بزم یاور مہدی کے زیر اہتمام جاذب قریشی کی تقریب پزیرائی

679

ڈاکٹر نثار احمد نثار
پروفیسر جاذب قریشی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں‘ ان کی علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے پاکستان اور دیگر ممالک میں کئی شان دار تقریبات منعقد ہو چکی ہیں بلاشبہ ان کی شخصیت اردو ادب کا اہم سرمایہ ہے۔ گزشتہ دنوں جاذب قریشی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بزم یاور مہدی کے زیر اہتمام کے ڈی اے آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی۔ جاذب قریشی پر گفتگو کرنے والوں میں ڈاکٹر رخسانہ صبا‘ سلمان صدیقی‘ راشد نور‘ سلیم فوز اور ندیم ہاشمی شامل تھے جب کہ یاور مہدی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم گزشتہ کئی برسوں سے مختلف شاعروں اور ادیبوں کے اعزاز میں تقریباتِ پزیرائی کا اہتمام کر رہے ہیں ان پروگراموں کا مقصد قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کا فروغ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ قلم کاروں پر ان کی زندگی میں ہی تقریبات ہوں ان کے مرنے کے بعد بھی انہیں ان کا فن زندہ رکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جاذب قریشی ایک عہد ساز شخصیت انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے ادبی منظر نامے میں اپنی شناخت بنائی ہے آج وہ اردو ادب کے معتبر قلم کاروں میں شامل ہیں۔ ان کی شاعری کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے معاشرے کے مسائل کے علاوہ اپنے ذاتی تجربات اور محسوسات کو بہت اہمیت کے ساتھ بیان کیا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنا لب و لہجہ دوسروں سے الگ رکھا۔ ان کے اشعار میں ردعمل پیدا کرنے کی قوت و صلاحیت موجود ہے۔ سلیم فوز نے کہا کہ پروفیسر جاذب قریشی نے زندگی کی پیچیدگیوں اور گہرائیوں کا جو تجربہ کیا ہے انہیں اپنی شاعری کا محور بنایا ہے ان کا فن خود آگاہی کا فن ہے‘ ان کے استعارے و علامات نئے بھی ہیں اور ہشت پہلو بھی ہیں وہ کئی رخوں سے زندگی کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی تازہ کلامی کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے‘ ان کے ہاں عصری شعور‘ منفرد تلازمے پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے بے چہرہ سماعتوں کے درمیان اپنی پہچان بنائی ہے۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ پروفیسر جاذب قریشی نے ہمیشہ تازہ حرف لکھے ہیں ان کی شاعری میں پرچھائیں‘ ستارہ‘ سورج‘ دریا‘ آندھی‘ بارش اور شجر کا استعمال نظر آتا ہے یہ وہ استعارے ہیں جو فطرتِ انسانی سے مستعار ہیں۔ جاذب قریشی ایک جواں مرد شخصیت ہیں انہوں نے زندگی کے بے شمار مسائل برداشت کیے اور کبھی ہار نہیں مانی۔ ان کے یہاں ذاتی تجربات و مشاہدات اس طرح نظر آتے ہیں کہ ہمیں ان کے اشعار پڑھ کر حوصلہ ملتا ہے۔ پروفیسر جاذب قریشی کی شخصیت شاعری‘ تنقید اور نثر نگاری کی آئینہ دار ہے یہ جدید لب و لہجے اور روایت کے ساتھ اشعار کہہ رہے ہیں۔ ندیم ہاشمی نے کہا کہ پروفیسر جاذب قریشی 60 سال سے ادب سے جڑے ہوئے ہیں انہوں نے نوجوان شعرا کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ہر قابل قدر قلم کار پر مضمون لکھے ہیں جو کہ تاریخی دستاویز کی شکل میں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ یہ سیلف میڈ انسان ہیں انہوں نے بڑی محنت و لگن سے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ ڈاکٹر رخسانہ نے کہا کہ جاذب قریشی کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی ان کی باطنی قوت ہے ان کی شاعری میں گہرائی و گیرائی ہے ان کے یہاں غم جاناں کے علاوہ غمِ دنیا بھی ملتا ہے انہوں نے رومانی مناظر بھی نظم کیے ہیں اور المیہ اشعار بھی کہے ہیں یہ ایک زندہ دل شخصیت ہیں۔ راشد نور نے کہا کہ جاذب قریشی کی شاعری سماجی ذمے داریوں کے شدید احساس کے باوجود اوّل و آخر شاعری ہے ان کی علامات نگاری ان کی باطنی ہیجان کے درمیان مماثلتیں کی پیدا کردہ علامت نگاری ہے لیکن یہ مماثلتیں خارجی اشیا‘ مناظر اور معاشرتی حالات سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے ناقابل فہم نہیں ہیں بلکہ تحیر‘ مسرت اور شعور کی بالیدگی کا سبب بن جاتی ہیں۔ صاحب صدر پروفیسر سحر انصاری نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ یاور مہدی کی شخصیت ہماری تہذیب کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔ ادب پروری کے حوالے سے بھی یاور مہدی کے اقدامات قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے مزید کہ اکہ جاذب قریشی نے فلم بنائی اور کہانیاں بھی لکھی ہیں ان کی شاعری ان کے تنقیدی مضامین ہمارے سامنے ہیں یہ ایک قادر الکلام شاعر ہیں اور کھری تنقید کہنے والوں میں اہم مقام رکھتے ہیں‘ یہ نئی شعری فضا کے شاعر ہیں۔ اس موقع پر یادگاری شیلڈ بھی دی گئیں اور جاذب قریشی کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا گیا۔ اس پروگرام میں راشد عالم نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنی گوناں گوں مصروفیت میں سے وقت نکال کر تقریب کو رونق بخشی۔ صاحب اعزاز پروفیسر جاذب قریشی نے کہا کہ یاور مہدی مجھے ریڈیو پر لائے یہ ہمیشہ سے میرے لیے بہت اہم ہیں یہ میرے محسنوں میں شامل ہیں میں ان کی محبتوں کا مقروض ہوں۔ انہوںنے مزید کہا کہ پروفیسر سحر انصاری نے ہمیشہ مجھے حوصلہ دیا اور مجھ پر محبتیں نچھاور کیں ان کا تعاون ہمیشہ حاصل رہا۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرستی کے ساتھ عمر خضر عطا فرمائے کہ یہ ہمارے ادبی منظر نامے کے مہر تاباں ہیں۔ اس تقریب میں برکت اللہ صدیقی نے تلاوت کلام مجید کی سعادت کی جب کہ عبدالصمد تاجی نے نعت رسولؐ پیش کی۔

