انسان خسارے میں ہے

644

خواجہ رضی حیدر
چند سال قبل ایک تقریب میں برِّصغیر کے معروف گلوکار مہدی حسن کو دیکھا تو وہ ویران نگاہوں سے سب کو دیکھ تو رہے تھے لیکن زبان گنگ تھی اور یہ طے ہوچکا تھا کہ اب وہ کبھی غزل سرا نہیں ہوسکیں گے۔ گزشتہ ہفتہ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت مضمحل دکھائی دیے۔ ہم نے اُن کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ تو ماشاء اللہ بڑے مضبوط بدن کے آدمی تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ آپ نے تن سازی میں گولڈ میڈل بھی حاصل کیا تھا۔ ضعیفی تو سب پر آتی ہے مگر آپ تو بالکل ڈھ گئے۔ ایک خاتون جن کو جوانی میں اپنے رنگ روپ پر بڑا ناز تھا اور وہ اس ناز کا اظہار انداز و ادا سے ہی نہیں اپنی زبان سے بھی کرتی تھیں۔ شادی کی ایک تقریب میں ملیں تو آنکھوں کو یقین ہی نہ آیا کہ یہ وہی خاتون ہیں جن کے حسن کے چرچے عام تھے اور اَب آثار بھی نہیں بتا رہے ہیں کہ یہ عمارت عظیم تھی۔ ایک شاعر کو جن کے ترنم سے مشاعروں میں سماں بندھ جاتا تھا۔ ایک شعری نشست میں تحت اللفظ میں پڑھتے ہی نہیں دیکھا بلکہ ایسے عالم میں دیکھا کہ وہ ایک مصرعے کی ادائیگی کے دوران کئی مرتبہ اپنا سانس سنبھال رہے تھے۔ اپنے وقت کے نامی گرامی ایک خطاط کو دیکھا کہ وہ ہاتھوں میں رعشہ کی بنا پر قلم پر گرفت بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔ ایک مزاحیہ اداکار کو دیکھا جس کی جگت اور حرکات و سکنات پر دیکھنے والوں کے پیٹ میں ہنستے ہنستے بل پڑجاتے تھے۔ ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے اپنی مفلوج صورتِ حال کی گریہ ناک آواز میں تفصیلات بتا رہے تھے۔ ایک رنگ بکھیرنے والے مصور پر نگاہ پڑی جو ’کلر بلائنڈ‘ ہوگئے ہیں۔ ان مناظر نے اس وقت بھی بدن میں سناٹا دوڑا دیا تھا جب یہ نظر میں آئے تھے اور آج بھی ان کے تصوّر سے دل لرز اُٹھتا ہے۔
کئی سال قبل ایک تقریب میں معروف وکیل محمد اسلم خان سے ملاقات ہوئی جن کا سابقہ تعلق ریاست رامپور سے تھا۔ عمر نوّے کے قریب ہونے کے باوجود بڑی باغ و بہار شخصیت تھے۔ اُردو اور فارسی کے ہزاروں اشعار ازبر تھے۔ طلاقتِ لسانی میں بھی طاق تھے۔ جس تقریب میں اُن سے ملاقات ہوئی اُس میں بھی وہ اپنی خوش گفتاری کی بنا پر مرکز نگاہ تھے۔ پہلے تعارف میں ہی انہوں نے مجھے اپنا اسیر کرلیا اور میں رہائشی فاصلوں کی طوالت کے باوجود اُن سے ملاقات کے لیے گلشنِ اقبال سے ڈیفنس جانے لگا۔ ایک دن شام کو جو میں اُن کے گھر پہنچا تو ملازم نے مطلع کیا کہ خاں صاحب کی طبیعت ناساز ہے۔ میں نے ملازم سے کہا تم جاکر میری آمد کی اطلاع دیدو اگر مناسب سمجھیں گے تو بلالیں گے۔ ملازم اندر گیا اور پھر باہر آکر کہنے لگا، آجائیے۔ مجھ پر ناراض ہورہے ہیں کہ تم نے روکا کیوں۔ میں اندر پہنچا تو خان صاحب بیڈروم سے نکل کر ڈرائنگ روم میں آچکے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے بھلا بتائیے۔ اُس احمق نے آپ کو روک لیا۔ بھائی میں تو بیمار ہی اس لیے ہوا ہوں کہ کسی ہم مزاج سے گفتگو کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ آپ آگئے ہیں اب تندرست ہوجائوں گا۔ اس شام خان صاحب نے اپنی زندگی کے تجربات و مشاہدات کے حوالے سے ایسی دلچسپ و معلومات افزا گفتگو کی کہ رات کے بارہ بج گئے۔ گفتگو کا آغازفراق گورکھپوری کے ایک شعر سے ہوا:

