تاریخ جب دہرائی گئی

984

اسد اللہ ابراہیم
ہمارے رب نے ہر چیز میں نشانی رکھی ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس پر غور فکر کیا جائے اور اس سے نصیحت حاصل کی جائے۔ اللہ کی نشانیوں میںخود انسانی تاریخ اس کے لیے سب سے بڑی نشانی ہے جسے قرآن میں بار بار ذکر کر کے تذکیر کا سامان کیا گیا ہے۔تاریخ کے صفحات میں سے ایک صفحہ ایسا بھی ہے جسے ہم پاکستانیوں نے دہرایا ہے جو کہ اب خود ایک تاریخ بننے جارہی ہے۔میں نے تاریخ کے ان صفحات کو جس نظر سے دیکھا ہے اسے آپ تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔اگر آپ اس تقابلی جائزے سے متفق ہیں تو ہمیں کوشش کرنی ہوگی کے تاریخ کے دوسرے صفحے کا وہ انجام نہ ہو جو پہلے صفحے کا ہوا۔
تاریخ کا پہلا صفحہ : بنی اسرائیل کو اس مقصد کے لیے مصر سے نکالا گیا تھا اور فرعون کی غلامی اور جبر سے نجات دی گئی تھی کہ وہ فلسطین جاکر وہاںاللہ رب العالمین کی حاکمیت اعلیٰ کے اصول پر اسلامی ریاست قائم کریں گے۔لیکن وہ جزیرہ سینا پہنچ کر اس مقصد کے حصول کے لیے جدو جہد کرنے سےمنکر ہوگئے تو اللہ نے اپنی نصرت ہٹا لی اور وہ چالیس سال تک اس بیا باں میں خوار ہوتے رہے۔چالیس سال کی ذلت و خواری کے بعد جب انکی تمام پچھلی نسل مرگئی اور نئی نسل جوان ہوئی تو انہوں نے اس مقصد پرلبیک کہا اور اقامت دین کے لیے یکسو ہوگئے۔ اس دوران ادوم کی سرحد کےقریب حضرت ہارو ن ؑکی و فات ہو گئی اور جبل ’ھور‘ پر مدفون ہوئے،اسی نسبت سےاس پہاڑ کو اب ہارون کہا جاتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام فوج لیکر آگے بڑھے اور اردن کا مشرقی حصہ فتح کرلیا۔یہاں کے انتظامات کو درست کرتے ہوئے آگے بڑھےحسبون اور شطیم کا حصہ بھی فتح کرکے اسلامی حکومت میں شامل کیا۔اس کے بعد ۱۲۰ سال کی عمر میں وصال فرمایا اور کوہ عباریم پر ان کی تدفین ہوئی۔ موسیٰ علیہ السلام کی رحلت کے بعد ان کے درمیان آپؑ کے کے دونوں صاحبزادے ’جیرسوم‘ اور’ الیعزر عاقل وبالغ موجود تھے لیکن ملوکیت سے اجتناب کرتے ہوئے آپؑ کےنائب یوشعؓبن نون کو اسلامی حکومت کاسربراہ مقرر کیا گیا ۔ یوشعؓبن نون نے اسلامی حکومت کی توسیع کا کام جاری رکھا اور بالآخر جد اعلیٰ ابراہیم علیہ السلام کے مرکز ’اریحا‘ کو فتح کرنے میں کامیاب ہوگئےاور یہ پہلی اسلامی حکومت کا دارالخلافہ قرار پایا جسے آج ابراہیمؑ کے لقب’ الخلیل ‘کے نام سے جانتے ہیں۔پورا فلسطین مع یروشلم اس کا حصہ بناجبکہ کچھ علاقے فتح نہ ہوسکے۔یوشعؓبن نون اٹھائیس سال حکومت کرکے رب اعلیٰ سے جاملے۔آپ کے بعد اہل الرائے سے مشاورت کی بنیاد پر سربراہ مملکت کا انتخاب ہوتا جو کہ ’’قاضی‘‘ کہلاتے ،یہ ایک عادلانہ حکومت ہوا کرتی تھی۔دور قاضیان تین سو سالوں پر محیط رہا جس کی قیادت زیادہ تر انبیاء کرتے تھے۔