مودّت کے گلاب کی تعارفی تقریب

انیس جعفری کے نعت‘ منقبت اور سلام پر مبنی مجموعہ کلام ’’مودّت کے گلاب‘‘ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے ان کی تحریر میں شعریت اور عقیدت ہے‘ ان کا نعتیہ کلام‘ عشقِ رسولؐ کی منہ بولتی تصویر ہے انہوں نے نواسۂ رسول کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کربلا کے میدان میں حق و صداقت کا پرچم بلند کیا‘ یزید کی بیعت نہیں کی بلکہ حضرت امام حسینؓ اور ان کے رفقائے کار نے کلمۂ حق بلند کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سحر انصاری نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی لائبریری کمیٹی اور سہ ماہی رسالہ ادب فن کے اشتراک سے انیس جعفری کے مجموعہ کلام مودّت کے گلاب کی تعارفی تقریب میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں انیس جعفری اور ان کی تنظیم بہت اہمیت کی حامل ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر عالیہ امام تھیں دیگر مقررین میں فرزانہ خان‘ صفدر علی انشا‘ نسیم نازش‘ طاہرہ سلیم سوز‘ حمیرہ‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ حنا جعفری اور وقار زیدی شامل تھے۔ تلاوتِ کلامِ مجید کی سعادت عبدالمجید محور نے حاصل کی اور نعت رسولؐ بھی پیش کی۔ نظامت کے فرائض سلمان صدیقی اور آئرن فرحت نے انجام دیا۔ اس موقع پر مہمان خصوصی نے کہا کہ انیس جعفری ایک سلجھے ہوئے ذہن کے شاعر ہیں جو کہ ہر صنفِ سخن پر دسترس رکھتے ہیں لیکن نعت و سلام بھی بہت عمدہ کہتے ہیں۔ ان کے دل میں عشقِ رسولؐ موجزن ہے جس کی عکاسی ان کے ہر نعتیہ شعر سے ہوتی ہے۔ نسیم نازش نے کہا کہ انیس جعفری کے کلام میں سادگی ہے ان کے اشعار اسلام سے گہری وابستگی کے آئینہ دار ہیں۔ ارم زہرہ نے کہا کہ مودّت کے گلاب پڑھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ انیس جعفری نے اپنے کلام میں عبد و معبود کے فرق کا لحاظ رکھا ہے۔ نعت لکھتے ہوئے بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور انیس جعفری نے نعت کی نزاکتوں کا احترام کیا ہے۔ انہوں نے اہلِ بیت کے فضائل و مناقب بھی بیان کیے ہیں۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ انیس جعفری کی کتاب ان کی بخشش کا ذریعہ بن سکتی ہے کیونکہ نعت رسولؐ کہنا‘ سننا عین عبادت ہے میں انہیں دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ فرزانہ خان نے کہا کہ نعت و حمد سلام و منقبت پر مشتمل مجموعہ کلام مودّت کے گلاب‘ محمدؐ اور آلِ محمد سے عقیدت و محبت کا اظہار ہے۔ ان کی شاعری میں اسلام تعلیمات نمایاں ہیں یہ سچے عاشق رسول ہیں انہیں اہلِ بیت سے والہانہ عشق ہے جس کا ثبوت ان کے اشعار ہیں۔ وقار زیدی نے کہا کہ انیس جعفری کے اشعوار حق و صداقت پر مبنی ہیں یہ شاعرِ اہلِ بیت ہیں ان کے دل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آل محمد کی محبت موجزن ہے۔ حمیرا نے کہا کہ انیس جعفری نے محبت و عقیدت سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ انہوں نے پاکیزہ جذبات کی عکاسی کی ہے اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ انیس جعفری کا شمار ہمارے شہر کے اہم شعرا میں ہوتا ہے‘ ان کی ادبی خدمات سے ہر شخص واقف ہے انہوں نے اپنی شاعری میں فلسفۂ اسلام اور اسلامی تعلیمات کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ تبلیغ اسلام باعث ثواب ہے۔ انہوں نے مودّت کے گلاب لکھ کر قابلِ ستائش کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات قبول فرمائے۔ اس موقع پر صفدر علی انشاء نے انیس جعفری کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ صاحبِ کتاب نے اپنے اشعار سنانے سے قبل آرٹس کونسل اور تمام شرکائے محفل کا شکریہ ادا کیا اور سامعین سے خوب داد وصول کی۔