زندگی کیا ہے اس کو آج اے دوست
سوچ لیں اور اُداس ہوجائیں

پھر مختلف حوالے سے بات آگے بڑھتی ہوئی انسانی زندگی کے کمال و زوال تک پہنچ گئی۔ اس مرحلہ پر خان صاحب بہت جذباتی اور ملول ہوگئے۔ کہنے لگے، رضی میاں! ہم ٹینس کے بہت اعلیٰ کھلاڑی تھے۔ رامپور کے خاص باغ میں روز شام کو پریکٹس کرتے تھے۔ نواب گھرانے کے ایک صاحبزادے ہمارے کھیل کے عاشق تھے۔ وہ شام ہوتے ہی آجاتے اور ہمارے کھیل سے نہ صرف لطف اندوز ہوتے بلکہ ہم سے اس خواہش کا بھی اظہار کرتے کہ وہ بھی ہماری طرح ٹینس میں مہارت پیدا کرلیں۔ تقسیم ہند کے بعد ہم بھارت میں ہی رہ گئے اور یہ صاحبزادے پاکستان آگئے۔ تقریباً تیس سال بعد جب ہم مستقل قیام کے ارادے سے پاکستان آئے اور ان صاحبزادے کو معلوم ہوا تو انہوں نے ہم کو چائے پر مدعو کیا اور بے پناہ عزت سے ملے۔ ہم اس وقت پچھتّر سال کے ہورہے تھے چال ڈھال میں کوئی فرق نہیں آیا تھا مگر ہاتھوں میں ہلکا سا رعشہ آگیا تھا۔ ان کی نگاہ میں ہم ٹینس کے مثالی کھلاڑی ہی نہیں بلکہ ان کا آئیڈیل رہ چکے تھے۔ ٹینس کے کھلاڑی کا سب سے بڑا ہنر ریکٹ پر اس کے ہاتھ کی گرفت ہوتا ہے۔ جب ملازم نے چائے کی پیالی ہماری طرف بڑھائی تو ہم نے یہ سوچ کر کہ صاحبزادے کو ہمارے ہاتھ کے رعشے کا علم نہ ہو پیالی ایک ہاتھ سے نہیں لی بلکہ دونوں ہاتھوں سے اسے پکڑا مگر باوجود احتیاط کے پیالی لرز گئی۔
محمد اسلم خان اتنا کہنے کے بعد کچھ دیر گم صم رہے اس کے بعد کہنے لگے ایک مرتبہ ہم بریلی سے دہلی جارہے تھے کہ ریل کے ڈبہ میں مراد آباد سے ایک نوجوان خاتون اور ان کے ساتھ ایک بزرگ سوار ہوئے۔ قلی نے ان کا سامان ہمارے سامنے والی سیٹ پر رکھا اور پھر اُن خاتون اور قلی میں معاوضہ کی ادائیگی پر حجت ہونے لگی۔ قلی بدتمیزی پر اتر آیا اور اُس نے نہ صرف خاتون سے بلکہ اُن بزرگ سے بھی شدید بدکلامی کی۔ میں دیکھ رہا تھا کہ بزرگ بڑے پیچ و تاب میں تھے مگر ہاتھا پائی سے گریز کررہے تھے۔ میں نے دخل دے کر معاملہ رفع دفع کرا دیا اور ازراہ اخلاق اُن بزرگ سے قلی کی بدتمیزی پر معذرت کی۔ وہ بزرگ اپنے حواس بحال کرتے ہوئے مجھ سے کہنے لگے، ’’میاں آج سے چودہ سال قبل دلی کے چوڑی والان میں اس سے کہیں کم بدتمیزی پر تین افراد کو قتل کردیا تھا۔ دوہری عمر قید کاٹ کر آج ہی صبح مراد آباد جیل سے رہا ہوا ہوں۔ یہ میری بیٹی ہے مجھے لینے آئی ہے۔ اب نہ وہ عمر ہے نہ اعضا میں وہ قوت اس لیے خاموش ہوگیا۔‘‘ ایک مرتبہ پھر اسلم خان خاموش ہوئے تاسف کی کیفیت سوا ہوگی۔
پھر کچھ دیر بعد بولے، الٰہ آباد یونیورسٹی میں ہمارا ایک کلاس فیلو بہترین ایتھیلیٹ تھا۔ بعد میں اس نے ورلڈ اولمپکس کی مراتھن ریس میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ جب وہ گولڈ میڈل لے کر ہندوستان واپس آیا تھا تو ایئرپورٹ پر جواہرلال نہرو نے اس کا استقبال کیا تھا۔ برسوں بعد وہ ہم کو لکھنؤ کے ریلوے اسٹیشن پر اچانک مل گیا۔ ہم تو اُسے پہچانے بھی نہیں۔ عجیب حلیہ ہوگیاتھا۔ موٹے عدسوں کی عینک لگی ہوئی تھی اور وہ ایک پیر کو گھسیٹ کر چل رہا تھا۔ اس نے ہی مجھے آواز دے کر متوجہ کیا اور ہم دیر تک پلیٹ فارم پر کھڑے گزرے ہوئے دنوں کی باتیں کرتے رہے۔ اس دوران اعلان ہوا کہ دہلی جانے والی ٹرین تین نمبر کے پلیٹ فارم سے روانہ ہوگی۔ وہ کہنے لگا خان صاحب میں تو تین نمبر پلیٹ فارم پر جائوں گا اس لیے اجازت۔ میں نے ازراہِ تراحم اس سے کہا چلو میں تمہارے ساتھ وہاں تک چلتا ہوں۔ رامپور والی ٹرین کی روانگی میں تاخیر ہے۔ ہم دونوں جب ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم تک جانے والی پُرہجوم راہداری سے آہستہ آہستہ گزر رہے تھے تو ایک سردار جی نے ہمارے دوست کا کاندھا پکڑ کر پیچھے کو دھکیلا اور آگے نکل کر بڑی تند آواز میں اُس کی طرف دیکھ کر کہا، ’’کیا زندگی میں کبھی تیز بھی چلے ہو۔‘‘ محمد اسلم خان نے گفتگو کے دوران اس مرحلہ پر ایک سرد آہ بھری اور کہا، رضی میاں! سورۂ عصر میں اللہ تعالیٰ نے زمانہ کی قسم کھاکر جو کہا ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔ تو ہوسکتا ہے وہ یہی خسارہ ہو۔ ہم کو ہر قدم پر اللہ سے پناہ مانگنا چاہیے۔

حصہ