط ہوگئی تھی کہ سلطنت عثمانیہ ٹوٹنے کے بعد جب آل سعود طاقت میں آئے تو انھوں نے سارے یادگار تھوڑ پھوڑ دئیے۔ کاش ان دونوں کے بیچ کوئی صورتحال ہوتی تو ہم سعودی عرب جا کر اپنے آپ کو اتنا خالی دامن محسوس نہ کرتے۔ ہمارے خاندان جیسے تاریخ کے شائقین کو سعودی عرب میں بڑی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جہاں کسی بھی تاریخی ورثہ کی حفاظت کا کوئی تصور نہیں ہے ۔
(جاری ہے)

حصہ