ادارک محبت

458

سیدہ عنبرین عالم
کچھ عرصہ قبل آسیہ اندرابی کی ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی یہ مجاہدہ پاکستانیوں سے احتجاج کی اپیل کررہی تھیں۔ اس وڈیو میں جو بات سب سے حیران کن تھی وہ یہ کہ محترمہ آسیہ اندرابی نے درخواست کی کہ ’’آپ لوگ ہمارے زخمی ہونے اور شہید ہونے پر کیوں بات کرتے ہیں! آپ صرف یہ بات کریں کہ ہمیں آزادی دی جائے۔ ایک بار آزادی مل جائے تو جان دینا اور زخمی ہونا کوئی مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ آزادی ہے، ہماری قربانیوں کی آپ فکر نہ کریں۔‘‘
یہ الفاظ تھے یا سونے کے پانی سے لکھے جانے والے اقوالِ زریں۔ انتہائی حیران کن بیانیہ ہے۔ ہم تو ہر جگہ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ کشمیریوں پر ظلم ہورہا ہے، اس لیے وہ آزادی مانگتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان پر ظلم اس لیے ہورہا ہے کہ وہ آزادی مانگتے ہیں، جس دن وہ آزادی مانگنا چھوڑ دیں گے ان پر مظالم بند ہوجائیں گے اور دس لاکھ بھارتی فوج واپس چلی جائے گی۔ جب وجہ ’’ظلم‘‘ نہیں ہے تو وہ کیوں آزادی مانگتے ہیں؟ کوئی ڈیل کرکے آسانی کی زندگی بسر کیوں نہیں کرلیتے؟ کروڑوں مسلمان بھارت میں رہتے ہیں، کبھی پٹتے ہیں، کبھی روتے ہیں، کبھی بھوکے مرتے ہیں، وہ تو کبھی بھارت سرکار کے خلاف آزادی کا نعرہ بلند نہیں کرتے، وہ تو ہنسی خوشی گائے کھانے پر قتل ہوجاتے ہیں، اپنی بیٹیوں کی ہندو لڑکوںسے شادیاں کردیتے ہیں، اور جھوم جھوم کر عید، ہولی اور کرسمس تینوں تہوار مناتے ہیں۔ ان کی غیرت کبھی نہیں جاگتی، وہ کبھی کسی ہندوستانی فوجی کو پتھر نہیں مارتے، لہٰذا ہندوئوں کے چرنوں میں امن کی آشا گاتے ہیں اور نہایت اطمینان سے روشن خیال اسلام کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ آخر کشمیریوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے، یہ کیوں آزادی مانگتے ہیں؟
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر وقت ہر قسم کا ظلم توڑا جاتا۔ تمام اہلِ قریش آخرکار حضرت ابوطالب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جتنی دولت چاہیے ہم تمہارے بھتیجے کو دینے کے لیے تیار ہیں، کوئی خوب صورت لڑکی شادی کو چاہیے تو ہم اپنے خرچے پر شادی کرا دیتے ہیں، اور اگر کسی ماہر طبیب سے علاج کی ضرورت ہے تو ہم کرائے دیتے ہیں، بس یہ ہمارے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریخی جواب دیا کہ اگر یہ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دیں تو بھی میں اللہ کے احکامات پہنچانے کا کام جاری رکھوں گا۔
یہی اٹل استقامت اُس وقت نظر آتی ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے الائو میں پھینکا جارہا ہوتا ہے۔ پھینکنے والے ڈرتے ہیں، مگر جس کو پھینکا جا رہا ہے وہ انتہائی سکون سے آگ میں پھینکے جانے کا منتظر ہے، اور جب آگ میں پھینک دیا گیا تو بھی سکون سے شعلوں میں استراحت فرماتے ہیں، یہاں تک کہ آگ کے شعلے پھولوں اور کلیوں کے بستر میں تبدیل ہوگئے۔