اسی جانب اشارہ کرتےہوئے رہبر کامل ﷺ نے فرمایا، ’’بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے(کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء)‘‘ ۔یہاتنا مستحکم اور عادلانہ نظام تھا کہ قریب کی بڑی بادشاہتیں مثلاََ مصر اور عراق کی حکومتیں اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیںلیکن بتدریج زوال کا شکا رہوتی گئی جس کے بنیادی محرکات دوتھے، ایک اخلاقی اور دوسرے سیاسی ۔ اخلاقی محرک یہ تھا کہ مشرکوں کے ساتھ رہ کر انکے رسومات کو اختیار کرنے لگے اور یہ بدعات ضلالہ ترقی کرتا ہوا شرکیہ عقائد تک پہنچ گیااور تورات کے شرعی قوانین سے فرار اختیار کرنے لگے۔علاقہ کے مشرکین میں بعل دیوتا تمام دیوتاؤں میں زیادہ اہمیت کا حامل تھا، یہود بھی اسکو مقدس سمجھنے لگے تھے۔سیاسی محرک یہ تھاکہ انہیںاللہ کی طرف سے ہدایت تھی کہ تمام علاقے فتح کئے جا ئیںاور مخالفین کی قوت کا مکمل خاتمہ کردیا جائے تاکہ مشرکین سر نہ اٹھاسکیں۔ لیکن اس کے برخلاف یہ آپس کی اس عصبیت اورگروہ بندی میں مبتلا رہے جس کی بنا روز اول سے ان کے یہاںیہودا نے یوسفؑ کے خلاف قائم کی تھی۔ایک متحدہ ریاست کے بجائے ہر قبیلے نے اپنی الگ ریاست قائم کی جس سے متحد قوت نہ بن سکے۔ مخالفین میں بالخصوص فلستی اور فنیقی قوم نےطاقت پکڑی اور ان پر پےدرپے حملہ آور ہوئے جبکہ انہوں نے ان سے مقابلے کی خاطرخواہ کوششیں نہیں کیں۔ان کے قاضی ’عیلی‘ ضعیف اور نابینا ہوگئے تھے، جبکہ ان کے دونوں بیٹے انتہائی عیاش تھے۔ مزیدیہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ اردگرد کےبادشاہوں کے ٹھاٹھ باٹھ اورشاہانہ طرززندگی ان کےلیے متاثرکن تھااور اس کے مقابلے میں خلافت کی سادگی کو اپنی تنزلی سمجھتے تھے۔اس ذہنی غلامی کی وجہ سے یہ فلسطینوں سے شکت کھاگئے۔انہوں نے انکے عورتوں بچوں کو قتل کیا اور موسیٰ علیہ السلام کے تبرکات جو ایک صندوق میں تھے جسے تابوت سکینہ کہا جاتا ہےاسے اٹھاکر لےگئے۔سموئیلؑ آخری قاضی مقرر ہوئے جو کہ مقام نبوت پر فائض ہوئے۔سرداران قبائیل ان کے پاس آئے کہ ان کے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیں تاکہ یہ قتال کرکے دشمن سے بدلہ لیں اورتابوت سکینہ واپس لیں کیونکہ انکا عقیدہ تھا کہ جب تک یہ صندوق (تابوت سکینہ)ان کے درمیان رہےگا تو وہ ہر آفت سے محفوظ رہیں گے۔
حسب خواہش انہوں نے خلافت کے بجائےبادشاہت کا مطالبہ کیا جس پر سموئیلؑ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہاکہ اللہ ہی تمہارا بادشاہ ہے لیکن اکثریت کا مطالبہ تھا اسلیے ناپسندیدگی کے باوجود جمہوری حق تسلیم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سموئیلؑ کو وحی کی کہ طالوت کو انکا بادشاہ مقرر کردو۔طالوتؑؑ یوسف علیہ السلام کے چھوٹے بھائی بن یمین کے نسل سے پڑھے لکھے باصلاحیت نوجوان تھےلیکن مالی طور پر کوئی صاحب حیثیت فرد نہیں تھے۔اس لیے انہوں نے اعتراض کیا کہ بادشاہ تو ہم سرداروں میں سے ہونا چاہیئےجبکہ طالوت عام آدمی ہیں۔آخر کار جب انہیں طالوتؑ کی صلاحیتیں بتائی گئیں اور ساتھ میں تابوت سکینہ واپس ملنے کی نوید دی گئی تو بمشکل دشمن سے لڑنے کےلیےتیار ہوئے۔طالوتؑ نے فلستیوں سے جنگ کی قیادت کی اور جالوت کو شکست دی۔
