۔1965ۓ کی جنگ اور ایک مشاعرے کی روداد

389

مشیدہ فاروقی
۔5ستمبر 1969ء ۔ بروز جمعہ
’’میرے بھتیجے عارف کے پیر میں کچھ دنوں سے تکلیف تھی ڈاکٹرز نے ہسپتال میں داخل کرنے کو کہاآج شام ہم اس سے ملنے کو گئے تھے پورے وارڈ میں بڑے بڑے مردوں کے درمیان دس سال کا بچہ کس طرح رہے گا؟ چلو یہ بھی غنیمت ہے کہ صرف ہفتہ بھر اسے یہاں رہنا ہوگا۔ کتنی دیر تک میری گود میں سر رکھ کر لیٹا رہا، میں سب بچوں کے حصے سے زیادہ ٹافیاں اس کے لیے لے کر گئی تھی۔ اتنی زیادہ ٹافیاں پا کر وہ خوش ہوگیا۔
’’پھوپھی! وہ یکدم آٹھ کر بیٹھ گیاآنکھوں میں شکایت اور مایوسی بھری تھی بولا یہاں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ آج کیا دن ہے؟ چھ ستمبر کب آیا، کب گزر گیا ہمیں تو پتہ ہی نہیں چلا، میں نے اسے آگے بڑھ کر پیار کرلیا اور کہا، منے چاند۔ ابھی آیا کہاں ہے کل آئے گا۔ اچھا وہ کھل کھلا ا کر ہنس پڑا۔
6۔ ستمبر 1969۔ بروز ہفتہ
یوم دفاع بڑے جوش خروش سے منایا گیا۔
میں کچن میں تھی جب ریڈیو پر مہدی حسن کا گایا ہوا ترانہ شروع ہوا۔ اللہ کے وعدے پہ مجاہد کو یقین ہے، اور پھر میرے سارے جسم میں وہ دن یاد کرکے جب جنگ کا آغاز ہوا تھا سرد لہریں دوڑ گئیں۔ بشری طویل قصہ سنارہی تھی، اور میں نے اسے خاموش کروادیا ۔ سارا دن ریڈیو پر جنگی ترانے سنائے جاتے رہے ہر اخبار شہیدوں اور مجاہدوں کے کارناموں سے پر ہے۔
آج پہلی بار شاکرہ عباسی کی تصا ویر روزنامہ جنگ نے چھاپیں۔ دلہن بنی شاکرہ کتنی پیاری لگ رہی ہیں۔ صرف پانچ ماہ کی رفاقت!
اور جدائی کی طویل راتیں۔ اب بقیہ زندگی کی ساتھ بن جانیں گی۔
ایک عام سی زندگی کا سوچیں کوئی اپنی پانچ ماہ کی نئی نویلی دلہن کو گھر کے حوالے کرکے کھین جانے لگے تو سارا خاندان کسی خالی دیگ کی طرح بجنا شروع ہوجاتا ہے۔ بھانت بھانت کے خدشات فضاء میں اچھل کود شروع کردیتے ہیں۔ اور ایک یہ میری سرحدوں کے محافظ۔ میرے دیس کی سیسہ پلائی دیوار کیسے لمحہ بھر میں اپنی زندگی کو اللہ تعالی کے سپرد کرکے اپنے وطن کی حفاظت
کو اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ جاگ اٹھا ہے سارا وطن۔ اے ساتھیو۔ مجاہدو
29۔ ستمبر 1969 ۔ بروزاتوار
کراچی سے آئے ہوئے مہمان لاہور کو بائے بائے کرکے جاچکے۔ ہم سب پر اداسی تھی۔ اسے دور کرنے روزنامہ مشرق کے دفتر چلے گئے۔ آپا نثار فاطمہ کے پاس بیٹھ کر کچھ دیر گپ شپ کرتے رہے۔ پروین محمد علی (مشرق کی لیڈی رپورٹر) آئیں اور دوچار لوگوں سے فون پر باتیں کرکے چلتیں بنیں۔