جب ہم فلسطین میں دیکھتے ہیں تو صورتِ حال مزید حیران کن ہوجاتی ہے۔ کیا مسجدِ اقصیٰ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ ہے؟ کیا باقی دنیا کے مسلمانوں کے لیے اس کی کوئی حیثیت نہیں؟ مگر جس وقت اربوں مسلمان خوابِ غفلت میں کھوئے ہوتے ہیں تو یہ فلسطینی اسرائیلی میزائیلوں، بموں، ڈرونز اور ٹینکوں کا مقابلہ پتھروں سے کرتے نظر آتے ہیں۔ جب سعودی عرب کے رئیس اور کعبے کے محافظ نئے مندر کھولنے میں مصروف ہیں اور پاکستان جیسی اسلامی ایٹمی قوت کے حکمران نئی آف شور کمپنیوں کی ملکیت حاصل کرنے میں مشغول ہیں، یہ بھوکے ننگے بے گھر فلسطینی آخر کسی کا کیا بگاڑ لیں گے! یہ لوگ ہماری طرح یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہم بے چارے کیا کرسکتے ہیں؟
قسم کھا کر کہتی ہوں اگر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہیں سے کشمیریوں اور فلسطینیوں کو دیکھتے ہوں گے تو حیران ہوجاتے ہوں گے کہ 14 سو سال بعد بھی اس درجے کا ایمان مومنوں میں موجود ہے۔ دوسری طرف وہ شامی مسلمان بھی ہیں جو جانیں بچاکر بھاگ رہے ہیں۔ آپ نے کبھی کسی مفرور کشمیری اور فلسطینی کو نہیں دیکھا ہوگا کہ یہ لوگ مغربی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دے رہے ہیں۔ نہیں، یہ بھاگ جانے سے زیادہ شہید ہونا پسند کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو ہمارے ایمان اور ایک کشمیری کے ایمان کو اس قدر مختلف بنا دیتی ہے؟ ہمارے سینے کیوں نہیں بھڑکتے؟ ہمیں ایمان کی آگ کیوں نہیں سلگاتی؟ ہم کیوں ہر غلط چیز پر سمجھوتا کرلیتے ہیں؟ بس اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد محفوظ رہے، باقی پورا ملک، پوری امتِ مسلمہ جائے بھاڑ میں… اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے پہلے ہم کو اس وجہ کا تجزیہ کرنا ہوگا جس کے لیے کشمیری اور فلسطینی آزادی چاہتے ہیں۔
فلسطینی عام طور پر شعائرِ اسلام کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ فلسطین بجائے خود انبیاء کی سرزمین اور قبلۂ اوّل ہونے کی بنیاد پر ایک شعارِِ اسلام ہے، اور اس سرزمین کا یہودیوں کے ہاتھ میں چلے جانا نہ صرف ہمارے اسلاف بشمول سلطان صلاح الدین ایوبی بلکہ تمام عالمِ اسلام کے لیے بدترین ذلت ہوگی۔ لیکن تمام عالمِ اسلام اس لیے بری الذمہ ہوگیا کیونکہ سب فلسطین میں نہیں رہتے، اسلاف کی حرمت اور اسلام کی عزت بچانے کا کام زخموں سے چُور صرف اُن فلسطینیوں کے ذمے لگا دیا گیا ہے جو فلسطین کے رہائشی ہیں، اور سلام ہے ان فلسطینیوں کو جو تمام مسلم دنیا کی ذمے داری اپنے کاندھوں پر اٹھائے شہادتیں قبول کررہے ہیں۔
کشمیریوں کا مسئلہ مختلف ہے۔ یہ لوگ بالکل وہی جذبہ رکھتے ہیں جو پاکستان بنانے والوںکا تھا، یعنی یہ لوگ مکمل طور پر ہندوانہ اور دیگر غیر اسلامی تہذیبوں سے الگ ایک مسلم ماحول میں رہنا چاہتے ہیں، ان کو لگتا ہے کہ پاکستان نے بھی تو آزادی حاصل کرلی تھی اور ایک خطۂ زمین اسلام کے نام پر آباد کیا تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ اس لیے انہوں نے پاکستان کو ہی اپنا آئیڈیل مان لیا ہے اور شدید خواہش رکھتے ہیں کہ پاکستان میں شامل ہوجائیں۔ پاکستان میں بڑھنے والی بے راہ روی، کرپشن، جعل سازی، دھوکا، جھوٹ، ہوس… غرض کوئی بھی چیز ان کے خوابوں کے محل میں دراڑ نہ ڈال سکی۔ یہ لوگ اب بھی پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر اپنے شہیدوں کو سپردِ خاک کرتے ہیں، اب بھی پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں، حالانکہ ہم کو کشمیر بھی گروی رکھ کر آئی ایم ایف سے قرضہ لے لینا ہے۔