ان جوانوں میں داؤدعلیہ السلام بھی موجود تھے جنہوں نے دشمن کے بادشاہ جالوت کو قتل کردیا اور مسلمانوں کا یہ تھوڑا سا گروہ ثابت قدم رہا تو اللہ نے کامیابی عطا کی جس کی پوری تفصیل سورۃ البقرۃ رکوع ۳۲ میں موجود ہے۔ طالوتؑ نے اپنی ایک بیٹی کی شادی داؤدؑ سے کر دی اور اس طرح طالوت ؑ کی۱۶ سالہ حکومت کے بعد داؤدؑ ملک کے سربراہ مقرر ہوئے(۱۰۰۴۔۹۶۵ ق م) اور تذکیر کے لیے زبور بھی نازل کی تاکہ انکی بادشاہت کی خواہش بھی پوری ہوجائے اور بگاڑ کی اصلاح بھی ہوجائے۔داؤدؑ کو اللہ نے جو صلاحیت عطا کی تھی اس کے نتیجے میںآپ نے نہ صرف دشمنوں کو شکست دیکر بیشتر علاقہ فتح کیا بلکہ یوشع بن نونؑ کے بعد پہلی بار بنی اسرائیل چھوٹے چھوٹے قبائیلی ریاستوںکو جو دور قاضیان میں وجود میں آگئے تھےختم کرکے ایک متحدہ حکومت کی بنیاد رکھی اور بنی اسرائیل کو ایک نئی سرفرازی عطا ہوئی۔لیکن یہ قوم توراۃ وزبور کی روشنی میں اپنی اصلاح اس طرح نہ کرسکی جس طرح کرنی چاہیئےتھی۔لہٰذا داؤدؑ نے ان الفاظ میں کیفیت بیان کی جو زبور میں موجود ہے۔
’’انہوں نے اُن قوموں کو ہلاک نہ کیا جیسا خدا وند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ اُن قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنےلگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے۔ بلکہ اُنہوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں کا، یعنی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہایا۔ اس لیے خدا وند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی میراث سے نفرت ہوگئی اور اس نے ان قوموں کے قبضے میں کردیا اور ان سے عداوت رکھنے والے اُن پر حکمراں بن گئے‘‘(زبور، باب ١۰٦۔ آیات۳۴۔۴١)۔
داؤدؑ کے۳۹ سالہ اقتدار کے بعد(۹۶۵۔۹۲۶ ق م) سلیمان علیہ السلام کو نبوت اور حکومت کی ذمہ داری عطا ہوئی(النمل۔۱۶)۔توراۃ و زبور کی روشنی میں اسلامی حکومت نے مزید ترقی کی۔شمال میں بحر روم کے ساحل سے لےکر بحر ہند کے ساحل یمن تک وہ تمام علاقہ جسے ابرا ہیمؑ نے اپنی دعوت کے ذریعہ متاثر کیا تھا ،سلیمانؑ کے زیر قیادت آیا۔ یوں توبنی اسرائیل کی اطاعت کے ساتھ ساتھ سرکشیاں بھی جاری رہیں، لیکن یہ سرکشیاںجزوی دائروں میں رہیں۔سلیمانؑ کے بعدیہ سرکشی کلی طور پر تھی اسلیے اسے اللہ تعالیٰ نے ان کا پہلافساد قرار دیا اور وہ یہ کہ انہوں نے اس اسلامی ریاست کودو لخت کردیاجو خود انکے مطالبہ بادشاہت پر قائم ہوئی تھی ۔