“باوجود” رستم نامی کے شعری مجموعے کا جائزہ

949

فیض عالم بابر
آخری حصہ
آئے ہیں جو بہار کا مژدہ لیے یہاں
کچھ اور بھی چمن میں خزاں کرنے آئے ہیں
لفظ خزاں ز سے ہوتا ذ سے نہیں۔
دل و دماغ کو سیراب کرتی رہتی ہے
نگاہ ِ یار کی شربت ہے فی سبیل اللہ
لفظ شربت مذکر ہے مونث نہیں۔
لوٹتا ہوں روز بے نیل و مرام
روز ملتے ہیں دریچے ادھ کھلے
درست لفظ نیل ِمرام ہے، نیل و مرام نہیں۔فیض احمد فیض نے بھی یہی غلطی کی تھی پھر کسی کی نشاندہی پر اگلے ایڈیشن میں تصیح کرلی تھی۔
کتاب میں شامل تین اشعار کچھ یوں ہیں۔
گھر میں بے قدر و قیمت ہوں
شہر میں احترام کافی ہے
زندگی کے متاثرین میں ہیں
ہم نہ تیرہ میں ہیں نہ تین میں ہیں
جی چاہتا ہے جب کبھی کرتے ہیں یوں شروع
کرتے ہیں ہم کسی طرح کارِ جنوں شروع
پہلے شعر کا پہلا مصرع بے وزن ہے۔دوسرے شعر کا بھی پہلا مصرع بے وزن ہے ،واضح رہے کہ لفظ متاثرین میں ث مشدد ہے۔تیسرے شعر کا دوسرا مصرع بے وزن ہے۔علم العروض میں طرح کا ح گرانا کسی بھی طرح جائز نہیں۔
کتاب میں حد سے زیادہ پروف کی غلطیاں جہاں شاعر کی غیر ذمہ داری،غفلت شعاری اور عجلت پسندی کی غماض ہوتی ہیںوہیں پبلشرز کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان بناتی ہیں۔رستم نامی کے شعری مجموعے میں پروف کی غلطیاں دیکھیں۔
تمھارا کیوں ہو واقف کا جو واقف ہمارا ہے
جسے ہم جانتے ہیں وہ تمھارا آشنا کیوں ہو
(واقف کا کی جگہ واقف کار ہوگا)
یقینا ہے اُدھر کوئی نہ کوئی
مرا چکر جو رازانہ اُدھر ہے
( رازانہ کی جگہ روزانہ ہوگا)
اورں پہ انحصار کریں بھی تو کس طرح
جب خود پہ اعتبار زیادہ نہیں رہا
(اورں کی جگہ اوروں ہوگا)
نامی تری قسم سے رہا جا نہیں جا
تیرے بغیر ہم سے رہا جا نہیں رہا
(پہلے مصرع میں جا کی جگہ رہا ہوگا)
ٹھکانہ میسر نہیں ہے تو کیا
چلو دیکھتے ہیں ٹھکانوں خواب
(ٹھکانوں خواب کی جگہ ٹھکانوں کے خواب ہوگا)
کارِ سخن ہے آپ کے دم سے روں دواں
مفعول فاعلات فقط آپ ہیں جناب
(رواں دواں کو روں دواں لکھ دیا)
بُری ہے کس قدر نامی یہ دنیا
کہ اس عورت نے پھروایا بہت
( بہت کے بعد ہے غائب ہے)
جو ہو جب خالی تو بازار بھی
کسی طور بازار ہوتا نہیں
(جب کی جگہ جیب ہوگا)
اختیار موجہِ آبِ رواں کے درمیاں
کٹ رہی زندگی وہم و گماں کے درمیاں
( زندگی سے پہلے ہے غائب ہے)
ضرورت کے مطابق رو دیے ہیں
کیا ہے دل کو حسبِ حال خال
(خال کی جگہ خالی ہوگا)
خدا نے جن و انس سمیت کائنات کی ہرشے کو بامقصد پیدا کیا ہے،شاعری کا مقصد بھی جہاں عصرِ حاضر کے مسائل،خرابیوں کی نشاندہی کرنا ہے وہیں تعمیری سوچ کے ذریعے ایک مثالی اور صحت مند معاشرے کی داغ بیل ڈالنا ہے۔کسی مجذوب کی بڑ کو نہ تو کوئی ذی ہوش انسان اہمیت دیتا ہے نہ ہی اس سے معاشرے میں کوئی تبدیلی آتی ہے کیونکہ مجذوب کی بے ربط اور بے سر و پا باتوں کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔اگر شاعری بھی ایسی ہو جس کا کوئی مقصد ہی نہ ہو،اشعار میں کوئی معنی و مفہوم ہی نہ ہو تو ایسی شاعری کا فائدہ کیا ہے؟۔رستم نامی کی کتاب میں بہت سی ایسی غزلیں اور اشعار ہیں جن کا کوئی مقصد ہے نہ ہی ان میں کوئی بامعنی پیغام پوشیدہ ہے ۔مثلاً
سمجھتے ہیں اُس کو اضافی بچت
ہمیں عشق میں ہے جو کافی بچت
تری یاد کی گرمجوشی سے ہے
ہمیں سردیوں میں لحافی بچت
بڑی کردار سازی ہے ہماری
بلاکی کار سازی ہے ہماری
برقیاتی مشین لگتی ہے
