’’دنیائے ادب‘‘ کی 65 ویں شام

466

ظہیرخان
اردو ادب کی جانی پہچانی اور بہت ہی نامی گرامی شخصیت اوجِ کمال کا سب سے بڑا کمال ’’دنیائے ادب‘‘ کی اشاعت ہے۔ ایک کمال اور بھی ہے… ایک عدد شاعر اور ایک عدد شاعرہ کا انتخاب ہوتا ہے اور ان دونوں کے ساتھ آرٹس کونسل میں ایک شام منائی جاتی ہے۔ یہ 65 ویں شام تھی۔ ہال میں باذوق سامعین کی اچھی خاصی تعداد پروگرام شروع ہونے کی منتظر تھی مگر حسب ِ روایت پروگرام اپنے وقت پر شروع نہ ہوسکا۔ ’’ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا‘‘ اور باعثِ تاخیر محترم ظہورالاسلام کی آمد تھی۔ اسٹیج پر رکھی ہوئی کرسیٔ صدارت ان کی منتظر تھی اور موصوف کے تشریف لاتے ہی محترمہ صائمہ نفیس نے چابک دستی کا مظاہرہ کیا اور اسٹیج پر آکر مائیکرو فون میں روح پھونک دی اور وہ سامعین سے ہم کلام ہوچلا۔ عبدالمجید محور نے تلاوتِ کلام پاک کی سعادت حاصل کی، بعد ازاں محترمہ نزہت عباسی کی لکھی ہوئی حمد تحت میں پڑھی۔ ’’خدا کا ذکر کرے ذکرِ مصطفی نہ کرے‘‘۔ ایک صاحب نے (نام ذہن سے نکل گیا) عبدالرحمن مومن کی تحریر کردہ نعت ترنم سے پڑھی۔ اب باری تھی اس پہلے شاعر کی جسے پچاس منٹ تک مسلسل کلام سنا کر اپنا گلا خشک کرنا تھا اور سامعین کے ادبی ذوق کو تروتازگی بخشنی تھی۔ شاعرِ نوجواں تھے عبدالرحمن مومنؔ، ایک علمی اور ادبی گھرانے کے چشم و چراغ۔ شاعری کوئی موروثی سلسلہ نہیں ہے کہ باپ اگر شاعر ہو تو بیٹا بھی شاعر ہو، مگر یہ عجب اتفاق ہے کہ مومن کے ابّا بھی شاعر، دادا بھی شاعر اور دادی بھی۔ ہم انہیں مومنِ ثانی کہتے ہیں۔ صاحب زادے نے تخلّص رکھنے میں کافی ہوشیاری برتی ہے۔ اس تخلّص کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ صاحبِ تخلّص کچھ بھی کرلے، کچھ بھی کہہ دے مگر کہلائے گا ’’مومن‘‘۔ اب دیکھیے ناں مثال آپ سب کے سامنے ہے۔ مومنِ اوّل نے ساری زندگی عشقِ بتاں میں گزار دی اورآخری وقت تک مسلمان نہ ہوسکے، مگر اس کے باوجود ’’مومن‘‘ ہی کہلائے۔
عبدالرحمن مومن بچّوںکے رسالے ماہنامہ ’’ساتھی‘‘ سے بھی منسلک ہیں۔ چونکہ میرے گھر ’’ساتھی‘‘ رسالہ پابندی سے آتا ہے لہٰذا میں اُن کی نظمیں جو وہ بچّوںکے لیے لکھتے ہیں، اکثر پڑھتا ہوں۔ ابھی موصوف کی عمر فقط چودہ سال تھی کہ شاعری کا آغاز ہوچلا۔ شاعری کے جراثیم ورثے میں ملے تھے اس لیے کوئی دقّت پیش نہ آئی اور آمد شروع ہوگئی۔ بقول غالب ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘‘ اور مومن نے ان خیالات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنا شروع کردیا۔ لیجیے صاحب خاندانِ شعر و سخن میں ایک اور شاندار اضافہ ’’اُس گھر کا نور بڑھ گیا پھر اِک چراغ سے‘‘
عبدالرحمن مومن اپنے ہاتھ میں ایک بوتل (پانی کی) لیے ہوئے ڈائس پر تشریف لائے اور غزل پڑھنی شروع کی۔ سامعین میں تقریباً سارے ہی احباب ادبی ذوق کے حامل تھے، ان میں شعرا بھی تھے شاعرات بھی، ادبا بھی تھے اورادیبائیں بھی… لہٰذا ان ہی اشعار پر داد کی توقع کی جاسکتی تھی جو داد کے قابل ہوں۔ عبدالرحمن مومن نے پہلی غزل کا دوسرا شعر پڑھا تھا کہ بس داد اور تالیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا…

یہ ستارے کہاں جا رہے ہیں
آسماں سٹپٹایا ہوا ہے

چھوٹی بحر اور سہلِ ممتنع، بس نہ پوچھیے کس قدر واہ واہ ہوئی، اور اس شعر کے بعد ہی اس بائیس سالہ نوجوان کے حوصلے بلند ہوگئے، خود اعتمادی اور زیادہ بحال ہوگئی، مگر ہر غزل کے مقطع تک پہنچتے پہنچتے مومن کے ہونٹ خشک ہوجاتے تھے، لہٰذا اگلی غزل شروع کرنے سے قبل پانی کے دو گھونٹ تازگی پیدا کرتے تھے تب نئی غزل کا آغاز ہوتا تھا۔