غور کیا جائے تو کشمیری اور فلسطینی دونوں اللہ کی محبت سے سرشار ہیں اور اللہ کے دین کی حفاظت کے لیے بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرا رہے ہیں، اور ہم…؟ ہمارا یہ حال ہے کہ شعائر اللہ کی حفاظت میں جان دینا تو دور کی بات، ہم اپنی نماز اور روزے کی بھی حفاظت نہیں کر پاتے، ہم اپنا حلیہ تک ایسا بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں جو ہمیں اللہ کے فرماں برداروں کی پہچان دلوا سکے، کشمیریوں کی طرح کفر سے ٹکرانا تو دور کی بات، ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ بنے بنائے ملک میں ہی اسلامی نظام نافذ کرلیں۔ یعنی اگر فلسطینی اور کشمیری ایمان کا 95 فیصد کا درجہ رکھتے ہیں تو ہم شاید 6 فیصد پر ہیں۔ ایسی صورت میں بگاڑ کی موجودہ صورتِ حال کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ایمان میں اور اُن کے ایمان میں اتنا فرق کیوں ہے؟ شاید ہمیں اللہ سے ہی محبت نہیں ہے، اس لیے نہ ہمیں اُس کے شعائر سے محبت ہے نہ اس کے نظام سے، اور ان سلسلوں میں نہ ہم کسی کاوش کے قائل ہیں نہ قربانی کے۔
محبت کیسے پیدا ہوگی؟ اس کے دو طریقے ہیں: محبوب سے ازحد شناسائی جو محبت میں تبدیل ہوجائے، یا محبوب کے اس قدر احسانات ہوں کہ سر ہی زیربار ہوکر محبت کا شکار ہوجائے۔ جہاں تک شناسائی کا تعلق ہے تو ہمیں بچپن سے قرآن پڑھایا جاتا ہے، نماز کی تربیت دی جاتی ہے، اٹھتے بیٹھتے بسم اللہ، ماشاء اللہ، الحمدللہ جیسے الفاظ بول کر ہماری پرورش کی جارہی ہے، پھر کہاں کمی رہ گئی؟
جہاں تک احسانات کا تعلق ہے تو اللہ نے جتنے احسان کشمیریوں اور فلسطینیوں پر کیے ہیں ہم پر اس سے تو زیادہ ہی کیے ہوں گے۔ ہمارے گھروں پر بلڈوزر نہیں چڑھائے جاتے، ہمارے بچوں پر فائرنگ نہیںکی جاتی، ہم ایک ایک لقمے کو فلسطینیوں کی طرح چار چار دن نہیں ترستے، نہ کشمیریوں کی طرح ایک ایک مہینہ ہڑتالیں بھگتتے ہیں۔ پھر ہم احسان مند کیوں نہیں ہیں؟ ہم کیوں شکر گزار نہیں ہیں؟
قارئین! مجھے تو لگتا ہے کہ اللہ نے ہمیں اس قدر نواز دیا ہے کہ ہم اپنی اوقات بھول گئے ہیں، بلکہ ہم تو اللہ کو ہی بھول گئے ہیں۔ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہری بستیاں تو سجا دیتے ہیں مگر ان کی سنت تبلیغ و جہاد سے بالکل لاتعلق ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ مسلم امہ سے رفتہ رفتہ سہولتیں چھین رہا ہے۔ کسی سے آزادی چھین لی، کسی سے پانی چھین لیا اور کسی سے غیرت۔