رنج و غم کو شمارنے کے لیے
اپنے آپ کو یوں مشغولتا رہتا ہوں
رات گئے تک اُس کو بھولتا رہتا ہوں
بے کاری سے رہتا ہوں وابستہ میں
اور یہی اکثر معمولتا رہتا ہوں
محولہ بالا اشعار معروف شاعر ظفر اقبال کے اسلوب میں ہیں اور ان سے متاثر ہوکر کہے گئے ہیں۔یہ وہ فضول شاعری ہے جسے پڑھ کر قاری مایوس ہوکر ادب کی دنیا سے دُور ہوجاتا ہے۔معروف نقاد شمس الرحمن فاروقی اپنی کتاب ’ لفظ و معنی‘ میں رقم طراز ہیں
’’ ظفر اقبال کی غزل اور اینٹی غزل دونوں میں قاری سے بے تعلقی بلکہ
بے پروائی جھلکتی ہے،ظفر اقبال کی غزل قاری سے یہ کہتی ہوئی معلوم
ہوتی ہے کہ تم اس سے لطف اندوز ہو سکو تو ہو لو اگر نہیں تو کوئی ہرج نہیں‘‘
ظفر اقبال کی پہچان ’’ آب ِ رواں‘‘ ہے جس میں ایک بھی فضول یا بے معنی شعر نہیں ملے گا،اس کتاب کے بعد ظفر اقبال نے جتنے تجربات کیے ہیں وہ سمندر کو چھلنی سے خالی کرنے کے مترادف ہیں۔ظفر اقبال کی اس بے راہ روی کو جدت سمجھ کر بہت سے نوجوان شعرا ء اس کی بھینٹ چڑھے ہیں اور چڑ ھ رہے ہیں۔رستم نامی نے بھی اس بے راہ روی سے گریز کرکے اپنی کوئی راہ نہیں بنائی تو ادب تخلیقی وفور سے بھرپور ایک جدید شاعر سے محروم ہوجائے گا۔
کسی شاعر سے متاثر ہوکر اس کے رنگ میں اشعار کہنا بجائے خود اُس شاعر کو زندہ کرنے کا عمل ہے کیونکہ قدرت کبھی کاربن کاپی پیدا نہیں کرتی ،غالب ایک ہی تھا نہ کوئی دوسرا غالب آئے گا نہ ہی کوئی غالب جیسا ہوسکتا ہے۔رستم نامی کے شعری مجموعے میں ایسے کئی اشعار ملتے ہیں جو ظفر اقبال اور انور شعور کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ۔مثلاً
ہمیں کچھ خسارا نہیں ہورہا
خبر اُس کے آنے کی سچی نہیں
کہ دل پارہ پارہ نہیں ہورہا
ہوا ہوں لاپتہ سا کچھ
کہ لگتا ہوں مرا سا کچھ
غلط کام کرتے ہیں دونوں مگر
وہ گاہے بگاہے میں اکثر غلط
دوستی تم سے نہ اب ہے دشمنی
اب تعلق درمیانی ہے فقط
تُو ہزاروں میں نہیں ہے،تُو کروڑوں میں ہے ایک
یہ ہمارا ہی نہیں ،ہے بے شماروں کا خیال
ہماری زندگی بے زارنے کو کم نہیں ہے
تری چاہت ہمیں سرشارنے کو کم نہیں ہے
اوپر کے چار اشعار انور شعور اور نیچے کے تین اشعار ظفر اقبال کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔
رستم نامی کے مجموعے میں کئی ایسے اشعار ہیں جومنفرد ہی نہیں جدید حسیت اور تازہ کاری کے آئینہ دار ہیں۔مثلاً
لُوٹتا ہے وقت ہر انسان کو
ہر گھڑی رہتا ہے یہ رہزن قریب
یہ کیا معاملہ ہے جہانِ خراب میں
کچھ بھی نہیں ہے ٹھیک،بُرا کچھ نہیں مگر
ہمارا کام کیا ہے آسماں پر
اگرچہ آسماں تک راستہ ہے
دُور ہوتے ہوئے ہوتی ہے ملاقات کبھی
پاس رہتے ہوئے دیدار نہیں بھی ہوتا
مجھے رہنا ہے زندہ اور کتنا
مری تاریخ پیدائش نکالو
محبت کچھ نہیں ہے اُس کو ہم سے
ہمیں کرتا ہے استعمال خالی
مجھ کو لگتی ہے کائنات فضول
ہوبھی سکتی ہے میری بات فضول
تھوڑا سا غور کرنا اس پر ضرور صاحب
ہوتا نہیں ہے اچھا اتنا غرور صاحب
مدعا معلوم ہو ،مقصد کھلے
وہ کبھی تو ہم پہ سو فیصد کھلے
ذرا سی بات ہماری سمجھ سے باہر ہے
یہ کائنات ہماری سمجھ سے باہر ہے
ہمارے ذہن میں ہوتا ہے نقشہ اور ہی لیکن
ہمارے سامنے منظر کُھلا کچھ اور ہوتا ہے
اگر رستم نامی ظفر اقبال،انور شعور اور چند دیگر شعراء کے اثرات سے نکل کر اپنی ذات کے رنگ کو نمایاں کرنے میں کامیاب ہوگئے تو جدید شعراء کی صفِ اول میں شامل ہوجائیں گے۔

حصہ