سلام گزار ادبی فوم کی محفلِ مسالمہ

سلام گزار ادبی فوم رثائی ادب کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے‘ اس تنظیم کے تحت پاکستان کے پندرہ شہروں میں ہر ماہ طرحی یا غیر طرحی محفل مسالمہ منعقد کی جاتی ہے۔ یہ تنظیم 2007ء میں قائم ہوئی تھی اس کے بانی مقبول زیدی ہیں۔ گزشتہ ہفتے اس تنظیم کے تحت گلستان جوہر کراچی میں سید اصغر حسین کی رہائش گاہ پر غیر طرحی محفل مسالمہ ترتیب دی گئی۔ آصف رضا رضوی نے صدارت کی۔ ظہورالاسلام جاوید مہمان خصوصی اور انیس جعفری مہمان اعزازی تھے جب کہ کشور عدیل جعفری نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر انیس جعفری کی نعت‘ سلام اور منقبت پر مشتمل کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے مقبول زیدی نے کہا کہ انیس جعفری ایک کہنہ مشق شاعر ہیں ان کا مجموعۂ کلام اسلامی تعلیمات کا آئینہ دار ہے۔ یہ کتاب پڑھ کر ہمارا ایمان تازہ ہوتا ہے امید ہے کہ مجموعہ ادبی حلقوں میں اپنی جگہ بنائے گا۔ صاحب صدر نے کہا کہ رثائی ادب کی ایک اہم صنف سلام ہے جس کا محور حضرت امام حسینؓ ہیں۔ شعرائے کرام شہیدانِ کربلا کے مناقب بیان کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ مہمان خصوصی نے کہا کہ کربلا کے میدان میں یزیدی فوج نے حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کرکے ناقابل معافی جرم کیا ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ کربلا سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم راہِ حق میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اسلام کی اقدار بحال کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سلام گزار فورم کی خدمات قابل ستائش ہیں اللہ تعالیٰ انہیں مزید ترقی عطا فرمائے۔ مہمان اعزازی نے کہا کہ وہ مقبول زیدی کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میری کتاب پر سیر حاصل گفتگو کی اور مجھے مہمان اعزازی بنایا۔ سید اصغر علی نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم انہیں سلامِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ اس محفل مسالمہ میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم شاعرہ کے علاوہ فیروز ناطق خسرو‘ یداللہ حیدر‘ عقیل عباس جعفری‘ انوار جاوید ہاشمی‘ نسیم کاظمی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ پرویز نقوی‘ مقبول زیدی‘ صفدر علی انشا‘ م ۔ م عالم‘ محسن رضا دُعا‘ ندیم قیس‘ وقار زیدی‘ یوسف اسماعیل‘ نظر کاظمی‘ ذوالفقار پرواز‘ الحاج نجمی‘ حجاب فاطمہ‘ اصغر علی سید‘ عدنان عکس‘ اخلاق درپن اور فرحت نے شہیدانِ کربلا کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ میر مرتضیٰ نقوی اور ہادی انور نے منقبت پیش کیں۔

حصہ