نہیں… اللہ غصے میں نہیں ہے، اللہ چاہتا ہے کہ ہم واپس پلٹ آئیں۔ بس جتنی جلدی ہم ایمان کے 60 فیصد پر بھی واپس آجائیں تو سختیاں ختم ہوجائیں گی۔ وہ ہمیں بیدار کرنے کے لیے ہلکے ہلکے جھٹکے دے رہا ہے۔ وہ ہم سے بے حد پیار کرتا ہے، اس لیے ہمیں غفلت میں دیکھ کر کڑھتا ہے، افسوس کرتا ہے کہ اس کے بندوں اور کافروں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ وہ چاہتا ہے کہ فرق پیدا ہو، اس لیے کبھی موسم کی سختی سے جگاتا ہے، کبھی پانی کی کمی سے، کبھی بجلی کی کمی سے۔ ہمیں احسانات کا شکر ادا کرنا ہے۔ ان احسانات کو استعمال کرتے ہوئے ناقدری، بے فکری اور بے حسی سے بچنا ہے۔ ہم کو خود بھی دوسروں پر احسان کرنے ہیں تاکہ جو اللہ نے احسانات کیے، ان کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جائے۔
صرف اذان کے وقت ٹی وی کی آواز بند کردینے سے اللہ سے شناسائی پیدا نہیں ہوگی۔ روز کم از کم ایک رکوع قرآن ترجمے سے پڑھیں، تفسیریں پڑھیں، زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کی کتاب کے ساتھ گزاریں تو ہوگی اللہ سے شناسائی پیدا۔ جب شناسائی ہوگی تو آہستہ آہستہ محبت بھی ہوجائے گی۔ ایک اور طریقہ ہے… آپ مرد ہیں یا عورت، آپ کے محلے میں جماعت کا درس کہیں نہ کہیں ضرور ہوتا ہوگا، معلوم کریں، وہاں ضرور جائیں۔ یہاں حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں اسلامی فہم و فراست پیدا کی جاتی ہے اور روزمرہ معاملات کی تربیت بھی اسلامی طریقے پر دی جاتی ہے، ساتھ ہی ساتھ آپ ایک جماعت سے منسلک ہوجاتے ہیں جو اگر دین کے نفاذ کا کوئی قدم اٹھائے تو آپ بھی ان کے ہمنوا بن کر کارِ خیر میں شریک ہوسکتے ہیں۔
کیا فلسطین اور کشمیر کے دس سال کے بچوں نے قرآن کی پوری پوری تفسیریں پڑھ رکھی ہیں جو بے جگری سے ٹینکوں کے آگے کھڑے ہوجاتے ہیں…! ان کی مائوں نے ان کے دل شیر کے بنادیے ہیں۔ یہ تربیت ہے جس نے ان سنگل پسلی کے بچوں کو فولاد بنادیا ہے۔ سینے پر گولیاں کھاتے ہیں اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہیں۔ جی ہاں، خواتین کا بہت بڑا کردار ہے۔ آپ اپنے بچوں کو ڈراتی، چھپا چھپا کر رکھتی ہیں یا ہراول دستے کا سپاہی بناتی ہیں۔
دیکھیے، اللہ جسے چاہے جتنی چاہے ہدایت دے، مگر کشمیری اور فلسطینی ہمارے رول ماڈل ہیں، وہ اگر چار دن بھوکے رہتے ہیں تو ہم ہفتے میں چار دن صرف سادہ خوراک سے کام چلائیں اور بچے ہوئے پیسے کسی ایسی تنظیم کو عطیہ کردیں جو مسلمانوں کی یک جہتی اور سالمیت کے لیے کام کررہی ہو۔ ہم ہزاروں روپے بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں، کچھ پیسے خرچ کرکے انہیں جسمانی تربیت جیسے کراٹے، جمناسٹک وغیرہ سکھا دیں، تاکہ امت پر برا وقت آئے تو بچے تربیت یافتہ ہوں۔ ہم اپنے لیے ہزاروں روپے کے کپڑے بناتے ہیں، پانچ ہزار کی جگہ تین ہزار کا سوٹ بنا لیں اور دو ہزار کسی بیمار یا بوڑھے کو دے دیں۔ سب سے پہلی چیز ہے نفس کی قربانی۔ میں آپ سے کشمیریوں اور فلسطینیوں جیسی قربانی نہیں مانگ رہی… بس چھوٹی چھوٹی باتیں جو آپ سے آسانی سے ہوسکیں۔ اپنی ماسی کے بچوں کو گھنٹہ بھر نکال کر پڑھا دیں، مسجد کے امام کے حالات کی خبر رکھیں، یا ایک یتیم بچہ اپنے بچوں کے ساتھ اتنے ہی پیار سے پال کر جوان کردیں۔ بس یہ چھوٹی چھوٹی قربانیاں ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کیا کرسکتے ہیں، مگر وقت آگیا ہے کہ اللہ کو احساس دلائیں کہ ہم آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ورنہ اللہ اگر بڑے جھٹکے دینے پر آگیا تو ہماری حالت کشمیریوں، فلسطینیوں سے بھی بدتر ہوگی۔

حصہ