اس ریاست نے انہیں اسوقت کا سپر پاور بنادیاتھالہٰذا مقام شکر تو یہ تھا کہ انسانوںکے درمیان بندگی رب کی امامت کرتے لیکن خود تفریق کا شکار ہوگئے۔ سلیمانؑ کا بیٹا’’رجعم‘‘ ملک کے نظام کو صحیح طریقے سے نہ چلا سکا اورصرف سترہ سال بعد قوم آپس میں لڑ کر ملک کےدو حصوں میں بٹ گئی۔فلسطین کا شمالی حصہ اور اردن کا مشرقی حصہ ملاکر جو ریاست بنی وہ ’اسرائیل‘ کہلائی اور سامریہ دارالحکومت قرار پایاجبکہ فلسطین کا جنوبی حصے کے ساتھ ادوم کو شامل کرکےجو ریاست بنی وہ ’یہودیہ‘ کہلائی اور اس کا دارالحکومت یروشلم قرار پایا۔
ریاست اسرائیل نے برادر ملک یہودیہ سے تو دشمنی جاری رکھی لیکن مشرک ملک صیدا سے دوستی اسقدر کہ اس کا سربراہ اسرائیل ’اخی اب‘ نے صیدا کی شہزادی ’ایزبل‘ سے شادی کرلی،جس کے نتیجے میں گمراہی سیلاب کے مانند پھیلنا شروع ہوگئی اور ’بعل‘ دیوتا کی پرستش کرنے لگے۔اللہ رب العالمین نے ان کی اصلاح کےلیے پےدرپے چار انبیاء ،الیاس علیہ السلام(۸۰۰ ق م )، الیسع علیہ السلام، عاموس علیہ السلام(۷۸۷۔۷۶۷ق م) اور ہوسیع علیہ السلام(۷۶۷۔۷۳۵ق م) مبعوث کئے ۔الیاسؑ کا مشن تو بالخصوص بعل کی شرک سے انہیں روکنا تھا اور آپ کے متعلق رب العالمین نے کہا ’’ اور الیاس بھی یقیناً مرسلین میں سے تھا۔ یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو، اس اللہ کو جو تمہارا اور تمہارے اگلے پچھلے آبا و اجداد کا رب ہے ؟‘‘ مگر انہوں نے اسے جھٹلا دیا ، سو اب یقیناً وہ سزا کے لیے پیش کیے جانے والے ہیں ، بجز ان بندگان خدا کے جن کو خالص کر لیا گیا تھا۔ اور الیاس کا ذکر خیر ہم نے بعد کی نسلوں میں باقی رکھا، سلام ہے الیاسؑ پر ۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔ واقعی وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا‘‘(الصٰفٰت،۱۲۳۔۱۳۲)۔
بجائے اصلاح پکڑنے کے مزید گمراہ ہوتے چلے گئے،الیاسؑ نے بارش بند ہونے کی وعید دی اور تین سال ایک بوند بھی بارش نہ ہوئی تو اخی اب نےآپ سے بارش کےلیے دعا کی درخواست کی اور دعا کے نتیجے میں بارش ہوگئی تو پھر گیا اور ’بعل‘ کے جھوٹے خدا ہونے کی دلیل مانگی۔آپ نے دلیل دی کہ میں اللہ کے نام کی قربانی کرونگا اور جو بعل کے پرستار ہیں وہ اس کے نام کی قربانی کریں جو خدا صحیح ہوگا اسکی قربانی کو آسمان سے آگ آکر جلا دےگی جو اس کے قبولیت کی دلیل ہوگی۔طئے شدہ طریقے کے مطابق قربانی کی گئی اور الیاسؑ کی قربانی قبول کرلیگئی ۔