حکومت اور عسکری قیادت میں مثالی ہم آہنگی

472

محمد انور
پاکستان میں تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان کی حکومت کا قیام دراصل’’انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی ناکامی ہے اور ملک کے مقتدر حلقوں کی بھرپور کامیابی۔ بین الاقوامی قوتیں ملک میں مزید پانچ سال کے لیے مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی خواہش مند تھیں، مگر اُن کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی، جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ قوم بھی تبدیلی چاہتی تھی، کیونکہ مسلسل کئی سال سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اور اس کے دھڑوں کی حکمرانی سے لوگ مایوس ہوچکے تھے۔ عوام کی، تبدیلی کی اس خواہش کو جس کسی نے بھی بھانپا وہ بھی ملک سے مخلص ٹھیرا، چونکہ اس تبدیلی کو عمران خان نے عملی جامہ پہنایا اس لیے انہوں نے بھی یہ ثابت کیا کہ ان کی سیاست ملک اور قوم کی بہتری کے لیے ہے۔
پوری قوم پہلی بار یہ بھی محسوس کررہی ہے کہ ’’تبدیلی‘‘کی بازگشت میں جمہوری حکومت اور فوج میں حقیقی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ایسی ہم آہنگی کا دعویٰ پیپلزپارٹی کی 2008ء کی حکومت کے پہلے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی کرچکے۔ لیکن اُس وقت بھی میرا یہی خیال تھا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا جمہوری حکومت اور عسکری قیادت میں ہم آہنگی کے دعوے کا مقصد اپنی حکومت کے تحفظ اور اس حکومت کے دوران ہونے والی دہشت گردی اور دیگر کارروائیوں پر عسکری قیادت کو بدنام کرنا بھی تھا۔ کیونکہ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ملک میں جمہوریت مکمل آزاد ہے اور فوج جمہوری اداروں سے دور رہنا چاہتی ہے۔ انہوں نے فوج کو جمہوری اداروں سے دور رکھ کر دراصل اس حکومت کو کھلی چھوٹ دے دی تھی۔ اُس دور میں سیاست دانوں سے آرمی افسران کی کسی بھی طرح کی ملاقاتوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ یہ اس لیے کیا گیا تھا کہ ملک میں جمہوری حکومت عوام کی توقعات اور خواہشات کے مطابق آزادانہ حکمرانی کرسکے۔ مگر سبھی نے دیکھا کہ اس ’’مادر پدر آزاد‘‘ حکومت کی وجہ سے پورے ملک کا نظام ہی خراب ہوچکا تھا۔ صرف امن و امان کی صورتِ حال ہی نہیں بلکہ معاشی حالات بھی ابتر ہوچکے تھے، جس کی وجہ سے 2008ء سے 2013ء کے اس جمہوری دور کو بدترین دور قرار دینے کے ساتھ عوام فوج کی طرف دیکھنے لگے تھے۔ اس لیے یہ کہنا بالکل ہی غلط تھا کہ عسکری قیادت اور جمہوری حکومت میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
بہرحال اب اللہ کے حکم سے ملک میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوکر ٹریک پر دوڑنے لگی ہی تھی کہ امریکہ نے دھمکی دینا شروع کردی۔ امریکہ نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے تو پھر اسے ہماری خواہش کے مطابق ہی کام کرنا ہوگا۔ امریکی حکومت اور نئی پاکستانی حکومت کے تعلقات میں تلخیاں آنے کے بعد واشنگٹن کی جانب سے بیان جاری کیا گیا ہے کہ اگر پاکستان امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے تو اسے افغانستان کے حوالے سے امریکی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔ رپورٹ کے مطابق امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی حکمت عملی یہ ہے کہ افغانستان میں امن کے حصول کے لیے طالبان کو فوجی اور سفارتی دبائو کے ذریعے کابل کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اس حوالے سے واشنگٹن کو یقین ہے کہ طالبان اور کابل کے ساتھ مل کر کام کرنے سے امریکی فوج کی افغانستان سے باعزت واپسی ممکن ہوسکے گی۔ اس ضمن میں امریکی حکومت نے پاکستان کو گزشتہ ہفتے واضح الفاظ میں پہلا پیغام پہنچا دیا تھا جب امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے وزیراعظم عمران خان سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں موجود تمام دہشت گردوں کے خلاف مؤثر اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ابتدا میں پاکستانی حکومت نے اس گفتگو کے بارے میں امریکی مؤقف کو مسترد کردیا۔
ان دھمکیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ، بھارت، برطانیہ اور دیگر غیر مسلم ممالک پر مشتمل عالمی قوتیں کیا چاہتی ہیں۔ اپنی انھی خواہشات کی وجہ سے ان کی کوشش تھی کہ پاکستان میں عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) ہی کامیاب ہو۔ لیکن پاک وطن کے لوگوں نے ووٹ کے ذریعے مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو کنارے کردیا۔ وہ اسمبلیوں میں پہنچنے کے باوجود حکمرانی سے محروم ہے۔
ملک میں اصل تبدیلی یہ ہے کہ ایسی حکومت وجود میں آچکی ہے جسے عوام کے ساتھ عسکری قیادت کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ ایسی صورت میں اب کسی بھی ملک کی طرف سے پاکستان پر دبائو ڈال کر اپنی خواہشات پوری کرانا آسان ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔
امریکہ اور پڑوسی ملک بھارت کو اب دوستی یا بہتر تعلقات کے لیے معروف اصولوں پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔
امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کو اپنے حالیہ دورۂ پاکستان کے دوران وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات سے بھی بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پاکستان اب بدل چکا ہے، اس کی پالیسیاں اب وہ نہیں رہیں جو ماضی میں تھیں جس کے نتیجے میں امریکہ ’’ڈو مور‘‘ کہا کرتا تھا۔ امریکہ کو جان لینا ہوگا کہ اب ’’پتھروں کے دور میں پہنچانے‘‘ کی دھمکیاں بھی پاکستان برداشت نہیں کرے گا، کیونکہ اب پاک فوج نے بھی اپنی پالیسیوں کو ملک اور قوم کے مفاد میں تبدیل کرلیا ہے۔ اب جمہوری حکومت اور عسکری قیادت ایک ہی مؤقف کو لے کر آگے بڑھیں گی۔

حصہ