پڑھی تھی کہانی دنگل کی

284

مدیحہ صدیقی

یہ بات تھی شاید منگل کی
کْشتی تھی کئی پہلوانوں کی
اونچے چوڑے انسانوں کی
میں رات جو سونے لیٹا تو
سوچوں میں تھا وہ “جیتا” جو
کرتے تھے خیالوں میں گردش
معمول میں تھی جن کے ورزش
اٹھ بیٹھا اچانک بستر میں
لڑنے وہ آیا کمرے میں
موٹا سا پہلواں سامنے تھا
میں بھی پھر اپنی آن میں تھا
وہ مجھ پر جھپٹا لڑنے کو
میں کب تھا سامنے ڈرنے کو
گر اسْ کی لاتیں مکیّ تھے
میں نے بھی مارے ڈنڈے تھے
لڑتے لڑتے میں جیت گیا
ایک گھنٹہ شاید بیت گیا
میں جشن منانے والا تھا
انعام اٹھانے والا تھا
ایک چیخ سے چھکے چھوٹ گئے
تکیے ہاتھوں سے چھوٹ گئے
آنکھوں کو ملتا اٹھ بیٹھا
خوابوں میں کس سے لڑبیٹھا
میرے تکیوں کی درْگت تھی
بستر پر روئی کی برکت تھی
امی جو بڑھیں میری جانب
میں بھاگا باہر کی جانب
مت پوچھوں کیسا خواب تھا وہ
لڑنے کا آخری باب تھا وہ

 

جگنو کی مشکل

مدیحہ صدیقی

جگنو کی اک دن لڑائی ہوئی
پتنگے کی بے حد پٹائی ہوئی
جہاں جائوں پیچھے چلا آئے یہ
جو بیٹھوں تو بِھن بِھن مچائے ہے یہ
یہ چکر پر چکر لگاتا رہے
بھگاوْں پر مجھ کو بھگاتا رہے
میں کھائوں میں کھیلوں میں جائوں جہاں
چلا پیچھے پیچھے یہ آئے وہاں
سْنا یہ جو مچھر نے ہنسنے لگا
آسان حل ہے سنو باخدا
لے جا\ئو اس کو جہاں ہے سڑک
پھر اسکے برابر سے جانا کھسک
بجلی کا کھمبا کھڑا پائے گا
پھر گِرد اسکے مزے سے یہ منڈلائے گا

حصہ