اس دلیل کے باوجود اخی اب اپنی بیوی کے دباؤ میں رہا اور اس عورت نے آپؑ کو شہید کرنے کا پلان بنایا،لہٰذا آپؑ پڑوسی ریاست یہودیہ ہجرت کرگئےپھر اخی اب کے بعد جب اس کا بیٹا ’اخریاہ‘ حکمراں ہوا تو اسکی اصلاح کے لیےدوبارہ اسرائیل آئے لیکن ان لوگوں نے مسترد کردیاتو آپ نے اخی اب کے خاندان کو بددعا دی جس کے نتیجے میں اس کا گھرانہ تباہ ہوگیا،اسکے بعداس قوم کی اصلاح کےلیے عاموس علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا لیکن شاہ اسرائیل نے آپؑ کو ملک بدر کردیا اور سامریہ کے حدود میں آپ کی تمام تبلیغی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔اللہ نے انہیں اسطرح سزا دی کہ آشوریوں نے حملہ کرکے سلطنت اسرائیل کا خاتمہ کرکے ۲۷ ہزار سے زیادہ بااثر اسرائیلیوں کو ملک بدر کردیااور دوسری قوموں کو یہاں لاکر بسا دیاجس سے ریاست اسرائیل کی پوری تہذیب تتربتر ہوگئی۔دوسری جانب یہودیہ کی ریاست میںاخلاقی زوال سست رہا، آشوریوں نے اسے بھی فتح کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہاالبتہ انہوں نےاپنی بقا کے ڈرسے ان سے دب کر معاہدہ کرکے باجگزاربن گئے۔ الیاسؑ جب ہجرت کرکےیہاں پہنچے توپڑوسی ریاست اسرائیل کے بادشاہ اخی اب نے اپنی بیٹی کی شادی یہاں کے فرمانرواں ’یہورام‘ سے کردی جس سے بالآخر انکے یہاں بھی خرابیاں شروع ہوگئیں۔اللہ رب العالمین نے ان کی اصلاح کےلیے دو انبیاء ،یسعیاہ علیہ السلام اوریرمیاہ علیہ السلام کو مبعوث کیالیکن قوم نے اصلاح نہ پکڑی نتیجتاََ عراق(بابل) کا حکمراں بخت نصر نے حملہ کرکے شکست دی اوربادشاہ یہودا کو قیدی بنا لیا۔ یرمیاہ علیہ السلام نے قوم کو سمجھایا کہ پہلے اپنے معاملات درست کرو اور پوری تیاری کے بعد آزادی کی جنگ لڑنا، لیکن قوم نہ مانی اور انہوں نے بخت نصر کے خلاف بغاوت کردی جواباََ بخت نصر نے حملہ کرکے یروشلم کو تباہ کردیا، ہیکل سلیمانی ملیامیٹ کردیااور بنی اسرئیل کو در بدر کردیا۔
تاریخ کادوسرا صفحہ :ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں عراق کی نمرودی حکومت زوال پذیر ہوئی توایرانی قوم نے دنیا پر غلبہ حاصل کیا ۔ایک جانب مغرب میں وہ جرمنی جا پہنچے اور نہ صرف پورشیا کے نام سے علاقہ آباد کیا بلکہ آگے بڑھ کر برطانیہ کو بھی فتح کیا اور اینگلو سیکسن وجود میں آئے۔دوسری جانب وہ مشرق کی جانب بڑھے اور برصغیر کی تہذیب ہڑپا اور موہنجودڑوکی تہذیب کو پامال کرتے ہوئے ہند کی زمین پرہمیشہ کے لیے قدم جما لیا۔ایران کی نسبت سے بعد میں اس قوم کو آرین کے نام سے جانا گیا ۔آرین کی زبان سنسکرت اور پرشیا(فارسی) تھی۔سنسکرت میں بڑے دریا کو سندھو کہتے ہیںجب کہ یہی لفظ فارسی میں ہندو کہلایا۔بعد میں جب یونانی آئے تو انہوں نے ہند کو IND کہا جس سے انڈیا بنا اور ایران سے مسلمان آئے تو ہندوستان کہا۔لیکن ان سب ناموں سے پہلے اس زمین کا قدیم نام بھارت تھا۔اور یہ نام عربوں نے دیا کیونکہ عرب و ہند کی زمین کا گہرا تعلق انسان کی تہذیب کے روز اول سے ہے۔اس تعلق میں گہرا ئی باہمی تجارت کا بھی تھا جس میںہند کےزمین سے خوشبودار مصالحہ کااہم کردار ہے جسے عربی میں بہارات کہتے ہیں اور اسی بہارات سے لفظ بھارت بنا۔
(جاری ہے)

حصہ