کل شاہی قلعہ کے دیوان خاص میں 65 کی جنگ کے شہداء کی یاد میں حکیم سید ظفر حسن عسکری صاحب مشاعرہ کروارہے ہیں۔ آپا نثار فاطمہ چلنے کو دعوت دے رہی ہیں، بھائی جان سے انھوں نے پہلے ہی اجازت لے لی تھی۔ کل رات چلیں گے، انھوں نے رخصت ہونے سے پہلے پھر یاد دلایا۔ ہم نے بھی اب سے پہلے ریڈیو پر دو چار مشاعرے سنے تھے، کبھی حمایت علی شاعر کو سن لیا، کبھی کسی اور کو۔ چلو بی ڈائری اب اجازت۔ کل ملیں گے مشاعرے کی روداد کے ساتھ۔
30۔ ستمبر 1969 ۔ بروز پیر
رات گئے مشاعرے سے واپسی ہوگئی۔
اب کریں گے ہم تم سے باتیں۔ تو سنو۔ آج شاہی قلعہ کے دیوان خاص میں مشاعرہ تھا۔ ارد گرد کا ماحول بھی کسی پرانے شاہی محل کا تھا۔ کھین کھین رنگ برگ لباس میں مورچھل جھلتے شاہی قلعہ کے خدام موجود۔ دھیمی دھیمی جلتی روشنیاں، خواتین کے رنگ برنگ ملبوسات مرد حضرات کھین سوٹ میں ملبوس تو کھین شیروانی کو پروقار جھلک۔کیسا پرسکون ماحول تھا۔ یہ سب کچھ اور تقریبات سے الگ کیوں ہے؟
’’مشیدہ ادھر دیکھو۔‘‘ نثار فاطمہ نے جیسے سرگوشی کی ہو۔ وہ دیکھو۔ وہاں شہید شامی صاحب کی فیملی بیٹھی ہے۔ وہ عنبرین شامی ہیں، شامی صاحب کی بیٹی۔ معصومانہ لڑکپن۔ چہرے پہ کچھ کھو جانے کا غم۔ اچھا‘‘
65 کی جنگ کا آغاز۔
صدر مملکت کا ریڈیو پر قوم سے خطاب
شہروں میں سر شام بلیک آوٹ کی تاریکی ہم اپنے گھروں میں بھی آھستہ باتیں کرتے۔ سرحدوں پر موجود محافظوں، کی سلامتی کے لیے دعائیں، اپنے وطن کے سلامت رہنے کی دعائیں۔ روزنامہ جنگ میں میجر عزیز بھٹی شہید کی جب پہلی تصویر شائع ہوئی تو میں نے اپنے بھائی سے فرمائش کی کہ مجھے ان کی تصویر لا دیں۔ نہ جانے میں نے کیوں یہ سمجھ لیا تھا کہ اس جنگ کے پہلے اور آخری شہید عزیز بھٹی ہیں اور پھر جب رفتہ رفتہ انگنت شہیدوں کے کارنامے، جائے شہادت، بہادری کے قصے سامنے آتے گئے تو احساس ہوا کہ ایک عزیز بھٹی کی تصویر اپنے البم میں لگا لینا کچھ نہیں۔ میرے وطن کے ہر فرد کو ان کی جان فروشی کے جذبے کو اپنے اندر سمولینا ہوگا۔کہ ہمارا دشمن ہم سے دور نہیں ہمارے آس پاس ہی موجود ہے۔
مشاعرے کا آغاز ہوا تو مختلف شعراء اپنا کلام سناتے رہے، مشیر کاظمی نے سامعین کے اصرار پر شہداء کے نام سلام سنایا۔ بیگم شامی شہید اپنے چہرے پہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ ساتھ مشیر کاظمی کے الفاظ دھرا رہی تھیں۔
’’علی بھی ان کی شجاعت پہ ناز کرتے ہیں۔‘‘
خاتون شاعرہ ڈاکٹر نسیم اعظم کو بلوایا گیا۔ اپنے وجود کو ڈھکا چھپا اطمینان آمیز چہرہ ہمارے سامنے تھا۔ ان کے الفاظ ہمارے کانوں تک پہنچے اور ضبط کے بندھن ٹوٹتے چلے گئے۔
عزیز بھٹی شہید شامی ہر آنکھ نم ہے کہ تم نہیں ہو۔
ہماری سانسوں میں تم بسے ہو تو دور کیوں ہو یہیں کہیں ہو
ایک گونج تھی جو ہر طرف سے آرہی تھی۔ ہماری سانسوں میں تم بسے ہو تو دور کیوں ہو، یہیں کہیں ہو۔ یہیں کہیں ہو۔ یہیں کہیں ہو۔۔۔ رہے نام اللہ کا

حصہ