بچوں کا کتاب سے ناتا جوڑنے میں والدین کا ہاتھ

447

افروز عنایت
۔29 ستمبر کو لیاقت آڈیٹوریم کراچی میں حریم ادب (جسارت) کی طرف سے خواتین ادیبوں اور لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تقریبِ انعامات کی انجمن سجائی گئی۔ اس خوبصورت محفل میں تقسیمِ انعامات کے علاوہ ادب سے متعلق ایک مذاکرہ بھی منعقد کیا گیا جس میں معروف ادیبوں نے اپنے خوبصورت انداز اور پُراعتماد لب و لہجے میں موجودہ ادب کے لیے رائے کا اظہار کیا، جس سے حاضرینِ محفل کو مستفید ہونے کا موقع ملا۔ ہر شریکِ مذاکرہ کی رائے اور گفتگو قابلِ تحسین تھی۔ اس مذاکرے کا ایک سوال یہ بھی تھا کہ آج کے نوجوان کے ہاتھ سے کتاب کیوں چُھٹ گئی ہے؟ میں رات میں سوئی تو یہی سوال میرے ذہن کے دریچوں پر دستک دے رہا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ دریچے کھلتے گئے۔
آج کے دور کی یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ نوجوانوں کے ہاتھوں سے کتاب چُھٹ گئی ہے، جبکہ ایک وقت تھا کہ کہا جاتا تھا ’’کتب بینی‘‘ سنجیدہ اور پڑھے لکھے لوگوں کا ایک بہترین مشغلہ ہے۔ آج اس کی جگہ ’’موبائل‘‘ نے لے لی ہے، جس نے نوجوان تو کیا ہر عمر اور طبقے کے فرد کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور دن بدن اس کا شکنجہ مضبوط ہوتا جارہا ہے۔
آج سے چند دہائی پیچھے چلے جائیں جہاں کتاب کی اہمیت واضح اور روشن نظر آتی ہے۔ ایک ’’معصوم‘‘ سا P.T.V چینل تھا، وہ بھی چند گھنٹوں کی تفریح میسر کرتا تھا۔ بلکہ رُکیں… چند گھنٹوں کی اس تفریح میں بھی ہر عمر کے بندے کو 40 یا 45 منٹ کی تفریح میسر تھی۔ اس طرح بچوں اور جوانوں کو تعلیمی کتب کے مطالعے کے بعد اتنا وقت بآسانی مل جاتا تھا کہ وہ نہ صرف ورزشی کھیل کود کے لیے وقت نکال پائیں بلکہ دیگر کتب و اخبارات کے مطالعے کے لیے بھی ان کے پاس وقت موجود ہوتا، اور یہی دیگر کتب و اخبارات کا مطالعہ ان کی تعلیم و تربیت میں بھی معاون ثابت ہوتا تھا۔ پڑھے لکھے سمجھدار والدین اپنے بچوں کی تربیت کے لیے ان معیاری تحریروں کا بھی سہارا لیتے تھے۔ تقریباً ہر گھر میں والدین نے ماہانہ کتب و رسائل اور اخبارات کا انتطام کیا ہوا تھا، اس کے علاوہ غریب طبقے کے لوگ بھی اس مطالعے سے محروم نہ تھے، ان کا شوق گلی کوچوں میں جگہ جگہ قائم لائبریریاں پورا کرتی تھیں، جہاں معمولی کرائے پر معیاری اور دلچسپ کتب دستیاب ہوتیں۔ یعنی پڑھنے کے لیے ہر ایک کے پاس ’’وقت ہی وقت‘‘ موجود تھا۔ نہ موبائل، نہ نیٹ، نہ سیکڑوں T.V چینلز۔ دوسری وجہ کتب بینی کی گھر کا ماحول بھی کہہ سکتے ہیں۔ میرے والدِ محترم نے نہ صرف ہم بہن بھائیوں کے مطالعے اور تفریح کے لیے گھر میں رسالوں اور کہانیوں کی کتابوں کا بندوبست کیا تھا بلکہ وہ خود بھی مختلف کتب کا گھر میں مطالعہ کرتے، جن میں دینی معلوماتی کتب اور اخبارات و رسائل شامل تھے۔ رات میں ان کتب میں سے پڑھی ہوئی کوئی تحریر ہم بہن بھائیوں سے شیئر کرتے۔ میں نے بچپن میں تمام انبیائے کرام و صحابہ کرام کے واقعات والدِ محترم سے سُنے۔ اور اماں کا تو یہ حال تھا کہ ’’خالص گھریلو خاتون‘‘ ہونے کے باوجود نہ صرف ان اخبارات و کتب کا مطالعہ کرتیں بلکہ ہم بہن بھائیوں کی اسکول و کالج کی اسلامیات، اردو، نفسیات وغیرہ کی کتب کا بھی مطالعہ کرتیں۔ بچوں کی کہانیوں کی کتابوں میں سے کہانیاں پڑھتیں، پھر ہماری تربیت کے لیے ان کہانیوں کو ہم سے شیئر کرتیں۔ گرچہ ہم بہن بھائی پہلے ہی ان کا مطالعہ کرچکے ہوتے لیکن اماں کے آگے محویت سے یوں بیٹھے ہوتے جیسے یہ کہانی ہم ابھی پہلی مرتبہ اُن سے ہی سن رہے ہیں۔ یا تو اُن کا اندازِ بیان خوبصورت تھا، یا ہم ’’فرماں بردار‘‘ تھے۔ اس طرح اصلاحی تحریروں سے اماں ابا ہماری تربیت کرتے اور ہماری اصلاح بھی ہوجاتی، یعنی ماں باپ دونوں ہمارے مطالعے کے شریکِ کار کہے جاسکتے ہیں، جن کی وجہ سے ہمارے مطالعے کے شوق کو تقویت حاصل ہوئی۔ جبکہ آج کے بچوں، نوجوانوں اور ان کے والدین کو موبائل، نیٹ اور مختلف چینلز نے اتنا مصروف کردیا ہے کہ وہ نہ خود مطالعے کے لیے وقت نکال پارہے ہیں، نہ بچوں کو شوق دلا رہے ہیں۔ اگر کسی کو مطالعے کا شوق ہے بھی تو ’’انٹرنیٹ‘‘ کا ہی سہارا لیا جارہا ہے۔
پھر بھی ہماری عمر کے والدین کو اپنے والدین کی طرف سے مطالعے کا شوق ’’ورثے‘‘ میں ملا ہوا ہے جس سے کام چل رہا ہے اور ہم انہیں آگے بچوں کی طرف منتقل کرنے کی سعی کررہے ہیں۔ لیکن کل کے والدین کے لیے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ادب میں تحریری کام اطمینان بخش نہیں، تو یہ بے جا ہوگا۔ کیونکہ الحمدللہ آج بھی ’’زورِ قلم سے جہاد جاری و ساری ہے‘‘۔
ہمارے چاروں طرف بہترین لکھنے والے ہیں جو مختلف مکاتیبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے اپنے شعبے میں معیاری کام کررہے ہیں، چاہے وہ سیاسی صورت حال کی ترجمانی کررہے ہوں یا اصلاحِ معاشرہ و تعلیم و تربیت کے لیے کوشاں ہوں، یا دینی امور کی آگہی کے لیے یا تفریح و مزاح کا قوس قزح بکھیرنے کے لیے… تقریباً ہر ایک کا قلم رواں دواں ہے، اپنی اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن موجودہ صورتِ حال کی وجہ سے ان کی اتنی پذیرائی نہیں ہوپارہی ہے۔ اس کی مثال میں ایسے دوں گی کہ ایک وقت تھا کہ P.T.V چینل کی نشریات دیکھنے کے لیے گلی کوچے ویران ہوجاتے، لوگ P.T.V کے آگے محویت سے اپنے پسندیدہ پروگرام سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ آج P.T.V کی نشریات نہ دیکھنے کے برابر ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ P.T.V غیر معیاری پروگرام مرتب کررہا ہے، بلکہ اس کی وجہ ’’ورائٹی‘‘ ہے، لوگوں کے پاس سیکڑوں چینلز ہیں جہاں اپنے اپنے شوق کے مطابق استعمال ہے۔ دس مرغن غذائوں کے درمیان میز پر رکھی دال مہمانوں کی توجہ کا مرکز نہیں بن سکتی، چاہے وہ کتنی ہی لذیذ کیوں نہ ہو۔ یہی حال آج کے مشاغل کا بھی ہے، ہمارے چاروں طرف انسانوں کی دلچسپی اور تفریح کے لیے سیکڑوں ’’آئٹم‘‘ موجود ہیں، اس لیے کتب بینی کا مشغلہ کم ہی نظر آرہا ہے۔ اس میں لکھاریوں کا دوش نہیں، ہمارے چاروں طرف پھیلے ’’ان رنگوں اور سامان‘‘ کا قصور ہے جس نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی ہے۔ ایک آخری اور تیسری وجہ جو مجھے نظر آرہی ہے ضرور شیئر کروں گی کہ والدین کی توجہ تربیت سے زیادہ تعلیم پر مرکوز ہے تا کہ بچہ پڑھ لکھ کر ’’اعلیٰ ڈگریاں‘‘ حاصل کرکے دُنیا میں کامیاب ہوسکے۔ جبکہ دیکھا جائے تو کامیابی کے لیے تعلیم کے ساتھ تربیت بھی لازمی ہے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں بھی بیان کیا کہ والدین معیاری تحریروں کے ذریعے بچوں کی تعلیم و تربیت کا سامان بھی کرسکتے ہیں۔ مجسمہ صرف تراش کے رکھنا مہارت نہیں، بلکہ اس کی ’’نوک پلک‘‘ سنوارنا بھی کاریگری اور ضروری امر ہے۔ اس لیے والدین کو بچوں میں مطالعے کے لیے کوشش کرنی چاہیے، اس کے لیے ضروری ہے کہ خود بھی اس کا حصہ بنیں تاکہ بچوں کا کتاب سے ٹوٹا ناتا دوبارہ جُڑ سکے۔

حصہ