آج سورج نے کہہ دیا مومنؔؔ
تُو جلے گا تو روشنی ہو گی

پھر وہی چھوٹی بحر اور سہلِ ممتنع، اس شعر کو احباب نے بار بار پڑھوایا۔ اس نوعمری میں اتنا اعلیٰ خیال پیش کرنا اس بات کی غمّازی تھی کہ آنے والا دور اس نوجوان کی کامیابی اور شہرت کا بے چینی سے منتظر ہے۔
عبدالرحمن مومن کے چند اور اشعار آپ کی حیرتوں میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں بشرطیکہ آپ اس شاعر کی عمر اپنے ذہن میں رکھیں…

عشق میں زندگی بسر کرنا
عقل کو خود کشی سا لگتا ہے
میں نے آنکھوں میں جھانکنا چاہا
اس نے دل میں اتار دیں آنکھیں
کوئی نظر ہو یا خنجر ہو
قاتل تو قاتل ہوتا ہے

پچاس منٹ مکمل ہوئے، صائمہ نفیس نے اشارہ کیا اور یہ نوجوان شاعر اپنی بوتل ساتھ لیے اپنی کرسی پر واپس آگیا۔ صائمہ نفیس نے ڈاکٹر نزہت عباسی کو دعوتِ کلام دی۔ ڈاکٹر نزہت عباسی شاعری کی دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتی ہیں، بہت منجھی ہوئی شاعرہ ہیں، اب تک دو مجموعے منظرِ عام پر آکر داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں، کافی عرصے سے شعر کہہ رہی ہیں، ادب میں پی ایچ ڈی ہیں، درس و تدریس سے تعلق ہے، کسی بھی ادبی پروگرام کی نظامت بہت ہی خوبصورت انداز سے کرتی ہیں، اب تک انہوں نے بے شمار مشاعرے پڑھے ہیں، تحت میں پڑھتی ہیں، اندازِ بیان اتنا دلکش اور کلام اتنا جان دار کہ سننے والا لاجواب ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر نزہت نے کئی غزلیں نذرِ سامعین کیں، چند اشعار پیشِ خدمت ہیں…

ساری دنیا کے خزانے بھی میسر ہوں جسے
ہاتھ بھی اس کا کشادہ ہو ضروری تو نہیں
کبھی برسوں گزرنے پر کہیں بھی کچھ نہیں ہوتا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لمحے مار دیتے ہیں
عذاب سارے جنوں و خرد کے میرے تھے
تمہیں تو بے خبری تھی تمہاری بات نہیں
وقت کے ساتھ بدل ڈالے ہیں آدابِ وفا
آپ کے عشق کی تہذیب نئی لگتی ہے

ڈاکٹر نزہت عباسی اپنا کلام پڑھ رہی تھیں اور ہر اچھے شعر پر سامعین سے بھرپور داد وصول کررہی تھیں۔ ’’وقت ختم ہوا بات ختم ہوئی‘‘۔ نزہت عباسی کے پچاس منٹ مکمل ہوئے اور وہ اپنی جگہ پر واپس آگئیں۔ لیجیے صاحب! محترم اوجِ کمال مائیک پر آگئے… یقینا کوئی اہم اعلان کرنے والے ہیں… مگر یہ اعلان نہیں تھا بلکہ دعوت تھی، رات کے دس بج رہے تھے لہٰذا آپ کے ذہن میں یہی ہوگا کہ کھانے کی دعوت ہوگی۔ مگر نہیں، ایسا نہیں تھا۔ یہ دعوت تھی اُن احباب کے لیے جو آج کے پروگرام کے تاثرات بیان کرنا چاہتے تھے۔ پروفیسر ہارون رشید، احمد نوید، پروفیسر سحر انصاری… ان سب احباب نے، جن کی کہی ہوئی ہر بات سند کا درجہ رکھتی ہے، اپنے اپنے تاثرات بیان کیے۔ میں مختصراً پروفیسر سحر انصاری کے تاثرات رقم کیے دیتا ہوں… پروفیسر سحر انصاری نے اس پروگرام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا ادبی پروگرام ہے جس میں شاعر اپنا کلام تفصیل سے سنا سکتا ہے۔ انہوں نے اوجِ کمال اور صائمہ نفیس کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ یہی وہ افراد ہیں جنہوں نے ادب کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ نئے شاعروں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے خاص طور پر عبدالرحمن مومن کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ عبدالرحمن مومن کے بعض اشعار ایسے ہیں جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سنجیدہ شاعری کے معاملے میں جو لوازم ہونے چاہئیں وہ رکھتے ہیں، شاعری کو قابل توجہ بنانے کے لیے، ان کے یہاں ایک نیا اسلوب پایا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل بھی اس پروگرام میں کچھ نئے شاعر مدعو کیے گئے تھے مگر وہ اپنے پچاس منٹ پورے نہ کرسکے، مگر شاباش ہے عبدالرحمن مومن کو کہ انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے اپنے پچاس منٹ پورے کیے۔ ڈاکٹر نزہت عباسی کا ذکر کرتے ہوئے سحر انصاری نے کہا کہ نزہت مجھے بہت عزیز ہیں اس لیے کہ یہ میری شاگردہ رہ چکی ہیں۔ تاثرات کا سلسلہ ختم ہوا، جنابِ صدر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، بعد ازاں اوجِ کمال نے سامعین کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح یہ خوبصورت محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔ اب انتظار کیجیے 66 ویں شام کا، بہت ممکن ہے اس حوالے سے ہماری آپ سے اگلی ملاقات ہوجائے، تب تک کے لیے اللہ حافظ۔

حصہ